کنڈوٹی سرزمین ملبار کا وہ مردم خیزعلاقہ ہے جہاں سے پورا کیرالا علمی سیرابی حاصل کرتا ہے۔ دور دراز سے تشنگان علوم نبویہ اس علاقہ کا رخ کرتے اور اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔کنڈوٹی عہد قدیم سے مرجع خلائق رہا ہے ایک طرف کنڈوٹی سادات کی سیادت دوسری طرف مخدومی علماء کرام وشرعی قاضیوں کی قیادت کنڈوٹی کی دینی فضامیں چار چاند لگا تی ہے۔قدرت نے فطری طور پرکنڈوٹی کو بیل بوٹوں سے سجانے کا کام کیاتو سادات عظام، علماء کرام وصلحاء ذی الاکرام نے اس پاک دھرتی کو نکھارنے میں اہم وناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ جس مرد قلندرکی پاک وشفاف زندگی ہم سپرد قرطاس کرنے جارہے ہیں وہ بنفس نفیس کہاکرتے تھے الحمد للہ خدائے لم یزل ولا یزال کا میں مشکور وممنون ہوں کہ میرے چھ اجداد علمی وروحانی شخصیتیں تھیں جنہوں نے اس پاک سرزمیں کی تاریخ کے گیسو سنوارنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ اس خاندان کی شہرت صوفی باصفا فقیہ النفس حضرت علامہ ومولانا چيروشیری علی مسلیار نوّر الله مرقده سے ہوئی جو اپنے وقت کے جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ طریقت ومعرفت کے شناور بھی تھے۔ جن کی علمی وروحانیت کا اثر آج بھی کنڈوٹی کے خاک میں موجود ہے۔ آپ کے اسم گرامی قدر کے سامنے جو “چيروشیری “ کا اضافہ ہے وہ روایتی خاندان کا نام ہے۔جیسے شمالی ہندوستان میں رضوی‘بدایونی‘ خیرأبادی خانوادے معروف ہیں ایسے ہی علاقہء ملیبار میں چيروشیری ‘ فضفری‘ کاڈیری‘ مخدومی وغیرہ معروف ومشہور علمی خانوادے ہیں۔
ولادت باسعادت: 20 رجب المرجب سن 1356 ھ بمطابق 25 ستمبرسن 1937 ء کو آپ حضرت علامہ چيروشیری محمد مسلیار کے گھر پیداہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ مخدومہء اہل سنت حضرت بنگالت فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا نیک صورت وپاک سیرت خاتون تھیں۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والدگرامی نے آپ کا نام دادا محترم کے نام پر زین الدین رکھا۔ آپ کے جد امجد حضرت علامہ چيروشیری زین الدین مسلیار نوّر الله مرقده وقت کے بڑے عالم اور جنگ آزادی کے عظیم قائد تھے۔ تو والد کریم کی دیرینہ خواہش تھی کہ میرا یہ فرزندارجمند میرے والد محترم کی طرح بڑا عالم وفقیہ بنیں اسی وجہ سے آپکا نام دادا کے پاک نسبت سے زین الدین رکھا۔
آپکا سلسلہء نسب کچھ یوں ہے شیخنا زین العلماء چيروشیری زین الدین مسلیار بن حضرت علامہ محمد مسلیار بن تاج الفقہاء حضرت علامہ زین الدین مسلیار بن فقیہ النفس حضرت علامہ احمد کٹی مسلیار بن حضرت علامہ کنجی ارمو مسلیار بن حضرت علامہ چيروشیری علی مسلیار رضی اللہ عن کلہم اجمعین
حسب ونسب کا بھی انسان کی ظاہری وباطنی شخصیت پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیم سے بھی یہ امر ثابت ہے۔جدید سائنسی تحقیقات بھی اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ وراثت میں بچے کو اپنے اجداد واسلاف سے اچھی وبری صفات منتقل ہوتی ہیں۔ مذکورہ تحقیق کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیخنا زین العلماء کی شخصیت کو نکھارنے وسنوارنے میں آپکے اجداد کی روحانیت بھی کارفرما رہی ہیں۔
