{ملفوظات و ارشادات ہمہ جہت عناوین کو محیط ہوتےاور شرعی مسائل کی تفہیم سے فروغِ علم کا پیغام ملتا}
غلام مصطفیٰ رضوی
[نوری مشن مالیگاؤں]
نگاہِ حضور مفتی اعظم کی جلوہ گری تھی کہ؛ جو اُن کے دامن سے وابستہ ہوا چمک گیا، جو اُن کے زیرِ تربیت رہا؛ زمانے پر چھا گیا، اپنی دینی و علمی خدمات کے نقوش اِس جہان میں چھوڑ گیا۔ ایسی ہی شخصیت خلیفۂ حضور مفتی اعظم اشرف الفقہاء مفتی محمد مجیب اشرف علیہ الرحمۃ کی تھی۔ آپ نے طویل عمر پائی، نصف صدی سے زیادہ مدت تک دین متین کی نشر و اشاعت اور فروغِ حق و صداقت کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔ ہمہ جہت پہلوؤں سے اصلاحِ مسلمین کا مبارک فریضہ انجام دیتے رہے۔
بنیادی طور پر خطیب، مصلح، مفکر اور داعیِ اسلام تھے۔ لیکن جہاں جاتے مجالس علمی سج جاتیں۔ جوق دَر جوق خلقت آتی، بیعت ہوتی، ایمان تازہ کرتی اور روحانی برکتوں کی خوش گوار فضا میں رُخصت ہوتی۔ آپ کی نجی مجالس بھی فروغِ دین و اصلاحِ مسلمین کا مؤثر ذریعہ تھیں۔ حاضر باش اس کے شاہد و موئید ہیں۔ راقم نے سیکڑوں مجالس میں شرکت کی اور پل پل تقویٰ و طہارت اور اخلاقی تطہیر و فکری پاکیزگی کا مشاہدہ و نظارہ کیا۔
مجالسِ اشرف الفقہاء ہمہ جہت عناوین کو محیط ہیں۔ جس کا اجمال بشکلِ نکات درج کیا جاتا ہے:
[۱] حضور اشرف الفقہاء کی مجالس عموماً بوقت بعد نمازِ عصر ، بعد نمازِ مغرب اور شب میں بعد از خطاب اقامت گاہ پر آراستہ ہوتیں، جہاں آپ اپنے ملفوظاتِ عالیہ سے نوازتے۔ ہمہ جہت عناوین پر گفتگو ہوتی لیکن سب کا ایک ہی مقصد ہوتا، تقویتِ دین و حفاظتِ ایمان و عمل۔
[۲] حضور اشرف الفقہاء بڑی متانت سے گفتگو فرماتے۔ ہر فرد سے اس کی لیاقت یا Statusکے مطابق مخاطب ہوتے۔ عام لوگوں سے عام فہم انداز میں بات کرتے۔ سبھی کی خیریت دریافت فرماتے۔ خندہ پیشانی سے ملتے۔
[۳] عموماً نشست بڑی سادہ ہوتی۔ مسہری کے ایک سِرے پر براجمان ہوتے، لیکن قدموں کو سمیٹ کر بیٹھتے۔ پیروں کو پھیلائے ہم نے مجالست نہیں دیکھی۔ انکسار و عاجزی کے انداز میں بیٹھتے۔
[۴] لوگ مسائل کے حل نیز روحانی معاملات میں رہنمائی لینے حاضر آتے۔ ہر ایک سے مسائل معلوم کر کے ان کا دینی حل بتاتے۔
[۵] جسے تعویذ کی ضرورت ہوتی، تعویذ عطا فرماتے۔ لیکن اسی کے ساتھ پابندیِ صوم و صلوٰۃ کی نصیحت ضرور فرماتے۔
[۶] پیچیدہ معاملات میں بھی دُعاؤں کی سوغات دیتے، بعد کو مشاہدہ ہوا کہ پیچیدگی دور ہوئی اور سائل مطمئن ہوا۔
[۷] باہمی رنجش کے مسائل میں اتحاد و اخوت کی فضا استوار فرماتے۔ ہم مزاج و ہم خیال افراد میں اختلافی فضا آپ کی مجالس میں دور ہو جاتیں۔
[۸] عقائد کے معاملے میں تصلب و استقامت کو مقدم رکھتے۔ اس میں کسی بھی طرح کا سمجھوتہ گوارا نہ تھا۔ مومن کی یہی صفت ہو کہ ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم گاہِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
کی عملی تعبیر تھے۔ اپنوں سے نرم مزاجی صفت تھی اور بارگاہِ رسالت ﷺ کے دُشمنوں کے لیے گویا فولاد تھے۔
[۹] مرید ہونے کوئی آتا تو مرید بھی بناتے ساتھ ہی شریعت پر سختی سے گامزن رہنے کی نصیحت فرماتے۔ تمام باطل فرقوں سے بچنے کی تلقین لازماً کرتے۔
[۱۰]خواتین اسلام کے لیے پردے کی تاکید و نصیحت فرماتے۔ بیعت بھی پردہ کے توسط سے فرماتے۔ عموماً ہم لوگ جب بھی بیعت کے لیے خواتین یا بچیوں کے نام پیش کرتے تو داخلِ سلسلہ فرماتے ۔ جب کہ احباب کو بیعت کروانا ہوتا تو مجلس میں لے کر جاتے۔
[۱۱]علمی مسائل پر سوالات کیے جاتے، خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیتے۔ دلائل بھی عام فہم انداز میں پیش کرتے۔ گفتگو میں توضیحی و تشریحی پہلو غالب ہوتا۔
[۱۲] حضور اشرف الفقہاء کی بارگاہ میں بیٹھنے والا ہر فرد اس بات کی گواہی دے گا کہ شفقت و مروت کا معاملہ فرماتے اور ہر فرد کی ضرورت پوچھتے اور مناسب حل فرماتے۔
[۱۳]راقم جب ملنے جاتا، اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت کی دینی، علمی، اعتقادی و اصلاحی خدمات پر ہونے والے تحقیقی کاموں کی بابت ضرور پوچھتے۔ ترجمۂ قرآن کنزالایمان، فتاویٰ رضویہ،فتاویٰ مصطفویہ کی توسیع کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو سراہتے۔ گھنٹوں اعلیٰ حضرت کا تذکرہ بصد ذوق فرماتے ۔ سامعین سنتے رہتے۔ اور شرکا کی معلومات میں اضافہ ہوتا۔
[۱۴] تفہیم اشعارِ رضا کے سلسلے میں اکثر استفسار کیا جاتا۔بہت انہماک سے توضیح فرماتے، انشراح صدر ہوتا۔ نعتیہ اشعارِ رضا پر جب بات ہوتی تو مجلس میں نورانیت بڑھ جاتی۔ محبت رسول ﷺ کی پاکیزہ فضا قائم ہوتی۔ ذکرِ رسول ﷺ کی یہ بزم طویل ہو جاتی۔ تشنگی باقی رہتی۔
[۱۵] جب کسی کے یہاں دعوت پر تشریف لے جاتے، ہر ایک کی دل جوئی فرماتے۔ غذا بہت قلیل تناول کرتے۔ دوسروں کا خیال رکھتے کہ تمام لوگ کھانے سے فارغ ہو لیں۔ برکتوں کی دُعا کرتے۔ جنھیں تعویذ کی ضرورت ہوتی تعویذ دیتے۔ دُعائیں دیتے۔ نصیحتیں کرتے ہوئے رُخصت ہوتے۔ عموماً ہر مقام پر لوگ طلبِ بیعت کرتے۔ بیعت فرماتے اور نمازوں کی پابندی کی تلقین کرتے۔
[۱۶] عموماً کام کے لیے رہنمائی چاہنے والے ہر مقام پر ملاقات کو حاضر ہوتے۔ تعمیری کاموں کی طرف ذہن موڑ دیتے۔ جلسوں جلوسوں کی بجائے مدارس، مساجد، علم دین اور اشاعت و اصلاحی کاموں کی طرف توجہ مبذول کرواتے۔ ذہن سازی کرتے۔ ہر معاملے میں صحتِ عقیدہ کو مقدم رکھتے۔ یوں ہی تمام باطل عقائد والوں کے شر سے بچنے کی تاکید کرتے۔
[۱۷] مزاج و کردار میں یک رنگی تھی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کے افعال و کردار سے درسِ اصلاح و درسِ تقویٰ فراہم ہوتا۔ ایسے لوگ جو اُلٹے سیدھے کام کرتے ہیں وہ جب اشرف الفقہاء سے ملتے تو اپنی اصلاح پر خود بہ خود مائل ہوتے۔کتنوں کا مشاہدہ ہوا کہ انھیں سمجھایا جاتا لیکن نہیں سمجھتے، جب وہ بارگاہِ اشرف الفقہاء میں پہنچے تو معاملہ بدل گیا۔
[۱۸] حوصلہ ہارے ہوئے مجلسِ اشرف الفقہاء میں عزم محکم لے کر اُٹھتے۔
[۱۹] بچوں پر شفقت ہوتی۔ ان سے تعلیم کا پوچھتے اور حوصلہ دیتے۔ذوقِ علم بڑھاتے۔
[۲۰] طلبۂ علوم دینیہ پر خصوصی اکرام فرماتے۔ انھیں احترام دیتے کہ دوسروں کو طلبہ کا احترام کرنے کا درس ملے۔یوں ہی سرپرستوں کو توجہ دلاتے کہ وہ بچوں کو حصولِ علم دین کے لیے آمادہ کریں۔
مجالس میں جو ملفوظات ارشاد فرماتے، وہ ہمہ جہت عناوین کو محیط ہوتے۔ خصوصیت سے شرعی مسائل کے حل عام فہم انداز میں عنایت فرماتے۔ کاش! انھیں کوئی لکھتا تو علم و عرفان کا عظیم ذخیرہ منظر عام پر آتا اور قوم کی فلاح کا سامان ہوتا۔ بہر کیف مجالس کے حاضر باش علما و طلبا کو چاہیے کہ یادداشت کو صفحات پر منتقل کریں اور اپنے اکابر سے وابستگی کا علمی فیض عام کریں۔
٭ ٭ ٭
بموقع عرس چہلم حضور اشرف الفقہاء
١٢ ستمبر ٢٠٢٠ء