یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ خاک ہند کی خمیر علم وفضل، زہد وتقوی، حکمت ودانائی سے گندھی ہوئی ہے ہر زمانے میں علم وحکمت کے نیّر پیکر ابھرے، اس کے وسیع دامن میں ہمیشہ علوم وفنون کے بیل بوٹے جھلملاتے رہے، اسکی قسمت کا ستارہ برابر اوج ثریاپر جگمگاتا رہا، اس کی آغوش میں یگانہء روز گار اوربے تاج سلاطین پرورش وپرداخت پاتے رہے، اسکے سائے عاطفت وشفقت کے تلے چوٹی کے علماء واولیاء پروان چڑهتے رہے، اس کے افق پر ہمہ وقت فہم وفراست کے درخشاں آفتاب وتابندہ ماہتاب اپنی خشک تاب تپش آمیز کرنوں سے گمراہ قلوب وبھٹکے اذہان کو گرماتے اور دمکاتے رہے ۔
کبھی اس روشن خورشید میں اضمحلالی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے اس حکمت وآگہی کی خمیر سے ملا جیون ؒتیار ہوئے، کبھی بحر العلوم عبد العلی فرنگی محلی ؒ ،کبھی خواجہ معقولات ومنقولات محب اللہ البہاری ؒ ،کبھی فاضل نبیل امان اللہ البنارسی ؒ ،کبھی محدث دھلوی ؒ ،کبھی محقق دھلوی ؒ ،کبھی سیف اللہ المسلول علی اعداء الرسول علامہ فضل حق خیرآبادیؒ، کبھی علامہ القمقام فضل رسول بدایونی ؒ تیار ہوئے۔مگر چودھویں صدی ہجری کے نصف اول میں جو آفتاب عالم تاب افق علم پر طلوع ہوا اسکی ضوفشانی وضیاپاشی کا حال عجیب وغریب تھا، جو آسمان فکر وفن کا سلطان تھا، جو کشور علم وادب کا بادشاہ تھا ،جو شعور وآگہی کا تاباں جوہر تھا، جو معقولات ومنقولات کا بحر بیکراں تھا، جو زہد وتقوی کا لا ساحل سمندر تھا، الغرض وہ عظیم الشان شخصیت رنگارنگ وگوناگوں خصلتوں کا مجمع البحرین تھا وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ ہم اور آپ اور پوری دنیا ئے سنیت اعلی حضرت عظیم البرکت رفیع الدرجات مجدد دین وملت پاسبان ناموس رسالت محافظ ختم نبوت امام عشق ومحبت مولانا وسیدنا ومرشدنا الشاہ محمد احمد رضاخان عبد المصطفی فاضل بریلوی ؒ کے نام نامی سے یاد کرتی ہے اور کرتی رہیگی۔ جو جل رہے ہیں انکو جلائینگے باربار
شکر وسپاس ہے اس خدائے جل جلالہ وعم نوالہ کا جسکی رحمت بے پناہ امام احمد رضا ؒ آرزوؤں کا ٹوٹا ہوا آبگینہ پھر جوڑ دیا پھر خوابیدہ حسرتیں جاگ اٹھیں ناکامیابیوں کی خاکستر سے دہکتا ہوا لالہ پھوٹا اور کئی صدیوں کی گمشدگی کے بعد ہمتوں کا بچھڑا ہوا سیل رواں اپنی منزل مقصود کی اصل رہ گزر پر پلٹ آیا امام احمد رضا ؒ نے گیسوئے تحفظ رسالت کو سنوارنے اور اسکی عظمتوں کا پھریرا بلند کرنے میں جو تاریخی کردار ورول ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے کیا خوب کہا: ہر رزم گاہ میں تیری تیغ آزمائی کی شہرت ہے
آپ ہمہ جہت اور سیماب صفت شخصیت کے ما لک ولا عدیل رہنما تھے فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب نگارش شگفتہ اور مزاج محققانہ تھا، علم رواں دواں اور شستہ تھا۔ اس تاریخ ساز شخصیت نے اپنے دور میں ابھر ے ستم شعار اور غداران مصطفی جان رحمت ﷺ کی جس طرح سرکوبی کی اور گستاخان رسول ﷺکی جس طرح بیخ کنی کی اس کی نظیر ومثیل پیش کرنے سے تاریخ عاجز وقاصر ہے ۔
دشمنان رسالت مآب ﷺ جس مسئلہ پر ایڑی جوڑی کا زور لگاکر سمجھے کہ ایک ایسا مضبوط واستوار قلعہ ہے جس کو آسانی سے کوئی بھی مسمار نہ کرسکے گا لیکن فاضل بریلوی ؒ اور انکے جانثار شاگردوں اور ہمنواؤں نے انکے سیال قلم سے اسکی ایسی دھجیاں بکھیرے کہ گستاخ کا وہ مضبوط ایوان ریت کی طرح بہہ گیا اورریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہوگیا ۔
فاضل بریلوی ؒکے دستر خوان علم سے بہتوں نے اپنی علمی تشنگی بجھائی عرب وعجم سے تلامذہ آپ کے فیض بیکراں سے فیض یاب ہونے کیلئے دور دور سے سفر طے کرکے آپ کى بارگاہ میں حاضر ہوتے بریلی سے علمی ہتھیار سے لیس ہوکر اپنے اپنے وطن مالوف کو لوٹ کر دین وسنیت کی نشر واشاعت اور بدعت وضلالت كا قلع قمع کرنے میں کوشاں وسرگرم عمل رہتے تھے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ سات سمندر پار بھی آپ کا علمی شہرہ موج تلاطم سے ٹکراکر سرزمین کیرالا میں بھی پہنچا آخر یہ علمی دبدبہ سن کر سرزمین ملیبار سے ایک ہونہار انتہائی ذہین وفطین علم دوست کا طالب آپکے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کیلئے حاضر خدمت ہوا اور فاضل بریلوی ؒ کے اس وسیع دسترخوان علم سے خوشہ چینی کرتے کرتے ایک ذات میں وہ طالب انحمن بن گیا وہ ایک فرد واحدتو تھا مگر پوری ملت اسلامیہ کے عقائد کا پاسبان غوث اعظم ؒ کے پرچم بردار امام شافعیؒ کے مسلک فقہی کا پاسدار امام غزالی ؒکے تدبر کا افتخار امام رازی ؒکی گرہ کشائیوں کا امانتدار مجدد الف ثانی ؒکی شان تجدید کا آئینہ دار اور فاضل بریلوی ؒکے عشق رسول ﷺ کا در شاہوار تھا ۔
بریلی سے اپنے وطن محروس لوٹ کر شجر اسلام کے برگ وبار کو زمانے کی بلا خیزیوں سے محفوظ کیا وہ اور کوئی نہیں تھا بلکہ فاضل بریلوی ؒ کے سچے جانشین وقائم مقام جس کو شیخ المشائخ یا استاذ الاساتیذ یا مرجع الخلائق ہونے کا شرف حاصل ہے جس کے علم وحکمت کے چشمے سے سارا ملیبار سیراب ہوا جن کو اہل ملیبار اور بعض ذوی العلم حضرات الشیخ ابو السعادات شہاب الدین احمد کویا ازہر الشالیاتی الملیباری نور الله مرقده کے نام سے یاد کرتے ہیں اب ہم بلا تمہید وتاخیر آپ کی روشن زندگی کے کچھ اہم گوشوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ آپکی حیات بابرکات کے مطالعے کے بعد بے انتہاء ندامت وحسرت کے ساتھ یہ احساس دامن گیر ہوا کہ اہل سنت وجماعت مسلک اعلی حضرت ؒ نے شعوری یا غیر شعوری طور پر نہ جانے کتنے ان جیسے کاملین وقت کو نظر انداز کرکے گمنام ماضی کا حصہ بنادیا جن کی سیرت وصورت جدید نسل کیلئے مشعل راہ بن سکتی تھی رب قدیر سے دعاگوہوں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطافرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
ولادت بابرکت: علامہ شہاب الدین احمد کویا شالیاتی حضرت علامہ کنجی علی کٹی مسلیار کے صاحب زادے تھے آپ کی ولادت قریہ چالیام 23 جمادی الآخر 1302ھ کو ہوئی۔ آپ کی والدہ محترمہ فریدہ بیوی بہت بڑی عابدہ اور تہجد گذار عورت تھیں۔ آپ نے اپنی تاریخ ولادت نصر من اللہ و فتح قریب سے نکالی آپ کے والد نے آپ کا نام احمد کویا رکھا شہاب الدین آپ کا پیارا لقب ہے اور کنیت ابو سعادات ہے آپ بسا اوقات اشعار بھی کہتے تھے اس مناسبت سے، ازہر،آپ کا تخلص تھا اسی ازہر کی طرف منسوب آپ کی معرکۃ الآرا تصنیف الفتاوی الازہریہ ہے اور آپ کا دار الافتاء بھی دارالافتاء ازہریہ سے معروف و مقبول عام و خاص تھا۔
تعلیم و تربیت: ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد صاحب سے حاصل کی پھر درس فخری کی بڑی کتابیں آپ فقیہ عصر علامہ چالل اگت کنجی احمد حاجی مسلیار ؒ اور یگانۂ روزگار صوفی باصفا مرد مجاہد عالی مسلیارؒ سے پڑھیں۔ درس فخری وہ نصاب تعلیم ہے جس کو قاضی فخر الدین ابو بکر الشالیاتی ؒنے مرتب کی تھی اس زمانے میں ملیبار میں وہی رائج و عام تھاکیرلا کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ اعلی تعلیم کی غرض نبیل سے جامعہ لطیفیہ ویلور شریف میں داخلہ لیا آپ انتہائی ذہانت کے مالک تھے
