من خاف اللہ خافه کل شئ
خدائے لم یزل ولایزال نے لوگوں کی ہدایت کے لئے بہت سے انبیاء ورسل کو بھیجا جنہوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اللہ تعالی کے احکام واقوال کو جہاں میں پھیلایا اور پھر یہ پیغام نسلاً بعد نسلٍ قرناً بعدقرنٍ ہمارے نبی آخرالزماں خاتم النبینﷺنے بحسن وخوبی ادافرمائی لیکن نبی آخر الزماں کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔
پھرسوال اٹھتاہے؟کہ کیااب خد اکا پیغام پہنچانے والاکوئی نہیں آئے گا؟ توسنیے جس طرح نبی ﷺنے لانبی بعد ی فرماکر نبوت کا دروازہ مقفل کرنے کی خبر دی تھی وہیں نبی ﷺکے قول آخر-العلماء ورثۃ الانبیاء -علماء امتی کانبیاء بنی اسرآئیل- کی خوشخبر ی نے قیامت تک کے لئے ولیوں اورعلماؤں کی آمد کے دروازے کھول دیے -یعنی جو پیغام انبیاء رسل دیا کرتے تھے اب وہی پیام اولیاء وعلماء دیا کریں گے۔
اسی کے مطابق بیسویں صدی عیسوی کے ایک حصہ میں ایک عظیم الشان علم کاجبل شامخ ہندوستان کے مشہو ر صوبہ کیرالاکے ضلع کالیکٹ میں طلوع ہوا جس کی علم روشنی سے صوبہ کیرالاکاہرگلی وکوچہ منور ومجلی ہوگیاانہوں نے کیرالامیں مسلمانوں کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے میں ہرطرح سے رہنمائی اورجاں فشانی فرمائی اس جیسی ہمہ جہات شخصیت کی حیات مبارکہ پرخامہ فرسائی کرنا آفتا ب کوچراغ دکھا نے کی مثل ہے۔
میر ی مراد یگانہ روز گا ر،بزم افروز،میرمجلس، مشعل راہ ہدایت، نابغہ زمانہ،وحید الزماں، عظیم الشان،حامی سنت، ماحی بدعت،قاطع کفروضلالت ہر فن مولا حضرت علامہ مولانا الحاج الشاہ شمس العلماء ای کے ابوبکر مسلیار بن کویا کٹی مسلیا رؒ ہے،جو اپنے وقت کے ماہر علوم وفنون، صوفی وزاہد، بے مثال ولاثانی،بے ہمہ وباہمہ تھے۔
اپنی انہی خاص مہارت کی بناء پرانہوں نے بد عتیوں ونصر ا نیوں کے فاسد دعوات و اعتقادات کا منھ توڑ،ودندان شکن جواب دیاجس کی وجہ سے صاحب کلاہ کج کہن نے اپنابوریہ بستر سمیٹنے ہی میں عا فیت وراحت سمجھاانہی جامع خصائل و خوبیوں کی بناء پر کیرالا اور بیرون کریلاکے علماء نے آپ کو شمس العلماء جیسے عمدہ خطاب سے ملقب کیا اوریاد رکھاہے،یہ وہ لقب ہے جسے آج بھی کیرالا کے کونے کونے، گوشے گوشے، چپے چپے میں عوام وخواص جانتی ہی نہیں بہت اچھی طرح پہچانتی بھی ہے، نیز اس کے گن گان بھی کرتی ہے،کون سی ایسی جگہ کون سی ایسی تنظیم کون سا ایسا سنہر ا کام ہے جو شمس العلماء کی طر ف منسوب نہ کیاگیا ہو؟آخر سورج کی کرن سے کوئی شئ محفی رہتی ہے یارہے گی اسکی شعاع ریزکرن تو بلاامتیاز ہر ایک کو جلا بخشتی ہے بس یہی نظیر ہے شمس العلماء ای کے ابوبکر مسلیارقدس اللہ سرہ کی -اللہ انکی گورستان کو نمناک کرے،اورانہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
