سیدہ نفیسہ مصریہ رحمۃ اللہ علیہا
سیدہ نفیسہ علویہ حسنیہ مصریہ رحمۃ اللہ علیہا اہل بیت اطہار سے ہیں اور حضرت حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔آپ کی والدہ سیدہ زینب بنت حسن مثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہا ہے۔سیدہ نفیسہ کی ولادت سن145/ ایک سوپینتالیس ہجر ی میں شہر مکہ میں ہوئی۔ پانچ سال کی عمر میں آپ اپنے والد کے ہمراہ مدینہ میں تشریف لائیں اور یہی سکونت پذیر رہی۔بچپن سے ہی آپ خو ب عبادت و ریاضت کرتی، دنوں میں روزے رکھتی اور راتوں کو قیام فرماتی،مسجد نبوی کے علمی حلقوں میں شامل ہوتی جس کی وجہ سے لوگ آپ کو ’نفیسۃ العلم‘ بلاتے تھے۔آپ نے تیس بار پیادہ پا حج کیا۔ آپ کے والد نے سن ایک سو ساٹھ ہجر ی میں آپ کا نکاح حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسحاق مؤتمن رحمۃ اللہ علیہ سے کروایا۔جن سے آپ کی دواولاد ہوئیں قاسم اور ام کلثوم۔
آپ کے والدما جد حضرت حسن بن زید رضی اللہ عنہ اہل بیت کے اکابر علمامیں شمار کیے جاتے ہیں۔آپ ہمیشہ خلافتی تنازع سے دور رہے۔خلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف سے پانچ سالوں تک حاکم مدینہ رہے۔ سن 168/ایک سو اڑسٹھ ہجری میں تیسر ے عباسی خلیفہ مہدی کے ساتھ حج کے لیے نکلے لیکن کچھ دن کی علالت کے بعد مقام حاجر میں وفات پائى اور وہیں مدفون ہوئے۔
سیدہ نفیسہ رحمہا اللہ نے سن193/ ایک سو ترانوے ہجری میں حجاز سے مصر کے قاہرہ کی طرف سفر اختیار کیا۔آپ پائے کی عالمہ،حافظہ،مفسرہ، محدثہ،عابدہ،زاہدہ، صاحب کرامات ولیہ اور اللہ کی برگزیدہ بندی تھیں۔آپ کی علمی شہرت کی وجہ سے لوگ جوق در جوق علوم قرآن وحدیث سیکھنے کے لیے آنے لگے۔چونکہ آپ صاحب ثروت تھی لہذا مفلوج و اپاہج لوگوں کی، بیماروں کی اور عوام الناس کی امداد کرتے رہتی تھیں۔ عوام میں آپ کو قبول تام حاصل تھا۔
ایک مرتبہ آپ کی ایک یہودی پڑوسن نے بازار جانے کے لیے اپنی اپاہج بیٹی کو آپ کی اجازت سے آپ کے پاس چھوڑدیا۔ آپ نے جب نماز کے لیے وضو کرنا شروع کیا تو اس وضو کا گرتا پانی بچی کی طرف بہنے لگا، اس نے اپنے اندر عجیب تبدیلی محسوس کی، پھر ہاتھوں سے پانی کو اپنے پیروں پر ملنے لگی دفعتا اس کا فالج جاتا رہا اور وہ چلنے پھر نے کے قابل ہوگئی۔اس کےخاندان نے واپس لوٹ کر یہ دیکھا تو سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ایسے ہی سن201/ دوسوایک ہجری میں جب دریائے نیل کا پانی نہیں چڑھا اور قحط کا گمان ہونے لگا تو لوگوں نے سیدہ نفیسہ رحمہا اللہ سے درخواست کی، آپ نے اپنی چادر دی اور دریائے نیل میں ڈالنے کا حکم دیا۔ چادر مبارک کا ڈالناتھاکہ پانی اوپر آگیا۔ کتابوں میں آپ کے150/ دیڑھ سو سے زائد کرامات کا ذکر ملتا ہے۔
جب اما م شافعی رحمہ اللہ سن198/ایک سو اٹھانوے ہجری میں مصر تشریف لائیں تو آپ نے بھی سیدہ نفیسہ مصریہ رحمہا اللہ سے علم حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ مسجد عمرو بن العاص ، فسطاط میں تدریس کے لیے آتے اورجاتے وقت سیدہ کے گھر میں ضرور توقف کرتے، اخذ حدیث کرتے اور دعا کی التجاکیا کرتے تھے۔آپ جب علیل ہوئے تو آپ نے وصیت کی کہ میرا جنازہ سیدہ کے گھر کے سامنے سے گزارا جائے۔ آپ کی وفا ت کے بعد ایسا ہی کیا گیا۔ سیدہ نفیسہ رحمہا اللہ نے آپ کا جنازہ اندر منگوایا اور نماز جنازہ پڑھی۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے مرتبہ شناس و قدر دان تھے۔
سن208/دوسو آٹھ ہجر ی میں سیدہ نفیسہ علیل ہوگئیں اور باوجود اس کے روزے سے رہیں۔ مشورہ دیا گیا کہ آج روزہ توڑدیں، آپ نے فرمایا: “لا أفطر و کنت أسأل اللہ ان القاہ و اناصائمۃ”۔ “میں سالوں سے یہ دعاکررہی تھی کہ جب مجھے موت آئے اس وقت میرا روزہ ہو، تو میں روزہ کیونکر توڑوں؟”۔ماہ رمضان كي 15/تاريخ كو دوران تلاوت آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بوقت وفات آپ کی عمر64/ چونسٹھ برس تھیں۔
وفات کے بعد آپ کے شوہر نے آپ کے جسد اطہر کو مدینہ لے جاکر جنت البقیع میں دفنانا چاہا، لیکن اہل مصر مُصِر رہے کہ وہ انہیں تبرک اور توسل کے لیے وہیں مصر میں دفن کردیں۔لہذا آپ کوقدیم قاہرہ کے درب السباع میں موجود آپ کے اپنے گھر میں آپ کی بنائی گئی قبر میں دفن کیا گیا۔آج وہاں “مسجد نفیسہ مصریہ “قائم ہے اور آپ کے مزار ’مشہد نفیسہ‘ پر عقیدتمندوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