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
آپ کے علم و حکمت کی گہرائی و گیرائی سے آپ کے اساتذہ و شیوخ حیران و ششدر رہ جاتے تھے آپ پر آپ کے اساتذہ ناز و افتخار کرتے تھے اسی مہارت اور درک کامل کو مد نظر رکھتے ہوئے نبیرۂ قطب ویلور پیر طریقت رہبر شریعت قدوۃ الصالحین بقیۃ السلف حضرت علامہ الحاج السید شاہ محمد رکن الدین قادری ویلوریؒ نے دوران تعلیم ہی آپ کو معاون مدرس مقرر کیا
کیا خوب کہا ہے :
بالائے سرش زہوشمندی می تافت ستارۂ بلندی
رجب 1329ھ مطابق 1909ء میں جامعہ لطیفیہ ویلور شریف سے اکابر اہلسنت کے دست اقدس سے آپ کی دستار بندی ہوئی دوران تعلیم ہی دار الافتاء کے بھی رکن تھے ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں دین کی خدمت میں سرگرم عمل رہے،کرناٹک،تمل ناڈو،کیرلا،آندھرا وغیرہ میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دی ۔
فاضل بریلوی کی بارگاہ عالی میں:جامعہ لطیفیہ کے فراغت کے بعد آپ ہندوستان کے متعدد ریاستوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے چند سال کے بعد باشارہ نبیرۂ قطب ویلورؒ آپ تحصیل علم فقہ حنفی کے لئے یو پی بریلی شریف روانہ ہو گئے وہاں پہونچ کر آپ نے سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی ؒسے تمام علوم و فنون کی اجازت حاصل کی خصوصا حنفی فتوی نویسی کی اجازت آپ نے سرکار اعلی حضرت ؒہی سے حاصل کی علامہ خود رقم طراز ہیں :
ومن اجلہا فی فقہ السادۃ الحنفیۃ ما ارویہ عن علامۃ المؤید والفہامۃ المسدد الفقیہ المحدث المسند مولانا الشیخ الحاج المفتی احمد رضا خان عن مفتی الحنفییہ بمکۃ المحمیہ مولانا الشیخ عبد الرحمن السراج ابن المفتی الاجل مولانا عبد اللہ السرا ج الخاس کے علاوہ ملیالم اسلامی اینسائکلوپیڈیا میں بھی اس کی صراحت ملتی ہے آپ کو بیک وقت چار فقہوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔
بیعت و خلافت :علامہ شالیاتی کی ذاتی والا صفات کے خورشید نصف النہار کی ضیا پاشیوں سے علم و عرفان کا گوشہ گوشہ اس قدر بقعۂ نور بنا کہ ذرے ذرے سے پھوٹنے والا ایک ایک شعاع آسمان علم و حکمت اور فلک قلب و نظر کے مہر عالم تاب کیلئے باعث رشک بنی ہوئی ہے شریعت میں کامل دسترس و درک حاصل کرنے کے بعد آپ طریقت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں مکہ مکرمہ میں حضرت علامہ مفتی مکہ شیخ محمد حزب الدین سلیمان اعسکی کے ہاتھ سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوتے ہیں جیسے کہ پہلے مذکور ہوا کہ آپ نے فاضل بریلوی سے سلسلہء رضویہ برکاتیہ سے بھی بیعت تھے۔
تصنیفی خدمات : آپ اپنے قلم سیال سے ایسی ایسی کتابیں تصنیف فرمائی جس کا مطالعہ قلوب کو منور و معطر بنا دیتا ہے آپ نے اپنی تصانیف میں عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ دل آویز انوار پیش کیا جو اذہان کو پاکیز گی اور گلستان حیات کو پھبن عطا کرتی ہے آپ ہی کی تصانیف مبارکہ نے سرزمین ملیبار سے کفر و ضلالت بدعت و گمراہی کی تیرگی کا قلع قمع کیا ۔آپ کی تحریر میں سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ہی رنگ و بو ملتی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں آپ لکھتے ہیں ولاح من القرائن ان الالحاق من جانب المولوی اسماعیل الدہلوی فانہ اول من مال الی النزعۃ التیمیۃ و النزعۃ النجدیۃ فی الہند و اقتفی اثرہ من اضلہ اللہ علی علم