شمس العلماء کی حیات مبارکہ کاتذکرہ کرنے سے قبل مناسب ہی نہیں بلکہ انسب ہو گاکہ یمن کے بار ے میں کچھ خاص باتیں زیب قرطا س کردی جائیں کیونکہ اسکا بیان نوک قلم پر آئے بغیر شمس العلماء تو کیا، خود کیرالااور یہاں کی کسی بھی عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر وتذکرہ نامکمل اور ادھورہ ہوگا۔
شمس العلماء کانسب یمن سے ملتا ہے اصلاً وہ یمنی ہیں بہت سال پہلے ان کے پر دادا وغیرہ میں سے کوئی جن کانام،اوروہ کب آئے کس سن میں آئے تاریخ میں محفوظ نہیں اور نہ ہی ان کے خاندان کے کسی افراد کو اسکا علم ہے جیسا کہ خو د شمس العلماء کی زبانی سنی گئی ہے (بحوالہ مظاہر الاضواء فی مناقب شمس العلماء ص۵-رُوِیَ أَنَّ جَداًّمِن أَجداَدِہِ قَدِمَ زَاہِداًإِ لیَ الہِندِ مِن مَدِینَۃِ الیَمنِ الِاسلَا مِیَّۃِ کَمَآأُشِیِرَإِلیہِ فِیِ الأُسْطُرِ الأُوَّلِیَّۃِ فِی وَفدِ السَّادَاتِ البَاعَلَوِیَّۃِ المُشتَہِرَۃِ بِوَرَکَّلِیَّۃِ وَلَم یُعرَف إِسمُہُ وَلَاتَارِیخُ قُدُومِہِ المَحدُودُ مِنَ السَّنَوَاتِ السَّوِیَّۃَ وَاستَوطَنَ مَعَہُم فِی البَندَرِالجَدِیدِ مِن مَدِینَۃِ کٰالِیکُوتِ)۔
وہا ں سے کیرالا میں مستقبل کے نورپاش بن کر کیرالا کی تیرہ و تاریک سرزمین پردین کی ترقی کی بناء ڈالنے کے لئے سید خانوادہ کیساتھ ہندوستان کی صحرا نور د ی فرمائی اور اپنی زندگی ہی نہیں بلکہ اپنی آنے والی ہر نسل کو اس کے استعمال میں صرف کیا۔
ان سے پہلے بھی بہت سے یمنی افرادادھر آکر مختلف پہلوؤں سے خدمات اسلام انجام دیاتھا بایں وجہ اہالیان کیرالا ان جگہوں کو کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو نے دیتے،ان میں سے ایک حضرموت، دوم تریم،یہ جگہیں جو یمن میں بیحد مشہور ہیں،اورمشہور ومعروف اولیاء وعلماء کامادر وطن شمارکیا جاتاہے جو کیرالا کی آ نکھو ں کی ٹھنڈک دلوں کا چین،من، کا سکون ہیں بلکہ ہم یہ کہدیں کہ یہ مسلمانوں کے لئے کرمک شب تاب اور سرمہ چشم ہیں، تو بے جانہ ہوگا، انہی صلحاء ونجباء میں سے سنیوں کے سرخیل، عارف باللہ،مناظراہل سنت، شمس العلماء کا نام سرفہرست ہے جو یہاں کی عوام کے روں روں میں رچے بسے ہو ئے ہیں۔
