مختصر تعارف:
فقیہ ملت، نازش اہل سنت، استاذ الفقہاء، مرجع فتاویٰ حضرت مفتی جلال الدین احمد امجدی – علیہ الرحمہ – ١٢٥٣ھ م ١٩٣٣ء کو بمقام اوجھا گنج بستی، یو، پی میں پیدا ہوئے۔ *
تعلیم:
آپ نے اپنے والد گرامی جناب جان محمد صاحب کے شاگرد مولوی محمد زکریا صاحب سے سات سال کی عمر میں پورا قرآن ناظرہ پڑھا اور ساڑھے دس سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا، پھر عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کر کے ١٩٤٧ء کے ہنگامہ کے فوراً بعد ناگپور تشریف لے گئے، دن بھر کام کرتے، جس سے پچیس تیس روپیہ ماہانہ اپنے والدین کی خدمت میں بھیجتے اور اپنے کھانے پینے کا انتظامہ بھی کرتے اور بعد نماز مغرب اپنے دس ساتھیوں کے ساتھ تقریباً بارہ بجے رات تک قائد اہل سنت رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری -علیہ الرحمہ- سے مدرسہ اسلامیہ شمس العلوم، بکرا منڈی مومن پورہ میں درس نظامیہ کی تعلیم حاصل کرتے اور ٢٤ شعبان ١٣٧١ھ م ١٩مئی ١٩٥٢ء کو قائد اہل سنت کے دست مبارک سے سند فراغت حاصل کی۔
تدریسی خدمات:
فراغت کے بعد آپ نے دوبولیا بازار، جمشید پور ( بہار)اور مدرسہ قادریہ رضویہ بھاؤ پور ضلع بستی، پھر یکم ذی الحجہ ١٣٧٥ھ م ١٠جولائی ١٩٥٦ء سے دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آخر عمر میں اپنے ہی قائم کردہ مفتی ساز ادارے مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی میں تا وقت وصال درس دیا۔
تصنیف و تالیف و فتوی نویسی:
حضور فقیہ ملت کا یہی وہ وصف ہے جس نے انہیں شہرت دوام عطا کی، آپ نے چھوٹی بڑی تقریباً بائیس کتابیں لکھیں، اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر تحقیقی و علمی مقالات بھی لکھے۔ آپ کی کتابوں میں فتاویٰ فیض الرسول، فتاویٰ فقیہ ملت، فتاویٰ برکاتیہ، انوار الحدیث، انوار شریعت، نورانی تعلیم، محققانہ فیصلہ، عجائب الفقہ اور بزرگوں کے عقیدے بہت مشہور و معروف ہیں۔
ادارہ سازی:
آپ نے اپنے آبائی وطن اوجھا گنج، بستی، میں سب سے پہلا اپنی نوعیت کا منفرد و مفتی ساز ادارہ بنام ” مرکز تربیت افتا دار العلوم امجدیہ اہل سنت ارشد العلوم “قائم کیا، جس سے فارغ ہونے والے مفتیان کرام مختلف مقامات پر گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کتب خانہ امجدیہ بھی آپ کی ہی یادگار ہے، جس سے دین و مذہب کی نشر و اشاعت کا خوب کام ہو رہا ہے، اس کے علاوہ اوجھا گنج کی جامع مسجد اور چھوٹی مسجد کی پختہ تعمیر بھی آپ نے ہی کرائی اور جامع مسجد کی بختہ تعمیر مکمل ہونے تک ہر سال اپنی ایک مہینے کی تنخواہ مسجد میں دیتے رہے۔
چند خصوصیات:
حق گوئی، بیباکی، تقوی و پرہیزگاری، وقت کی پابندی،سفر و حضر میں نمازوں کی وقت پر ادائیگی،دین کو دنیا پر ترجیح دینا جیسے اوصاف آپ کے اندر کامل طور پر پاۓ جاتے تھے۔ فرماتے ہیں :” موسلا دھار بارش، لو کے تھپیڑے اور سخت سے سخت سردی بھی ہمیں اب تک اپنے پروگرام کے مطابق سفر کرنے سے نہیں روک سکی، میں اپنے ارادہ پر سختی سے عمل کرتا ہوں، یہاں تک کہ میری اہلیہ بیمار تھیں اور حالت بہت زیادہ نازک تھی مگر میں اپنے پروگرام کے مطابق وطن سے چل پڑا اور ابھی راستہ ہی میں تھا، براؤں شریف نہیں پہنچا تھا کہ انتقال ہو گیا۔…..کبھی جھوٹے بیمار بن کر رخصت علالت نہیں لی اسی لیے دار العلوم کے قانون کے مطابق ٣٢ سالہ خدمات کی تقریباً چودہ ماہ کی رخصت علالت محفوظ ہے۔
وفات:
٤ جمادی الآخرہ ١٤٢٣ھ مطابق ٢٣ اگست ٢٠٠١ء بوقت شب جمعہ ١٢ بج کر ٥٥ منٹ پر آپ نے وفات پائی، مرکز تربیت افتاء دار العلوم امجدیہ اہل سنت ارشد العلوم کے احاطہ میں آپ کا مزار مبارک واقع ہے۔ ہر سال جمادی الآخرہ کی چار تاریخ کو آپ کا عرس پاک منایا جاتا ہے، اس مرتبہ آپ کا اکیسواں عرس ٤ جمادی الآخرہ ١٤٤٣ھ م ٧ جنوری ٢٠٢٢ء کو بروز جمعہ منایا جاۓ گا۔
چند اقوال:
∆ : خلوص کے ساتھ خدمت دین کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دو، حصول زر کو مقصد زندگی نہ بناؤ۔
∆ : مسجد یا مدرسہ کی ملازمت کے معنی میں عالم نہ رہو نائب رسول کے معنی میں عالم بنو کہ رسول کی طرح ہر وقت اسلام و سنیت کی تبلیغ و اشاعت کی فکر رکھو اور ہر ممکن طریقے سے اس کے لیے کوشش کرتے رہو۔
∆ : خود بھی با عمل رہو اور دوسروں کو بھی باعمل بنانے کی کوشش میں دن رات لگے رہو۔
∆ : دین میں کبھی مداہنت نہ اختیار کرو، حق گوئی و بیباکی اپنی زندگی کا شعار بناؤ۔
اللہ عزوجل عمل توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم