شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام و مرتبہ
امام الائمہ، ملجأ الامہ، فرد الفرید، غوث المجید، ولی الاولیاء، امام الاصفياء، قطب الربانی، غوث الصمدانی، سیدنا و مولانا ابو محمد عبد القادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ عنا کی ذات عالی صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں، صرف انسان ہی نہیں بلکہ دیگر مخلوقات بھی منجانب اللہ عطا کردہ آپ کی عظمت و رفعت، شان و شوکت، جاہ و جلال کے آگے اپنی پیشانیاں عقیدت و احترام کی دہلیز پر جھکا دیتی ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کا ایسا چراغ روشن کیا کہ آپ کا نام نامی، اسم گرامی سن کر محبین و معتقدین کے دل فرحت و انبساط سے جھومنے لگتے ہیں، اُمیدوں کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں، ٹوٹے ہوئے دلوں کے آبگینے جڑ جاتے ہیں، مایوس دلوں کی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آپ علوم شریعت کے ساتھ ساتھ علوم معرفت کے بھی امام ہیں، آپ کی زندگی عبادت و ریاضت، ذکر و فکر، تقریر و خطابت، تصنیف و تالیف، فتویٰ نویسی اور خدمت خلق میں گزری، لیکن افسوس آج ہم سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف آپ کی کرامتوں سے ہی جانتے ہیں، کسی سے بھی پوچھ کے دیکھ لیجیے کہ غوث اعظم کون ہیں؟ تو جواب یہی آئے گا کہ غوث اعظم وہ ہیں جنہوں نے ڈوبی ہوئی کشتی کو نکال دیا، بے شمار مردوں کو زندہ کیا۔ (علی ھذا القیاس) مصنفین، مقررین، قلم کاروں کا اکثر طبقہ اپنی تصانیف، تقاریر اور مضامین میں صرف سرکار غوث اعظم کی کرامات کا ہی تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں، ہم نے غوث اعظم کے ایک پہلو کو پکڑ کر دوسرے پہلو کو چھوڑ دیا، اور آپ کی عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری، درس و تدریس، تصنیف و تالیف، شب بیداری کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم آپ کے تعلق سے “گیارہویں والے پیر” یا “بڑے پیر صاحب” سے زیادہ کچھ نہیں جانتی، لوگ ہر گیارہ تاریخ کو غوث اعظم کی نیاز دلا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سارا حق ادا کر دیا، مگر افسوس ہم نے کبھی سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور آپ کی دینی خدمات اور تعلیمات کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔
آپ کے علمی کمالات:
اٹھارہ سال کی عمر سے باضابطہ آپ کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا، تو مسلسل تیس سال سے زائد تک علم و معرفت کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے، اور علم کے مختلف میدانوں میں درجنوں علماء و مشائخ سے علم و ادب حاصل کر کے جس منزل تک پہنچے، اس کا تذکرہ آپ خود قصیدہ غوثیہ کے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
درست العلم حتى صرت قطبا
ونلت الفضل من مولى الموالى
ترجمہ: میں علم حاصل کرتا رہا یہاں تک کہ تحصیل علم کے صلے میں قطبیت کبریٰ کے مقام تک پہنچ گیا۔ اور یہ علم ہی کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فضل و کمال کے سارے دروازے مجھ پر کھول دیے۔
سیدنا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرح آسمان طریقت کے روشن آفتاب ہیں اسی طرح چرخ شریعت کے چمکتے دمکتے ماہتاب بھی ہیں، سید کبیر قطب شہير سیدنا احمد رفاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: “شیخ عبد القادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے داہنے ہاتھ میں ہے، اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ میں ہے، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں، اس لیے ہمارے وقت میں سید عبد القادر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ (ملخص: نزهۃ الخاطر الفاتر، صفحہ 34 بحوالہ تاریخ غوث الوری)-
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں، کہ ایک روز کسی قاری نے آپ کی مجلس شریف میں قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی، تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اُس آیت کے گیارہ معانی بیان فرما دیے، اور پھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی، اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر دلیل کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے (اخبار الاخیار، صفحہ 11)-
حافظ ابو العباس احمد بن احمد بغدادی بندلجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صاحب بہجۃ الاسرار سے فرمایا: میں اور تمہارے والد ایک دن حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، آپ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنی بیان فرمایا تو میں نے تمہارے والد سے کہا: یہ معنی آپ جانتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ پھر آپ نے ایک دوسرا معنی بیان فرمایا تو میں نے دوبارہ تمہارے والد سے پوچھا کہ کیا آپ اس معنی کو جانتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر آپ نے ایک اور معنی بیان فرمایا میں پھر تمہارے والد سے پوچھا: کہ آپ اس کا معنی جانتے ہیں۔ اُس کے بعد آپ نے گیارہ معانی بیان کیے، اور میں ہر بار تمہارے والد سے پوچھتا تھا کہ کیا آپ اِن معانی سے واقف ہیں ؟ تو وہ یہی کہتے: “ہاں واقف ہوں” یہاں تک کہ آپ نے چالیس معنی بیان فرمائے، اس کا ہر معنی اُس کے قائل کی طرف منسوب کرتے اور تیرے والد کہتے تھے: میں یہ معنی نہیں جانتا، شیخ کی وسعت علم سے اُس کا تعجب بڑھ گیا۔ پھر آپنے فرمایا ہم قائل کو چھوڑتے ہیں اور اس کے حال کی طرف رجوع کرتے ہیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ تب سخت لوگ بے قرار ہوئے، اور تمہارے والد نے تو اپنے کپڑے پھاڑ لیے (بہجۃ الاسرار، صفحہ ۳۳۴، ۳۳۵)-
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم کا عالم یہ تھا کہ آپ کی بارگاہ میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل پیش کیے جاتے اور آپ فوری طور پر اُن کو حل فرما دیا کرتے تھے، مشکل سے مشکل سوالات کے جوابات چٹکیوں میں دے دیا کرتے، بلاد عجم سے ایک سوال آیا جس کا جواب عراق عرب اور عراق عجم کے علماء نہ دے سکے، سوال یہ تھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق ایسی شرط پر معلق کی کہ وہ ایسی عبادت کرے گا جس میں وہ عبادت کے وقت تنہا ہو، اگر ایسی عبادت نہ کرے تو اس نے کہا کہ: میری بیوی مجھ پر حرام ہو گئی۔
جب یہ سوال حضور غوث اعظم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً اُس کا جواب تحریر فرمایا کہ: وہ شخص مکہ مکرمہ جائے اور اس کے لیے خانہ کعبہ کو خالی کرا دیا جائے، اور وہ تنہا سات چکر طواف کرے، اُس وقت اُس عبادت میں کوئی دوسرا اُس کے ساتھ شریک نہ ہوگا، سوال کرنے والا جواب ملتے ہی ایک رات بھی بغداد میں نہ رہا اور اسی دن مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہو گیا (قلائد الجواہر، صفحہ: ۳۸)-
امام ربانی شیخ عبد الوہاب شعرانی اور شیخ الحدیث عبد الحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ: “حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ ایک اور جگہ علامہ شعرانی فرماتے ہیں کہ: “حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث، فقہ، اور علم کلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول اور نحو پڑھاتے تھے، اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن پڑھاتے تھے۔ آپ سے علم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد تقریبا ایک لاکھ ہے۔ جن میں فقہا کی بہت بڑی تعداد شامل ہے، اور تقریباً چار سو علمائے کرام آپ کی بارگاہ میں علم و حکمت کی باتیں سیکھنے کے لیے حاضر ہوتے تھے (مرآۃ الجنان)-
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حضرت عبد اللہ خشاب علیہ الرحمہ علم نحو پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے حضور غوث پاک کے درس کا شہرہ بھی سن رکھا تھا۔ ایک روز آپ حضور غوث پاک کے درس میں شریک ہوئے۔ جب آپ کو درس میں کوئی نحوی نکات نہ ملے تو دل میں خیال آیا کہ یہاں وقت برباد ہو جائے گا۔ ٹھیک اسی وقت حضور غوث اعظم آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: ہماری صحبت اختیار کر لو ہم تمہیں علم نحو کے مشہور امام سیبویہ کی طرح بنا دیں گے۔ یہ سن کر حضرت عبد اللہ خشاب نحوی نے حضور غوث اعظم کے یہاں رہنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو علم نحو کے ساتھ ساتھ علوم نقلیہ و عقلیہ پر بھی مہارت حاصل ہو گئی (نزہۃ الخاطر الفاتر، صفحہ ۲۱۰)-
آپ کو تعلیم وتربیت اور درس و تدریس کا بہت شوق تھا۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ نماز فجر سے فارغ ہو کر آپ مدرسہ تشریف لاتے اور طلباء، خدام اور دیگر حضرات کو شریعت و طریقت کی تعلیم دیتے۔ قرآن وحدیث، فقہ اور دیگر درسی کتابوں کا درس دیتے۔ شام تک درس وتدریس کا یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ فتویٰ نویسی کی خدمت بھی انجام فرماتے تھے۔ ہفتہ میں عام طور سے تین دن محفل وعظ منعقد ہوتی، جن میں لوگ اتنے ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے کہ ہجوم کے باعث شہر سے باہر عید گاہ میں آپ کا منبر لگایا جاتا تھا۔
آپ کا وعظ و بیان:
حضور غوث اعظم ہفتہ میں تین دن خطاب فرمایا کرتے تھے، جمعہ کی صبح، منگل کی شام، اتوار کی صبح۔ حضور غوث اعظم فرماتے ہیں کہ: ابتداً مجھ پر وعظ و تقریر کا ایسا غلبہ ہوتا تھا کہ خاموش رہنا میری طاقت سے باہر ہو جاتا، میری مجلس میں دو یا تین آدمی سننے والے ہوتے، مگر میں نے سلسلہ کلام جاری رکھا پھر اس قدر ہجوم بڑھا کہ جگہ تنگ پڑ گئی، پھر عید گاہ میں خطاب شروع کیا وہ بھی ناکافی ہوئی تو شہر کے باہر کھلے میدان میں اجتماع ہونے لگا اور ایک ایک مجلس میں ستر ہزار کے قریب سامعین جمع ہونے لگے۔ بسا اوقات آپ کے اجتماع سے شوق ،ہیبت، تصرف اور جلال کے باعث کئی کئی جنازے نکلتے (ماخوذ: اخبار الاخیار، صفحہ ۳۷، ۳۸)-
جب آپ کرسی خطابت پر تشریف فرما ہوتے، تو مختلف علوم و فنون میں گفتگو فرماتے، اور ہیبت اتنی ہوتی کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا، پھر اچانک فرماتے: قال ختم ہوا اب ہم حال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، یہ سنتے ہی سامعین میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا، کوئی آہ بکا میں مصروف ہوتا، یا مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہوتا، کسی پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی تو کوئی کپڑے پھاڑ کر جنگل کی راہ لیتا، کچھ ایسے بھی ہوتے جن پر شوق اور ہیبت کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ طائر روح قفس عنصری سے ہی پرواز کر جاتا، غرض کہ سامعین میں سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا (اخبار الاخیار)-
آپ کے تلامذہ:
آپ نے اپنی تینتیس سالہ تدریسی خدمات سے ایک لاکھ سے زائد جید علماء، صوفیاء، فقہاء و محدثین اس اُمت میں پیدا فرمائے، مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ: بیت المقدس کو عیسائیوں کے پنجے سے آزاد کرانے کا سہرا سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کے سر ہے، یقینًا اُنہیں کے سر ہے، اور یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بیت المقدس کو فتح کرنے میں جن مجاہدین نے جنگ کی وہ کس کے تیار کیے ہوۓ تھے، سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی فوج کے چیف ایڈوائزر شیخ موفق الدین ابن قدامہ تھے جو کہ براہ راست شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ تھے، اور فوجیوں کی اکثریت غوث اعظم کے مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ پر مشتمل تھی، بقیہ مجاہدین حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے جامعہ نظامیہ سے تعلق رکھتے تھے،
علاوہ ازیں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ خود حضور غوث اعظم کے بے پناہ معتقد اور سلسلہ قادریہ کے پشتینی غلاموں میں تھے، آپ ڈبل قادری تھے، اولاً یہ کہ آپ براہ راست سرکار غوث اعظم کے ایک بیٹے کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تھے، ثانیاً یہ کہ آپ کے والد ماجد نے آپ کو بچپن ہی میں حضور غوث اعظم سے مرید کروا دیا تھا (مقام سیدنا غوث اعظم، صفحہ 38، 39)-
یہ ہے فیضان قادریت جس کی برکات سے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سرکار غوث اعظم کا علمی اور روحانی فیضان نصیب فرمائے آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدر عبد القادرِ قدرت نما کے واسطے