خاندان: شمس العلماء شیخ ای کے ابو بکر مسلیارکی ولادت ایک ایسے بزرگ نسل میں ہوئی جس کے مورث اعلی باعلوی سادات ور کلی کے کاتبین اورنہایت دینداروں میں سے تھے ان کے جداعلی کیرلا میں وفد باعلوی سادات ورکلی کساتھ یمن سے تشریف لائے اور ورکل ملا کویا تنگل کے جواربندرجدید کالی کٹ میں آبسے پھرشمس العلما ای کے ابوبکر بن کویا کٹی مبرور ابوبکرعلیم الرحمۃکے دادا جان ابوبکر(انکی اولاد میں عبد اللہ، قاسم، فاطمہ، کنجی بی بی، اور شیخ فاضل کویا کٹی قادری مسلیار جو اپنے وقت کے جلیل القدر عالم پارسا صوفی وزاہد شمارکئے جاتے تھے) کالیکٹ سے پرامبل کڈو ParambilKadav, Kozhikod,Dist) )جو شہر تقریبا دس کیلو میٹر اتروپورب کی جانب ہے کوچ کر گئے اور اسی جگہ اپنے اہل وعیال کیساتھ بنام ایڑ تچن کنڈی منزل میں زندگی بسرکی اورتادم مرگ ورکل ملا کویا تنگل سے جڑے رہے اور اپنی زندگی کو ورکل ملا کویا تنگل کے نہج پرڈھالاان سے روحانی تعلق ہموار کرکے شاگر د ہونے کی بخت آوری پائی،ان ہی کی اولاد میں شیخ فا ضل کو یا کٹی مسلیار معروف بہ احمد کویا ”سادات تتا نکا ڑی،،کے قریب آشیانہ تعمیر کیاچونکہ کویا کٹی مسلیار اہل بیت کے بہت بڑے چاہنے وا لے او ر سا تھ ہی ان کے معلم بھی تھے ملاکویا،تنگل کیسا تھ ملکر خود ان کے خاندان اوربہت سے نامو ر علماء کو کتابت کی تعلیم دی،ان سادات میں مشہور سید الفاضل العلامۃ الصوفی الشیخ عبد الر حمن بن سید الشیخ الفاضل التقی محمد باعلوی ملا کویا ورکلی بانی وصدر سمستہ جمعیۃ العلماء کیرالا ہیں جب کویاکٹی کا انتقال ہوا تو ان کو سادات کرام کے قبر ستا ن میں مدفن ملی اور وہیں مدفون ہوئے جو شمس العلماء ای کے ابوبکرکے والدمحترم تھے۔
شمس العلماء کے والد کا شمار اچھے عالم وصوفی میں ہوتاتھا نام ہے”کویا،کٹی مسلیار،،او ر ماں کا نام فاطمہ بی بی کٹی بنت ابی بکر ادیوڑی، بچپن ہی سے ای کے ابوبکر مسلیارکو باپ سے انسیت کچھ زیادہ تھی جسکا اثر وجھلک ان کی زندگی میں ظاہر وباہر تھا کو یاکٹی مسلیار کو کل بارہ اولاد ہو ئی،دس بیٹے اور دوبیٹاں،جن میں سے سات بیٹے“ابوبکر،،عمر،، عثمان،، علی،، عبداللہ،، احمد،،حسن، -دوبیٹیاں – آمنہ،، عائشہ،،باحیات ر ہیں اور تین بچپن ہی میں موت کے گلے لگ گئے، ان بیٹوں میں سے بڑے بیٹا کا نام ای کے ابوبکر مسلیار ہے جنکا ذکرجمیل فی الوقت مقصود ہے۔
اورد وسرے سار ے بھائی پلے بڑھے جوانی کی دہلیزپرقدم رکھااعلی تعلیم پائی اہم اہم عہدوں پرفائز رہے اور علم وعمل میں مرتبہ علیا ء اور مقام رفعت و عظمت حاصل کی،ان میں سے کچھ کا انتقال ہوگیا ہے اور کچھ بقید حیات ہیں،اگر ان کاتفصیلا ذکر کر وں تو علیحدہ طور سے ان کی سرگذشت ورطہ تحریر میں لا نے کے لیے کافی وقت درکا ر ہوگی،ہاں! ان کا اجمالا چرچا کرنا چاہوں گاتاکہ معلومات میں اضافہ کا سبب بنے۔