تعلیم وتربیت: بچپن ہی سے آپ کافی ذہین وفطین تھے۔ حافظہ اتنا مضبوط تھا کہ یک بار اگر کچھ بھی نظر سے گزرتا وہ عقل وخرد میں نقش ہوجاتا تھا۔خاندانی روایت کے مطابق رسم بسم اللہ خوانی کے بعد آپ کے والد گرامی نے آپ کو کنڈوٹی وتوپلی بھیجا تاکہ ابتدائی تعلیم حاصل کرلیں۔ وتوپلی علاقہء ملیبار میں ابتدائی مکتب کو کہتے ہیں۔ وتوپلی کی تحصیل کے بعد آپ قاضیار اگم مدرسہ کا رخ کیا وہاں سے آپ نے شافعی فقہ کی ابتدائی کتابیں جیسے متفرد نور الابصار وغیرہ پڑھی۔قاضیار اگم مدرسہ کے اساتذہ میں حضرت مولانا چیکو ملّا قابل ذکر ہیں۔
ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے والد محترم سے درس نظامی کی اہم کتابیں پڑھی۔والد ماجد ماہر درسیات حضرت چيروشیری محمد مسلیار قاضیار اگم جامع مسجد میں تقریبا 50 سال تک امام وخطیب اور مدرس کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے۔قاضیار اگم جامع مسجد میں لگ بھگ آپ سات سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے پھر آپ نے منجری کا رخ کیا۔ منجری کے نامور مدرس حضرت علامہ عبد الرحمن مسلیار ووینگل رحمہ اللہ سے خوب استفادہ کیا۔درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ کے دل میں ایک نئی امنگ ابھری کے تحصیل سند کیلئے ام المدارس جامعہ باقیات صالحات ویلور تاملناڈو جائیں لیکن اسی دوران آپ کے والد محترم سخت علیل ہوگئے جس کی وجہ سے آپ باقیات ویلور جانہ سکے۔ جب شفایابی کے بعد آپ نے والد ماجد کے سامنے اپنی دیرینہ تمنا کا اظہار کیا تو آپ کے والد کریم کے زبان فیض ترجمان سے یہ جملے نکلے کہ بیٹا تمھیں تحصیل سند کیلئے باقیات ویلور جانے کی ضرورت نہیں ان شاء اللہ العزیز باقیات کے سند یافتہ علماء تمہارے پاس آئینگے۔رب ذو الجلال کی عزت وجلال کی قسم یہ جملے روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہوئے اور میری آنکھیں ہمہ وقت معائنہ کرتی رہیں کہ آپ کے دروازے پر استفتاء کیلئے علماء ذو الاحترام کی قطار در قطاریں لگی رہتی تھیں۔حافظہ اتنا قوی تھا کہ فقہی جزئیات مع سطر نقل کرتے اور کراتے تھے لیکن کتابوں کی ضرورت تک نہ ہوتی تھی۔یہ مناصب یہ علمی شہرت آپ کے والد محترم کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں تب ہی تو آپ نے فرمایا“تمہیں جانے کی ضرورت نہیں وہ تمہارے پاس آئینگے“۔
تدریسی خدمات: درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ خاندانی روایت کے مطابق درس وتدریس ودینی خدمت میں مشغول ہوگئے۔آپ دینی خدمت کے لحاظ سے کافی خوش نصیب تھے۔حدیث پاک میں من سعادۃ المرء ان یکون رزقہ فی بلدہ واولادہ ابرار (العلل لابن ابی حاتم)ایک انسان کی خوش بختی کی علامت ہے کہ وہ اپنے ہی جائے رہائش میں دینی خدمات انجام دیں اور معیشت حاصل کریں۔ آپ کنڈوٹی کے قریب گوڈنگاڈ میں تقریبا بیس سال تک درس وتدریس میں مصروف رہے۔اسی اثناء وقتی طور پر درس وتدریس کا سلسلہ موقوف کرکے آپ نے چالیم شریف کا رخ کیا۔ چالیم شریف وہ پاک ومقدس سرزمین ہے جہاں خلیفہء اعلی حضرت ابو السعادات شیخ الکمالات مفتی مسالک اربعہ حضرت علامہ شیخ شہاب الدین احمد کویاملیباری شالیاتی شافعی نوّر الله مرقده آسودۂ خاک ہیں۔چالیم کی جامع مسجد میں اس وقت استاذ الاساتذہ شیخ الشیوخ چشم وچراغ خاندان مخدوم حضرت علامہ زین الدین کٹی مسلیار نوّر الله مرقده مدرس تھے۔آپ نے شیخ موصوف سے فلکیات وعلم ریاضی وعلم توقیت کی نادر ونایاب کتابوں کا درس لیا پھر اک سال بعد کوڈنگاڈ جامع مسجد میں پھر درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔سن 1977ء میں چماڈ جامع مسجد میں درس کا آغاز ہوا تو بحیثیت مدرس چماڈ جامع مسجد تشریف لائے اور تقریبا سترہ سال تک چماڈ میں تشنگان علوم نبویہ کی علمی پیاس بجھاتے رہے۔دارالہدی اسلامک یونیورسٹی کے شیخ الحدیث استاذ محترم علامہ کے سی محمد باقوی دامت برکاتہم العالیہ وفقیہ النفس حضرت علامہ ومولانا محمد اسحاق باقوی مد ظلہ العالی دونوں چماڈ درس کے تعلیم یافتہ ہیں۔سن 1994 ء میں صوفی باصفا حضرت ڈاکٹر یو باپوٹی حاجی رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر دارالہدی میں بحیثیت پرنسپل آپ کی تشریف آوری ہوئی۔آپ کے قدوم میمنت لزوم سے دارالہدی کا نقشہ بدل گیا۔آپ کے ورود مسعود کے بعد دارالہدی کی شہرت اوج ثریا کو چھونے لگی۔کیرالا کے مختلف خطوں سے لوگوں کا جم غفیر دارالہدی کے صحن میں ہمیشہ قیام پزیر رہتا سن 1994 ء سے سن 2016ء فروری 18 تک یہ طویل عرصہ دارالہدی کا سنہرادور اور نشاۃ ثانیہ کہلاتا ہے۔
سمستا کیرالا جمعیت العلماء میں شمولیت: علاقہء ملیبارکا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں آپ کا علمی شہرہ نہ ہو۔گلی گلی شہر شہر آپ کے علمی دبدبہ کے ترانے الاپے جاتے تھے۔اسی علمی شہرت و فقہی جلالت کی وجہ سے آپ کو سمستا کیرالا جمعیت العلماء کی عظیم رکنیت حاصل ہوئی۔اسی سال آپ کو فتوی کمیٹی کا بھی رکن منتخب کیا گیا۔ايک سال کے بعد آپ کی فقہی دسترس کو دیکھ کر علماء کرام نے باتفاق اراکین جمعیت العلماء آپ کو فتوی کمیٹی کا چیئرمین بنادیا ۔تقریبا دو دہائیوں پر محیط آپ کی فقہی ودینی وملی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔سمستا کیرالا جمعیت العلماء کے 70 واں عظیم الشان تاریخی جلسہ میں شمس العلماء علامہ ای کے ابوبکر مسلیار نوّر الله مرقده کی ولولہ خیز تقریر ہونے کے بعد آپ نے حضرت علامہ زین الدین مسلیار کو آپ کی کرسی پر بیٹھایا گویا یہ اشارہ تھا کہ میرے بعد سمستا کیرالا جمعیت العلماء کے اگر کوئی جنرل سکریٹری بن سکتا ہے تو وہ حضرت علامہ زین العلماء زین الدین مسلیار ہیں۔اور یہ اس بات کی طرف غمازی کرتا ہے کہ یہ جلسہ میرا آخرى جلسہ ہے اور یہ خطاب میرا آخری خطاب ہے اس کے بعد حضور شمس العلماء بیمار ہوگئے اور چند دن بيتے نہ تھے کہ آپ نے پیک اجل کو لبیک کہا اور سنی مسلمانوں کو روتے چھوڑ گئے۔رب قدیر آپ کى خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور آپکے علمی فیضان سے ہم سب کو مالا مال فرمائے آمین۔