تقویۃ الایمان (تکویۃ الایمان)کے متعلق آپ رقم طراز ہیں ہذا کتاب رأس الوہابیۃ فی الہند و اساس الفرقۃ المحدثۃ فی دیوبند وقد رد علیہ اعلام علماء اہل سنۃ الجماعۃ من اہل الہند و السند و العجم واهل الحرمین و العرب فلا تغتر بما فی هذا الکتاب من المضامین فان فیہ کلمات حق ارید بہا بواطل فتدبر ولا تخسر واللہ الموفق یہ وہی عبارت ہے جس کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے دام فریب و مکر کو خوب سمجھے اہل ملیبار کو آپ نے ہی تبلیغی جماعت کی قلا بازیوں سے آگاہ کیا تھا آپ کی تصانیف مبارکہ کی فہرست بہت طویل ہے مگر چند اہم تصانیف یہ ہیں
دفع الشر الاثیر عن الخیر الکثیر، شرح الارشادات الجفریۃ فی الرد علی الضلالات النجدیۃ ،تحقیق المقال فی بحث الاستقبال،منائح النیل فی مدائح جمل اللیل،تفتیح المغلق شرح تصریح المنطق،الفتاوی الازہریۃ فی الاحکام الشرعیۃ،الموعد فی المولد،مورد الازہر فی مولد النبی الاطہرﷺ،الحکم الراسخ فی صور المشائخ، سعی الخراب الی رمی التراب،الراتبۃ الازہریۃ لسلاک الطریقۃ القادریۃ،دفع الاوہام فی تنزیل ذوی الارحام،الکلام الحاوی فی رد الفتاوی والدعاوی
آپ شعری ذوق بھی رکھا کرتے تھے نحس الایام یعنی مہينوں میں وہ کون سے دن برے ہیں اس کے متعلق آپ کے تفصیلی اشعار موجود ہیں جن میں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں
اذا اردت النحس من ایام و سنۃ و جمعا علی التمام
فاول الایام من کل الشہر خیر لکل حاجۃ فالینتظر
کذاک ثانیہا اذ۱لم یکن من شہر شوال الی فلیصن
وثالث الایام یوم حذرا فلا تکن لحاجۃ منتظرا
آپ چند سال سلطنت نظامیہ حیدرآباد کے صدارت العالیہ کے مفتی بھی رہ چکے ہیں اس فقیر نے آپ کے بعض فتاوی کے خطوط بھی دیکھے ہیں۔ آپ بعض سلاطین سلطنت نظامیہ کے اتالیق بھی تھے ۔سلاطین نظامیہ کو آپ سے انتہا عقیدت تھی اسی وجہ سے آپ کو ہر ماہ تصنیف و تالیف کی مہم کے لئے سلطنت نظامیہ کے بیت المال سے سو روپیہ ملتے تھے آپ کے لئے خاص ایک لائبریری بھی تھی جس میں آپ نادر نادر کتابیں دنیا کے گوشے گوشے سے منگوا کر محفوظ کرتے تھے یہ آپ کی علم دوستی کی روشن دلیل ہے آج بھی وہ نادر کتابیں الماریوں میں محفوظ ہیں جب علماء حرمین،کیرالا تشریف لاتے ہیں تو کمپيوٹر سكين (computer scan)یا فوٹوسٹیٹ (photo stat) سے نقل کر کے لے جاتے ہیں چند سال قبل ناشر مسلک اعلی حضرت علامہ عبد الستار ہمدانی صاحب قبلہ پوربندر کو بھی آپ کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
وفات: آخر وہ افسوس ناک گھڑی بھی آگئی جس میں لاکھوں معتقدین ومریدین کا خون جگر اشکوں سے بھر آیا آخر یہ چمکتاچراغ قدرت کے زور دار ہوا سے گل ہوگیا 27 محرم 1374 ھ برزو یکشنبہ آپ نے اس دار فانی کو خیرباد کہہ کر عالم بقاء کا سفر اختیار کیا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ آپ کی وفات کی خبر ناگہانی اطراف عالم ونواحی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی لوگ دور دور سے آپ کی آخری زیارت ودیدار ونماز جنازہ کی شرکت کیلئے چالیم میں جمع ہوئے بعض مؤرخین کا بیان ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ اداکی آپ کی مسجد کے احاطے میں آپ کے جسد خاکی کو سپرد خاک کیا گیا آپ تمام دنیائے سنیت کو الم فراق دے گئے۔
فناکے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری
خدا کی رحمت ہو اے امیر کارواں تجھ پر
مصادر ومراجع
الفتاوی الازہریۃ
دفع الشر الاثیر
ملیالم اسلامی انسائیکلوپیڈیا
شالیاتی ؒ نمبر ملیالم
ماہنامہ بطحاء اعلی حضرت ؒ نمبر