سيدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب غیر معتبر روایات کا جائزہ
سلطان الاولیاء، ملجاء الامہ حضور سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت و رفعت، شان و شوکت، جاہ و جلال، اعلیٰ منصبی اظہر من الشمس ہے، یقیناً آپ کی بزرگی و برتری کا حساب لگانا ناممکن ہے، آپ کی ذات اس جبل اعظم کے مثل ہے جس کی اونچائی دیکھ کر بڑے بڑے اولیاء و صوفیاء کی انگشتِ حیرت دردہان ہے، آپ کی زندگی کے جملہ روشن و تابناک لمحات جن کی ضیا پاشیوں سے ایک عالم سیراب ہو رہا ہے، اور آپ کی جملہ تعلیمات و ارشادات تا قیامت گمگشتگانِ راہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔
لیکن آپ کی مقدس حیات طیبہ کی جانب منسوب بہت سے ایسے واقعات و سانحات جن کو سن کر اہل علم بھی محوِ حیرت و استعجاب ہیں، کیوں کہ یہ ایسے واقعات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، پیشہ ور مقررین ان واقعات کو نمک مرچ لگا کر عوام الناس کی توجہ اپنی طرف کھینچ کر خوب داد و تحسین حاصل کرتے ہیں، جن کو سن کر مخالفین و معاندین کو سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک ذات پر انگشت نمائی کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کھل کر اپنا بغض و عناد نکالنے لگتے ہیں، اور اہل سنت و الجماعت کے صاف و شفاف چہرے کو مکروہ و ناپسند بنا کر غیر خواندہ افراد کے سامنے پیش کرتے ہیں، جس سے اُن کے اندر خلجان پیدا ہونے لگتا ہے اور اُن کے قلوب و اذہان اولیاء کاملین کی جانب سے متنفر ہونے لگتے ہیں، میری اس تحریر کا مقصد و مطلب صرف یہی ہے کہ عوام اہل سنت کو چند اُن غیر معتبر روایات کے مطابق متعارف کرایا جائے جو آپ کی طرف منسوب ہیں، تاکہ سب کو حقیقتِ حال کا پتہ چلے۔
سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ اور ایک دھوبی
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب ایک ایسی روایت جس کو خوب بیان کیا جاتا ہے، اور خطبات کی کتابوں میں اکثر اس کا تذکرہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کو اسٹیجوں پر خوب زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دھوبی تھا، جب اس کا انتقال ہوا تو قبر میں فرشتوں نے اس دھوبی سے سوالات کیے، اس نے ہر سوال کے جواب میں کہا کہ “میں عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کا دھوبی ہوں” اور اسے بخش دیا گیا-
اس روایت کے متعلق شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ: ”یہ حکایت نہ میں نے کسی کتاب میں دیکھی ہے اور نہ کسی سے سنی ہے، احادیث میں تصریح ہے کہ اگر مرنے والا مومن ہوتا ہے تو قبر کے تینوں بنیادی سوالوں کا جواب دے دیتا ہے، منافق یا کافر ہوتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ہاے ہاے میں نہیں جانتا لہذا یہ روایت حدیث کے خلاف ہے مگر یہ بات حق ہے کہ حضرات اولیاے کرام، ائمۂ دین، بزرگان دین اپنے مریدین، معتقدین اور متعلقین کی قبروں میں نکیرین کے سوالات کے وقت تشریف لاتے ہیں اور جواب میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ (ملخص: فتاوی شارح بخاری)
مزید فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”یہ روایت بے اصل ہے، اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے اور آئندہ اس روایت کے نہ بیان کرنے کا عہد کرے، اگر وہ ایسا نہ کرے تو کسی معتمد کتاب سے اس روایت کو ثابت کرے۔(فتاوی فقیہ ملت)
حدیث: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ ہوتے
ایک حدیث حضور عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ اگر میرے بعد نبوت ملنا بند نہ ہوتی تو عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ نبی ہوتے، اس حدیث کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہاں ذکر کر رہا ہوں کہ: یہ قول کے اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہومِ شرطی پر صحیح و جائز الاطلاق ہے (کیوں کہ اس مفہوم کی دوسری احادیث جو چند اکابر صحابہ کے متعلق وارد ہیں) لیکن ہر حدیث حق ہے، ہر حق حدیث نہیں۔ حدیث ماننے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی جانب نسبت کرنے کے لیے ثبوت چاہیے، بے ثبوت نسبت جائز نہیں اور قول مذکور ثابت نہیں“۔ (فتاویٰ کرامات غوثیہ)
ام المومنین کا روحِ سیدنا عبد القادر جيلانى کو دودھ پلانا
یہ روایت کہ حضور عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو ام المومنین نے دودھ پلایا بے جا، بے محل اور موضوع ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (مفہوماً یہاں ذکر کرتا ہوں) کہ: حضرت ام المومنین محبوبہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و علیہا وسلم کا روحِ اقدس ِسیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کو دودھ پلانا، بعض مداحینِ عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ اسے واقعۂ خواب بیان کرتے ہیں جیسا کہ میں نے اُن کی بعض کتب میں اس کی تصریح دیکھی ہے، اس تقدیر پر تو اصلاً استبعاد نہیں اور اب اس پر جو کچھ ایراد کیا گیا سب بے جا و بے محل ہے، اور اگر بیداری ہی میں مانا جاتا ہو، تاہم بلاشبہ عقلاً اور شرعاً جائز اور اس میں درایتہ کوئی استحالہ درکنار استبعاد بھی نہیں۔ ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ (کرامات غوثیہ)
حضرت عزرائیل علیہ السلام سے زنبیل ارواح چھین لینا
ایک اور واقعہ جس کو سن کر اہل خرد یقیناً فیصلہ کر دیں گے کہ یہ واقعہ جھوٹا اور صرف خیال فاسد ہے، جیسے کہ یہ واقعہ کہ غصّہ میں آ کر سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ عنہ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے زنبیل ارواح کو چھین لیا تھا (معاذ اللہ) اس متعلق سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ”زنبیل ارواح چھین لینا خرافات مخترعہ جہال سے ہے۔ سیدنا عزرائیل علیہ الصلاۃ والسلام رسل الملائکہ سے ہیں، اور رسل ملائکہ اولیاء بشر سے بالاجماع افضل۔ تو مسلمانوں کو ایسے اباطیل واہیہ سے احترام لازم“۔ (فتاویٰ کرامات غوثیہ)
ان کے علاوہ بہت سے ایسے غیر معتبر واقعات جو سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب ہیں، بین العوام اُن واقعات کو کثرت سے بیان کیا جاتا ہے، اور ایسے بیانات اکثر وہ خطباء و مقررین کرتے ہیں جنہوں نے تقریر و خطابت کو پیشہ بنا رکھا ہے، جن کا تعلیم و تعلم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جو چھوٹی چھوٹی اردو کی کتبِ خطبات سے جیسا تیسا لکھا ہوا پڑھ کر اسٹیجوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور من چاہا بیان کر کے اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں، لہٰذا ایسے خطباء جو ان تمام خرافات کا حصہ ہوں، اُنہیں ہرگز اپنے جلسوں اور محفلوں میں مدعو نہ کیا جائے، ایسے خطباء دین میں نفع کم نقصان زیادہ کرتے ہیں۔
لہٰذا پڑھے لکھے طبقے کو مدعو کیا جائے اور سیرت سیدنا عبد القادر جيلانى رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کی حیات طیبہ پر محمول سبق آموز واقعات ہی بین العوام بیان کیے جائیں، کرامات سے ہٹ کر آپ کی علمی و سماجی اور روحانی زندگی کو عام کیا جائے، تاکہ اُمت کی زندگی روشن ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!