اجازت وخلافت: جہاں اک طرف آپ ایک عظیم فقیہ تھے وہیں آپ بحر طریقت کے بھی شناور تھے۔مرشد برحق کی تلاش وجستجو آپ کو ہمہ وقت بے چین کردیتی تھی اسی اثناء آپ کی ملاقات سلسلہء چشتیہ صابریہ کے عظیم شیخ طریقت حضرت علامہ عبد اللہ مسلیار المعروف کنیالا مولا سے ہوئی آپ حلقہء ارادت میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن پیر طریقت نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ طریقت کے ریاضت وکٹھن مجاہدے ان لوگوں کیلئے ہیں جن کے قلوب واذہان گناہوں سے ملوث ہوں الحمد للہ آپ کا دل تو آبگینہ کی طرح درخشندہ ہے آپ کو سلوک طے کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔پھر پیہم اصرار پر پیر طریقت حضرت علامہ کنیالا مولا رحمہ اللہ علیہ نے بعض مخصوص اذکار کی اجازت مرحمت فرمائی۔اسی طرح صوفی باصفا حضرت علامہ ابوبکر مسلیار چاپنگاڈی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت سلسلہ عالیہ قادریہ وخرقہ بھی حاصل کیا۔مزید برآں پیر طریقت حضرت علامہ قطبی محمدمسلیار وخاتمۃ المحققین کنیت احمد مسلیار رحمۃ اللہ علیہم اجمعین سے جملہ اذکار ورواتب کی خاص اجازتوں سے مالامال ہوئے۔اس کے علاوہ پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ ومولانا ککڈپرمب ابوبکر مسلیار نوّر الله مرقده سے جملہ سلاسل اربعہ کی اجازت وخلافت بھی حاصل کی۔آپ کو فتوی نویسی وعلم الفرائض میں ملکہء تامہ حاصل تھا۔رد بدعات ومنکرات میں بھی ید طولی رکھتے تھے آپ کے پرمغزخطابات اس باب کےشاہدعدل ہیں۔
وصال پرملال: آخر وہ اندوہ ناک ساعت بھی آگئی جس میں لاکھوں معتقدین ومتوسلین کاخون جگراشکوں سے بھر آیا۔آخر یہ چمکتا دمکتا چراغ قدرت کی زور دار ہوا سے گل ہوگیا۔یعنی ۹ جمادی الاخری سن 1437 ھ بروز پنجشنبہ بمطابق 18 فروری سن 2016 ء آپ نے اس دار فانی کو خیر باد کہہ کر عالم بقا کا سفر طے کیا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔آپ کی وفات کی خبر ناگہانی اطراف ونواح عالم میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔لوگ دور دراز سے آپ کی آخری زیارت ودیدار اورنماز جنازہ میں شرکت کے لئے دارالہدی اسلامک یونیورسٹی میں جمع ہوئے۔بعض اخبار ورسائل کے بیان کے مطابق پانج لاکھ سے زائد لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ اداکی۔آپ کے جسد خاکی کو آپ کی وصیت کے مطابق صوفی باصفا بانی دارالہدی حضرت ڈاکٹر یو باپوٹی حاجی نوراللہ مرقدہ کے جوار میں صحن مسجد دارالہدی میں سپرد خاک کیا گیا۔اس طرح آپ دنیائے سنیت کو الم فراق دے گئے۔(معذرت کے ساتھ وفات سے متعلق بے شمار اہم باتیں خوف طوالت مضمون کی وجہ سے عمدا چھوڑنا پڑا) رب قدیر آپ کی تمام تر دینی ومسلکی خدمات کو شرف قبولیت عطافرمائے اور آپ کے علمی فیضان سے ہم جیسے فقیر وحقیر سراپا تقصیر لوگوں کو بھی مالا مال فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
ابررحمت تیرے مرقد پر گہرباری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے