جب کبھی دین و مذہب میں طرح طرح کی برائیاں اور فتنے جنم لیتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُن برائیوں اور فتنوں کا سد باب کرنے کے لیے اپنے کسی مقرب بندے کو پیدا فرماتا ہے، جو خدا داد علمی صلاحیتوں سے مذہب اسلام کو نئی توانائیوں اور صحیح تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، باطل فرقوں اور باطل جماعتوں کے عقائد و نظریات کا رد بلیغ کر کے ان تک قرآن و حدیث کا صحیح پیغام پہنچاتا ہے، جیسا کہ ابو داؤد شریف کی حدیث ہے، جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس امت میں ہر ایک سو سال کے بعد اُس شخص کو بھیجے گا جو اُن کے لیے دین کی تجدید کرے گا (ابو داؤد شریف، کتاب الملاحم)۔ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی آمد کا دروازہ بند ہو گیا، اب لوگوں تک دین کی باتیں پہنچانے کے لیے اللہ رب العزت نے یہ عظیم کام علماء و فقہاء، محدثین و مفسرین کو عطا فرمایا، اور اس پر مزید یہ کہ ہر صدی میں اپنے کسی ایسے خاص بندے کو انبیاء و رسل کا سچا نائب بنا کر بھیجتا ہے جو دین کو از سر نو تازگی بخشتا ہے اور مجدد کہتے ہی اسے ہیں جو کسی پرانی چیز کو نیا بنا دے، جو دین و مذہب، شریعت و طریقت میں پیدا شدہ برائیوں کو دور کر دے، اور اُن تمام رسموں اور رواجوں کو مٹا دے جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ اُنہیں عظیم اور عبقری شخصیات میں سے ایک عظیم الشان ہستی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین و سنت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے پیدا فرمایا جس کو دنیا امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے، آپ کی پیدائش ١٤ شوال المکرم ۹۷۱ھ مطابق ۱۵٤۳ء کو جمعہ کی رات میں پیدا ہوئے، آپ کا نام “احمد” کنیت “ابو البرکات” لقب “بدر الدین” خطاب “قیومِ زماں، خزینۃ الرحمہ، امام ربانی، مجدد الف ثانی” ہے، آپ کا نسب ۲۹ واسطوں سے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کے ملتا ہے۔

ولادت کے وقت کے واقعات:

             آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ: میرے فرزند ارجمند شیخ احمد کی ولادت کے بعد مجھے غشی آ گئی، تو کیا دیکھتی ہوں کہ تمام اولیاء اللہ میرے گھر پر تشریف لائے ہیں اور مجھے مبارکباد دے رہے ہیں، اُن میں سے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گزشتہ اور آئندہ تمام اولیاء کے سارے کمالات اپنے فضل و کرم سے شیخ احمد کو عطا فرما دیے ہیں اور اسے اپنی رحمت کا گنجینہ بنا دیا، دوستوں اس کی زیارت کرو کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ جو بھی اس کی زیارت کرے گا میں اُس کے گناہ بخش دوں گا، اور قیامت کے دن اُس کو اپنے مقربین میں شامل کروں گا۔ اسی طرح آپ کے والد ماجد حضرت مخدوم علیہ الرحمہ (جو کہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے) فرماتے ہیں کہ: میں اپنے بیٹے شیخ احمد کی ولادت کے دن کیا دیکھتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے، اور تمام انبیاء اور آسمانی فرشتے آپ کے ساتھ ہیں، اور سب کے سب مبارکباد دے رہے ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے حد خوشی سے گود میں لے کر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہہ کر ارشاد فرمایا: “میرا یہ فرزند میرے تمام کمالات کا وارث، اور میرے قائم مقام ہوگا، اور میری امت کے دنیوی اور اخروی کارخانے کو سنبھالے گا”-

تعلیم و تربیت:

             حضرت شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ ایک دینی، علمی، اور روحانی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے، آپ کے والد ماجد شیخ عبد الاحد بھی صاحب علم اور متبع کتاب و سنت تھے، جب آپ کی عمر شریف پڑھنے لکھنے کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد نے آپ کی پڑھائی کی شروعات کی، ابتدائی عمر ہی میں آپ نے قرآن کریم حفظ فرما لیا تھا، اکثر علوم آپ نے اپنے والد بزرگوار ہی سے حاصل کیے، تفسیر و حدیث اور علوم عقلیہ حاصل کرنے کے لیے آپ نے بڑے بڑے جید علمائے کرام کی طرف رجوع کیا، حضور مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کو حصول علم کا شوق اس قدر تھا کہ سترہ سال کی عمر میں یا اکیس سال کی عمر میں جملہ علوم و فنون سے فارغ ہو گئے تھے-

درس و تدریس:

             فراغت کے بعد والد ماجد کی بارگاہ ہی سے درس و تدریس کا آغاز فرمایا، مختلف ممالک کے سیکڑوں طلبہ جوق در جوق آپ کی بارگاہ میں حصول علم کی غرض سے آنا شروع ہو گئے، رات دن درس و تدریس کا مشغلہ جاری رہتا، حلقہ تفسیر و حدیث گرم رہتا، آپ طلبہ کو تفسیر بیضاوی، صحیح بُخاری، مشکوٰۃ المصابیح، ہدایہ، بزدوی، عوارف المعارف وغیرہ کتب کا درس دیتے تھے، نیز آپ کو علم قرائت کا بھی شوق تھا، آپ طلبہ کو بڑی محنت و لگن کے ساتھ پڑھایا کرتے، صاحبزادگان اور بعض خلفاء نے بھی آپ سے تعلیم حاصل کی۔ اُس زمانے میں آگرہ سرزمین ہند کا دار السلطنت تھا اس لیے مختلف علوم و فنون کے ماہرین وہاں پر جمع رہتے، آپ نے وہاں بھی کافی عرصہ تک درس و تدریس کا کام انجام دیا، آگرہ میں طویل قیام کے بعد آپ واپس سرہند شریف تشریف لائے اور حاجی سلطان (جو کہ آگرہ اور سرہند کے مابین ایک شہر واقع ہے وہاں کے رہنے والے تھے) نے خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے اپنی دختر نیک اختر کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیا۔

بیعت و خلافت:

                  سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے، اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شاہ سکندر علیہ الرحمہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں اپنے والد گرامی شیخ عبد الاحد سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں اپنے استاد محترم مولانا شیخ یعقوب کشمیری علیہ الرحمہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی- حضرت مجدد کو تمام سلاسل میں خلافت حاصل تھی لیکن سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ آپ ہی کے دم سے اس سلسلے کو پاک و ہند میں اور دیگر ممالک میں فروغ حاصل ہوا۔

آپ کی خدمات:

             ایک طرف آپ نے لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف دعوت دی، اور شرک و بدعات کے خلاف جد و جہد کی، اور دوسری طرف علمائے سوء کے خلاف بھی آپ نے قدم اٹھایا، اور تیسری طرف اقتدار کا رخ بے دینی سے موڑنے اور اکبر کے خود ساختہ و پر داختہ دین جدید کو ختم کرنے کا اہم رول ادا فرمایا۔ بر صغیر میں اکبر کا دور حکومت اسلام پر ابتلا و آزمائش کا دور تھا، اکبر کو دین اسلام کے علاوہ ہر دین سے ہمدردی تھی، ایسے وقت میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اپنے آہنی عزم و استقلال سے تاریخ اسلام کا ایک روشن باب رقم کیا ہے، اور آئندہ ہزار سال کے لیے اُمت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے کر تاریخ اسلام میں مجدد الف ثانی کا لقب پایا-

آپ کی تصنیفات:

             آپ کی بے شمار تصنیفات و تالیفات موجود ہیں، یہ تصانیف اپنے مواد کی ثقاہت، علمی پختگی، معلومات کی کثرت کے اعتبار سے تاریخ اسلام کا لازوال خزانہ ہے، آج آپ کی تصانیف سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اُن لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے بالمشافہ آپ سے علم دین حاصل کیا، اگر آپ کی مکتوبات کا ہی ذکر کیا جائے تو دنیا بھر میں فکر اسلامی کی فہم کے لیے ہر رنگ و نسل کے لوگ اُن سے رجوع کر رہے ہیں، آپ کے علم و فضل، فکر و نظر کا لوہا جہاں اپنوں نے مانا وہیں بیگانوں نے بھی تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حرمین شریفین کے سفر میں شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی ایک کتاب کا حوالہ دیا تو حجاز کے علماء کو یہ معلوم ہوا کہ اس کتاب کا معارف و تحقیق کی دنیا میں کس قدر بلند مقام حاصل ہے، اُنہیں کے کہنے پر شاہ ولی اللہ نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا۔

             امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی و فکری خدمات کا جائزہ لیا جائے تو بیک وقت مفسر، محدث، فقیہ، متکلم، ماہر تعلیم، مبلغ، مصنف نظر آئیں گے، یہ جائزہ اس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ جملہ علوم و فنون پر آپ کی نظر کس قدر گہری تھی۔

علم تفسیر:

             حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ قرآن کریم کے عظیم مفسرین میں سے ہیں، کتاب اللہ کے نصوص کے بارے میں نیز آیات سے پیدا ہونے والے اثر کے متعلق ان کا ذوق بڑا لطیف ہے، آپ کے علم تفسیر کے کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے خواجہ ہاشم کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “یہ مکاتیب اسرار دین اور انوار یقین کا جامع ہیں، اور قرآن کریم کے چھپے بھیدوں کو ظاہر کرتے ہیں، ملک حسن علی جامعی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ایک آیت مبارکہ کی تشریح کے ضمن میں فرماتے ہیں: “حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے نہایت محققانہ تفسیر بیان کی ہے اور کئی حقائق اور نکتے بیان کیے ہیں، اُس میں علوم و معارف کے گوہر لٹائے، اور حق تو یہ ہے کہ اس آیت کی تفسیر کا حق ادا اُنہیں نے کیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے مکمل قرآن کریم کی تفسیر نہیں لکھی، لیکن مکاتب و رسائل میں قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تفسیر بیان فرمائی، مفسر بالاثر اور مفسر بالرائے کی حیثیت سے آپ نے مابعد کے مفسرین کو بہت متاثر کیا-

علم حدیث:

             حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ ایک عظیم محدث بھی ہیں، شیخ یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور عبد الرحمن سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے کتب و احادیث پڑھیں، علم حدیث میں آپ کی مہارت تامہ کا اندازہ آپ کی کتب و رسائل اور مکتوبات سے لگایا جا سکتا ہے، مکتوبات میں کم و بیش تین سو احادیث کے حوالے بعض مقامات پر نہایت عمدہ تشریح کے ساتھ ملتے ہیں، متن حدیث میں ایک رسالہ اربعین یعنی چالس منتخب احادیث کا مجموعہ آپ کی تالیف ہے جو کہ عام طور پر ملتا ہے۔ مکتوبات و دیگر رسائل میں آپ نے بعض مقامات پر اصول حدیث کے فنی مباحث جیسے صحیح، حسن، خبر واحد، خبر متواتر، اور راویوں وغیرہ کے جرح وغیرہ کے حوالے سے بھی گفتگو فرمائی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدیث اور اصول حدیث پر آپ کو کس قدر مہارت تامہ حاصل تھی۔

علم فقہ:

             اس کے علاوہ آپ کو فقہ، اصول فقہ پر بھی زبردست مہارت حاصل تھی، آپ کو فقہ سے گہری دلچسپی تھی، آپ فقہی کتب کا نہ صرف خود مطالعہ کرتے بلکہ اپنے مریدین کو بھی مطالعہ کا حکم دیتے، علم فقہ کے مقابلے میں بعض دیگر علوم کو ہیچ سمجھتے، ایک مکتوب میں اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: “علماء اور طلبہ علوم کے گرد بیٹھے ہوں، اور تلویح کے مقدمات اربعہ کی کسی طالب سے تکرار کر رہے ہو، نیز ہدایہ کی تکرار بھی شروع کر رکھی ہو، شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ حنفی المسلک تھے، اس لیے اپنی تصانیف میں جا بجا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں توصیفی کلمات لکھے ہیں، آپ دلیل تفصیلی کی معرفت کے بعد ہی فتویٰ لکھتے، آپ کا فقہی سرمایہ اگر چہ قلیل ہے لیکن اس میں تحقیق کا وہ اسلوب و معیار نظر آتا ہے جس کی جھلکیاں ہمیں صرف قدیم فقہاء میں نظر آتی ہیں، کسی مسئلہ میں بحث کرتے ہوئے اگر کتاب اللہ سے استنباط ممکن ہو تو اسے نظر انداز نہ کرتے، کتاب اللہ سے دلائل بیان کرتے ہوئے کبھی کبھی اصولی اور تفصیلی ابحاث بھی فرماتے، پھر کتب احادیث سے دلائل پیش کرتے، آپ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے اعتبار سے فتویٰ دیتے، اور حنفی مسلک کی تائید و حمایت میں دلائل فراہم فرماتے، آپ فرماتے “ہم مجتہدین کے تابع ہیں جو کچھ وہ فرمائیں وہی کرو، اور ہم بھی وہی کرتے ہیں جس کام سے منع کرتے ہیں وہ نہیں کرتے ہیں۔

آپ کی چند تصانیف کے نام:

           آپ نے بے شمار کتابیں اور مکتوبات و رسائل تحریر فرمائے، جن میں سے چند مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں: (۱) اثبات النبوۃ، (۲) رد روافض (۳) رسالہ تہلیلیہ (۴) شرح رباعیات (۵) معارف لدنیہ (۶) مبداء و معاد (۷) مکاشفات عینیہ وغیرہ-

وصال: آپ کا وصال بروز پیر ۲۸ صفر المظفر ۱۰۳۴ھ، مطابق جنوری ۱۶۲۵ء کو ہوا۔ آپ کا مزار پر انوار سرہند شریف (انڈیا) میں ہے۔

ماخذ و مراجع: سیرت مجدد الف ثانی، حضرت مجدد الف ثانی



Source link

By admin