ام المؤمنین سید ہ خدیجہ رضی اللہ عنہا
اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺکی گیارہ ازواج مطہرات تھیں۔ جنہیں ’امہات المؤمنین‘ یعنی مومنین کی مائیں کہا جاتا ہے۔ان میں سب سے اول ام المؤمنین سيده خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نام آتا ہے۔ آپ کے والد کانام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ تھا سيده خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک عالی نسب خاتون تھیں جن کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے قریش سے تھا۔ آپ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے “طاہرہ “کے لقب سے مشہور تھیں نیز کافی مالدار ودیانت دار تاجرہ اور شان و شوکت والی تھیں۔
جب آپ کو آنحضرت ﷺ کے حسن اخلاق اورصدق وامانت کا پتہ چلاتو آپ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ’آپ میرے غلام میسرہ کے ساتھ میرا مال تجارت لے کرملک شام جائیں، جو معاوضہ میں اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی‘۔ آنحضرت ﷺ نے قبول فرمالیا اور مال تجارت لے کر میسرہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔شہر بصری پہنچنے پر آپ ﷺ ایک درخت کے سائے میں آرام کی غرض سے ٹھہرے تو نسطورا نامی ایک راہب نے آپ کو دیکھا اور کہا: “بے شک اس درخت کے سائے میں بیٹھنے والا ایک نبی کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا”۔ دوران سفر میسرہ نے بھی دیکھا تھا کہ ایک بادل ہمیشہ آپ ﷺ کے اوپر سایہ فگن رہتا تھا، اس کی نظر میں ساری باتیں گھوم گئیں۔اس سال کا نفع سالہائے گذشتہ کے نفع سے بھی(مضاعف) دوگنا تھا۔
جب وہ سفر تجارت سے لوٹے تو میسر ہ نے بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کو وہ ساری باتیں بتائیں جو اس سفر میں واقع ہوئی تھیں۔جب آپ نے اتنا منافع دیکھا تو جتنا معاوضہ کا وعدہ کیا تھا اس کا مضاعف آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔آپ ﷺ سے متاثر ہوکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نفیسہ بنت منبہ کے ذریعہ اپنا نکاح کا پیغام بھیجا۔آپ ﷺ نے منظور فرمایا۔ بوقت نکاح آپﷺ25سال کے تھے اورسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا 40 چالیس سا ل کی تھیں۔بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے آپ کے چچا عمرو بن اسدنکاح کے وکیل تھے اور آنحضرت ﷺ کی طرف سے آپ کے چچا ابوطالب نکاح کے وکیل تھے۔ ساتھ میں آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔چچا ابوطالب نے خطبہ نکاح پڑھا، 500 طلائی درہم مہر قرار پایا۔آنحضرت ﷺ نے دو اونٹنیوں کی دعوت ولیمہ دی۔ آنحضرت ﷺ کی تمام اولادسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے ہوئی بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جوآپ ﷺ کی باندی سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: “اللہ عزوجل نے مجھے خدیجہ سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی،اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا،اپنے مال سے ا س وقت میری ہمدردی کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے محروم رکھااور اللہ نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی جبکہ میری دوسری بیویوں سے مجھے کوئی اولاد نہ ہوئی”۔
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاسب سے پہلی مسلمان بھی تھیں اور سب سے پہلی ام المؤمنین بھی۔آنحضرت ﷺ سے نکاح کے بعد25پچیس سالوں تک اکلوتی شریک حیات، غم گسار اور شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے بقیہ ازواج مطہرات سے آپ کی وفات کے بعد ہی نکاح فرمایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ میں خرچ کردیا۔آپنے ہجرت سے تین سال قبل11/ رمضان کو وفات پائی، اس وقت آپ کی عمر65 سال تھی۔ آپ کی قبر اقدس حجون کے قبرستان میں زیارت گاہ خلائق ہے۔