اللہ کے رسولﷺکی دعائیں (9)
اللہ کے رسولﷺ ہمہ وقت ذکر میں مشغول رہا کرتے تھے۔کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، سفر پر روانہ ہونا اور واپس آنا، خوش ہونا غمگین ہونا غرض ہر موقع پر آپ چند مخصوص کلمات کہہ کر اللہ کی یاد تازہ کیا کرتے تھے۔سونے سے پہلے بھی آپ ذکرودعا میں مصروف رہتے تھے۔احادیث میں الگ الگ الفاظ کے ساتھ آپ کے ان اذکار اور دعاؤں کا ذکر ملتا ہے جو آپ سونے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔چوں کہ ہم صرف اللہ کے رسولﷺکی دعاؤں کا ذکر کر رہے ہیں اس لیے صرف ان ہی احادیث کو بیان کریں گے جن میں دعا کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو حکم دیا کے جب وہ اپنے بستر پر لیٹے تو پڑھے:“اللَّهُمَّ! أَنْتَ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا. اللَّهُمَّ! إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ”کہ”اے اللہ !تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور تو ہی مجھے وفات دے گا۔میرا مرنا اور جینا دونوں تیرے لیے ہے۔اگر تو مجھے زندہ رکھتا ہے تو میری حفاظت کر اور اگر مجھے موت دیتا ہے تو میری مغفرت فرما۔اے اللہ میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں”(مسلم)۔
دعا کا آغاز اس اعتراف سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہی انسان کے اندر جان پیدا کی ہے اور وہی اس کی طاقت بھی رکھتا ہے کہ جب چاہے اسے واپس لے لے۔ نیند موت سے مشابہت رکھتی ہے لہذا سونے سے پہلے اس بات کا اعتراف کرنا بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا ہے کہ زندگی اور موت دونوں اللہ کے لیے ہے۔قرآن میں اس بات کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی اس طرح پیش کیا گیا ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(انعام/162) تم فرماؤ! بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
اس اعتراف اور اقرار کے بعد اب دعا کی جارہی ہے کہ اے اللہ اگر تو مجھے موت دیتا ہے تو میری مغفرت فرما اور اگر زندہ رکھتا ہے تو میری حفاظت فرما۔دعا کا اختتام عافیت،تحفظ اورسلامتی کے سوال پر ہوتا ہے۔عافیت کا سوال بہت اہم ہے۔اللہ کے رسولﷺکے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله نے اللہ کے رسولﷺسے دریافت فرمایا کہ: اللہ کے رسولﷺ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتا رہوں، آپ ﷺنے فرمایا: ”اللہ سے عافیت مانگو“، پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہ ﷺکے پاس دوبارہ حاضر ہوا اور وہی سوال دہرایا تو آپ ﷺنے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ ﷺکے چچا! دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرو“(ترمذى)۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی شخص سونے کا ارادہ کرے تو بستر پر دائیں کروٹ لیٹے، پھریہ دعا کرے: “اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، وَمُنَزِّلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ. اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ. اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ ” کہ “اے اللہ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، دانے اور گٹھلیوں کو چیر (کر پودے اور درخت اگا) دینے والے! تورات، انجیل اور فرقان (قرآن)کو نازل کرنے والے! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو تیرے قبضے میں ہے، اے اللہ! تو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں، اے اللہ! تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی شے نہیں ہے، تو ہی ظاہر ہے، تیرے اوپر کوئی شے نہیں ہے، تو ہی باطن ہے، تجھ سے پیچھے کوئی شے نہیں ہے، ہماری طرف سے (ہمارا) قرض ادا کر اور ہمیں فقر سے غنا عطا فرما”(مسلم)۔
اس سلسلے کے آغاز میں ہم نے اللہ کے رسولﷺکی دعاؤں کی ایک خصوصیت یہ بیان کی تھی کہ آپ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں یا اس کے ایسے اوصاف کا ذکر کرتے ہیں جو صرف اسی کے ساتھ مخصوص ہیں اور پھر اپنا سوال پیش کرتے ہیں۔یہ طریقہ عبدیت سے بہت قریب ہے اور دعا کی قبولیت کی بھی ضمانت دیتا ہے۔اس دعا میں بھی شروع میں اللہ کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں کہ وہ آسمانوں،زمین اور عرش کا رب ہے۔قرآن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔اللہ تعالی اپنی شان تخلیق اور شان ربوبیت کا اظہار کرنے کے لیے قرآن میں اپنی تخلیقات کا ذکر کرتا ہے۔عرش کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بارآیا ہے۔قرآن میں فالق الحب والنوی(دانے اورگٹھلی کو چیرنے والا)کا بھی ذکر ہے (انعام/95) ۔اللہ نے ہی تمام آسمانی کتابوں کو نازل فرمایا۔توریت اور انجیل کا ذکر بھی قرآن میں کئی جگہ ہے۔
اللہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد اس کی جملہ مخلوقات کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر شئے اپنی تخلیق کے اعتبار سے مکمل ہے اس میں کوئی نقص نہیں اور نہ ہی انسان اس بات پر اعتراض کرسکتا ہے کہ اللہ نے فلاں موذی جانور کو کیوں پیدا کیا؟کیونکہ اللہ خالق ہے اس کی شان تخلیق کرنا ہے۔مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسری مخلوق کے بارے میں اعتراض کرے کیوں کہ تخلیق کے لحاظ سے دونوں ہی برابر ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بہت سارے جانور اور کیڑے مکوڑے ایسے بھی ہیں جو انسان کے لیے ہلاکت کا باعث بھی بنتے ہیں۔ان مخلوقات کے شر اور ان کے نقصان سے بچنے کا کارگر طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی پناہ طلب کی جائے کیوں کہ ان مخلوقات کے اندر انسان کو ہلاک کرنے کی اہلیت اللہ نے ہی رکھی ہے لہذا وہی انسان کو ان کے شر سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
استعاذہ یعنی پناہ طلب کرنے کے بعد اللہ کے دو اور اوصاف اول اور آخر ہونے کا ذکر ہے۔اللہ اس لحاظ سے اول ہے کہ اسی نے ہر چیز بنائی ہے مگر اسے بنانے والا کوئی نہیں وہ شروع ہی سے موجود ہے اور آخر اس طرح کہ ہر مخلوق فنا ہوسکتی ہے مگر وہ نہیں، وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔وقت مخلوقا ت پر اثر انداز ہوتا ہے، خالق پر نہیں، اس کے لیے سب زمانے برابر ہیں۔پھر اس کے بعد اللہ کے ظاہر و باطن ہونے کا ذکر ہے کہ اللہ سب سے ظاہر یعنی اوپر، بلند و برتر ہے اس سے اوپر کوئی شے نہیں، وہ سب کی نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔ دعا کے آخری حصے میں قرض کی ادائیگی اور غربت و فقر سے آزادی طلب کی گئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کو اول تو ان دونوں چیزوں کا شکار ہی نہیں ہونا چاہیے اور اگر کوئی ان دونوں چیزوں میں مبتلا ہے تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھی کرتا رہے کیوں کہ بغیر اس کی تائید کے قرض کی ادائیگی اور غربت سے آزادی ممکن نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: “جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بستر پر لیٹنا چاہے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹے اور کہے:“بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ” کہ “میرے پروردگار! میں نے تیرے نام سے اپنا پہلو (بستر پر) رکھا اور تیرے ہی نام سے اسے اٹھاؤں گا، اگر تو نے میری روح کو (اپنے پاس) روک لیا تو اس پر رحم کر نا اور اگر چھوڑ دیا (زندگی باقی رکھی) تو اس کی اسی طرح حفاظت فرمانا جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے”(بخارى)۔اس حدیث میں بھی وہی سوال کیا گیا ہے جو اوپر پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے مگر الفاظ اور تعبیر کا طریقہ الگ ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺایک ہی موقع پر حسب منشا اور حسب ضرورت الگ الگ طرح سے اللہ کے اوصاف بیان کرتے اور اسی دعا میں حسب ضرورت و اقتضا تبدیلی فرمایا کرتے تھے۔تینوں احادیث سونے سے پہلے کے اذکار اور دعاؤں پر مشتمل ہیں۔پہلی اور آخری حدیث کا مضمون ایک ہے مگر طریقہ تعبیر الگ ہے اور دوسری حدیث میں اذکار اور دعا دونوں مختلف ہیں۔
حضرت فروہ بن نوفل الاشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سيده عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺکون سی دعا مانگتے تھے؟ وہ بولیں: آپ ﷺ دعا میں اس طرح کہا کرتے تھے:“اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ”کہ”اے اللہ! میں ان تمام کاموں کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو مجھ سے سرزد ہوئے ہیں اور ان کاموں کے شر سے بھی جو میں نے اب تک نہیں کیے ہیں(مسلم)۔ امام نووی لکھتے ہیں کہ علماء نے کہا اس کا معنی یہ ہے کہ:” میں ایسے کاموں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں کہ جن کے کرنے کی وجہ سے دنیا یا آخرت میں سزا ملتی ہے۔خواہ میں نے ان کاموں کو جان بوجھ کر کیا ہو یا بھول کر”۔آگے لکھتے ہیں کہ اس سے امت کو دعا کی تعلیم دینابھی مقصودہوسکتا ہے(المنهاج شرح مسلم)۔ اللہ کے رسولﷺسے کسی ایسے کام کا سرزد ہونا محال ہے جو اللہ کی نافرمانی ہو یا گناہ کے زمرے میں آتا ہو۔آپ معصوم ہیں اور تمام گناہوں سے پاک ہیں۔اس لیے یہاں اپنی امت کو دعا کی تعلیم دینا ہی مقصود ہوسکتا ہے۔اعمال کے شر سے مراد اس پر وارد ہونے والی سزا ہے جو یا تو دنیا میں دی جاتی ہے یا آخرت میں۔اعمال کے شر سے مراد بے برکتی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ایک حدیث میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ” عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے“ (سنن ابن ماجہ)۔