غیب داں صادق و مصدوق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک بڑی نشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : قرب قیامت علم اٹھا لیا جائے گا یعنی علماء اٹھا لیے جائیں گے ۔ (بخاری شریف) یہ نبوی فرمان اس زمانے پر حرف بہ حرف صادق آ رہا ہے؛ کیوں کہ تقریبا تین چار سالوں سے مسلسل قابل قدر علما و مشائخ بڑی تیزی سے اس دارفانی سے کوچ کر رہے ہیں۔ اسی غم ناک سلسلے کی ایک دل گداز کڑی ” فقیہ عصر، محقق مسائل شرعیہ، خلیفۂ حضور شیخ الاسلام، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ آل مصطفیٰ مصباحی اشرفی علیہ الرحمہ کی وفات ہے”۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے؛ آپ ایک بالغ نظر مفتی، ماہر فن تدریس، بہترین ادیب و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کی ذہانت، زبردست قوت حافظہ اور وسیع ترین ذخیرۂ معلومات کے حامل تھے۔ آپ کی وفات سے جماعت اہل سنت کو نا قابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ جب سے وفات کی خبر ملی ہے دل غمگین ہے، ذہن بوجھل ہے اور یہ سوچ کر تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ وہ عظیم محقق و تجزیہ نگار جسے ہم جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں منعقد ہونے والے مجلس شرعی کے فقہی سیمینار میں مکمل علمی شباب کے ساتھ نہایت متانت و سنجیدگی سے امت مسلمہ کو در پیش جدید اور ادق مسائل پر دیگر مندوبین سے بحث و مباحثہ کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور ان کی خالص تحقیقی بحث سے محظوظ ہوتے تھے، افسوس! علمی فلک کا وہی آفتاب عالم تاب آج ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
رب قدیر کی بارگاہ میں دعا ہے ہے اللہ کریم حضرت مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، ہمیں آپ کا بدل عطا فرمائے اور آپ کے فیضان و لمعان سے ہم طالبان علوم نبوت کو شادکام فرمائے۔
آج کی مختصر سی تحریر میں حضور مفتی صاحب قبلہ کی “کتاب زندگی” کے چند اوراق کھولنے کی کوشش کروں گا۔
نام و نسب: آپ کا اسم گرامی آل مصطفی بن مولانا محمد شہاب الدین بن منشی نجابت حسین صدیقی اور لقب “فقیہ اہل سنت” ہے۔
ولادت: آپ کی ولادت 27 اکتوبر 1971ء کو علاقہ بارسوئی ضلع کٹیہار (بہار) کے ایک معروف گاؤں “شہجنہ” میں ہوئی۔
تحصیل علم/ علمی اسفار/ تعلیم و تربیت: آپ نے تعلیمی سفر کا آغاز گاؤں کے مکتب سے کیا، جہاں حضرت منشی محمد طاہر حسین صاحب کٹیہاری سے قاعدہ بغدادی اور پارہ “عم” کا درس لیا۔ فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم حورا سونا پور، ضلع کٹیہار میں اور درجۂ ثانیہ کی تعلیم مدرسہ فیض العلوم محمدآباد، گوہنہ، ضلع مئو میں حاصل کی۔ جب کہ درجہ ثالثہ اور رابعہ کی تکمیل الادارۃ الاسلامیہ دارالعلوم حنفیہ کھگڑا، کشن گنج، بہار سے کی۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے آپ نے ازہر ہند، باغ فردوس جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی کا رخ کیا اور وقت کے مایۂ ناز علما و مشائخ سے براہ راست استفادہ کیا۔ آپ نے یہاں درجۂ خامسہ سے درجۂ ثامنہ تک مکمل چار سال تعلیم حاصل کی، اور 1990 میں دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے ۔ آپ نے درس نظامی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ خلیفۂ صدر الشریعہ، فقیہ اعظم ہند، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے فتوی نویسی کی تربیت و اصلاح بھی لی۔ (ملخص از فروغ رضویات میں فرزندان اشرفیہ کا کردار، ص: 433))
اساتذۂ عظام: آپ نے جن اساطین ملت سے اکتساب فیض کیا ، ان کی مختصر فہرست یہ ہے حضور شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ، محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، حضرت مولانا اعجاز احمد مصباحی علیہ الرحمہ، محدث جلیل حضرت علامہ عبدالشکور قادری، نصیر ملت حضرت مولانا محمد نصیر الدین عزیزی مصباحی، صدر العلما خیر الاذکیا حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، سراج الفقہا حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، فقیہ النفس حضرت مفتی مطیع الرحمن مضطر نوری، حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی، شمس العلما حضرت مولانا شمس الہدیٰ رضوی مصباحی، خطیب محقق حضرت مولانا عبدالحق رضوی مصباحی اور والد گرامی حضرت مولانا محمد شہاب الدین اشرفی دامت برکاتہم و فیوضھم۔
بیعت و خلافت: آپ کو نقیب عظمت سادات، حضور سرکار کلاں علامہ سید شاہ مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل ہے۔ اور رئیس المحققین حضور شیخ الاسلام سید شاہ محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی مد ظلہ العالی نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا ہے۔
تدریسی خدمات: جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے درجۂ فضیلت اور مشق افتا کی تکمیل کے بعد ہی استاد گرامی حضور محدث کبیر کے حکم پر جامعہ امجدیہ گھوسی میں تدریس و افتا کی خدمات کے لئے اکتوبر 1990ء میں آپ کو منتخب کیا گیا ۔ اور 1990ء سے لے کر اب تک مکمل ذمہ داری کے ساتھ نہایت عرق ریزی اور جاں فشانی سے اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے۔
تحریری خدمات: یوں تو آپ کو زبان و قلم پر یکساں عبور حاصل تھا۔ مگر تحریر تقریر سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے اس خیال سے آپ نے علم دین کی نشر و اشاعت کے لئے عموماً قلم کو وسیلہ بنایا اور عوام و خواص کی رہ نمائی کے لیے ہزاروں فتاوی تحریر فرمائے۔ نیز ارباب علم و دانش اور اصحاب فکر و نظر کے افادہ کی خاطر مختلف موضوعات پر تقریبا 200 تحقیقی مضامین اور ایک درجن سے زائد خالص علمی و فنی کتابیں آپ کی خامۂ زرنگار سے منصۂ شہود پر آئیں۔ جو نئی نسل کے علماء و فضلاء کے لیے “گنجہائے گراں مایہ” سے کم نہیں۔ جن کی قدر تفصیل یوں ہے :
منیر التوضیح (عربی حاشیہ بر “التوضیح فی حل غوامض التنقیح”) ، تعلیق و تحشیہ فتاویٰ امجدیہ جلد سوم اور جلد چہارم، حاشیہ شرح عقود رسم المفتی (زیر طبع) ، اسباب ستہ اور عموم بلوی کی توضیح و تنقیح، بیمۂ زندگی کی شرعی حیثیت، کنز الایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ، منصب رسالت کا ادب و احترام ، روداد مناظرۂ بنگال، مختصر سوانح صدر الشریعہ علیہ الرحمہ، بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول، مسئلہ کفاءت عقل و شرع کی روشنی میں، تقدیم و ترجمہ عربی عبارات “فقه شهنشاه و أن القلوب بيد المحبوب بعطاء الله” المعروف بہ “شہنشاہ کون؟” (امام احمد رضا قدس سرہ) ، ترجمہ و تقدیم “مواهب أرواح القدس لكشف حكم العرس” (ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ)۔
اس کے علاوہ کئی کتابوں پر آپ کے گراں قدر تقریظات اور قیمتی مقدمات موجود ہیں۔ یہ آپ کے وہ قابل فخر خدمات ہیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
وفات: 10 جنوری 2020ء شب دوشنبہ قریب 12:30 پر 51 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے جانے سے علمی انجمنیں سونی پڑ گئیں، شہر فقہ و افتا میں ایک طویل زمانے تک آپ کی کمی محسوس کی جاتی رہے گی۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اللہ تبارک و تعالی حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے۔
ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے۔