شمس العلماء کے محترم بھائی حاجی عمرصاحب ابتداء سے ہی دین کے خوگر تھے قادری طریقت سے نسبت رکھنے کی بناء پر شرعی تمکن اور بھی دوگنی ہوگئی تھی، یہ سلسلہ طریقت سید ایلکا ڈسعید بن احمد القادری سے ملی، انکوانہی تقوی شعاری کے مد نظر خلافت سے بھی نوازہ گیا،انکا شمس العلماء کے بارے میں کہنا تھا کہ میرے بھائی کامقام امام غزالی کاساہے۔
ان کا دوسرابھائی عثمان مسلیار 1978ء میں دل کا دور ہ پڑنے کی وجہ سے وفات پائے یہ کروضما ڈ کن سے قریب نجیرم محل کے خطیب تھے۔1970ء میں تیسرابھائی علی مسلیار کی وفات ہوئی۔
احمد حاجی چوتھے بھائی ہیں جو اب بھی ترشور ضلع کے ورچول میں رہتے ہیں او ر وہاں کے قاضی مقررہیں انہوں نے بھی سید ایلی کاڈ سراج صاحب سے طریقہ قادریہ کی بیعت کی ہے۔
پانچواں بھائی ای کے حسن مرحوم جمعیۃ العلماء کیرالاکے مشہور کارکن تھے مبتدعین کو ایک آنکھ نہ پسند کرتے تھے ہمیشہ ان سے آ نکھ بھوں چڑھاتے تھے، ایس وای ایس (SYS)کے صوبائی امیراور کا سرکوڈ کے قاضی بھی تھے وہ اکثر یہ بات دہراتے تھے“ اللہ نے مجھے میرے بھائی کی بدولت حق نمائی کی قوت عطاء فرمائی ہے جس کے باعث بیشتر جگہوں میں کا میابی پاتاہوں،، 1980ء میں انکا انتقال ہوگیا تھا ان کی جدائی اور انکا ساتھ چھوٹنے سے شمس العلماء نے کہا تھا “آج میراایک دست وبازوختم ہوگیا”۔ بھائیوں میں حاجی احمد، بہنوں میں، آمنہ،عائشہ، ابھی باحیات ہیں۔ آمدم برسرمطلب۔
ای کے ابو بکر مسلیار کی پیدائش ۹-محرم الحرام 1914ء مطابق 1333ہ میں کالیکٹ (قاضی کوڈ) کے مقا م پرامپل کدو (ParambilKadav) میں ہوئی ان کا گھرایڑ تچن کنڈیEzhuthachankandi,kozhikod,Dist) )کی جانب منسو ب کرکے ”اِی کے،،کہا جاتاہے،(بحوالہ مظاہر الاضواء فی مناقب شمس العلماء ص ۷)
خلیفہ اول یارغار ﷺ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے اپنے بچے کانام بھی ابوبکر رکھا نام کا اثر بچپن ہی سے ظاہرہورہاتھا انتہائی ذہین، تعلیم سے حد درجہ شغف، عہدطفولیت میں اس درجہ کی عقلمندی و ہو شمند ی دیکھکروالدین اپنے لخت جگر،نورنظر کی تابناک مستقبل کی امید سے چہک رہے تھے چونکہ ان کے والد بزرگ وار خو دہی ایک اچھے عالموں میں گنے جاتے تھے،پھر خادم سادات ہونے کا تمغہ اس پر مستزاد، سیدمحمد باعلوی ملا کویاصاحب کے ساتھ شمس العلما ء کے داداجان خادم وکاتب کی حیثیت سے تشریف لائے تھے میراخیال ہیکہ یہ فیضان صحبت اہلبیت ہے کہ ابوبکر کو جہاں کی سروری ملی تاآنکہ حبّ اہل بیت کی فیض گستر نے ای کے ابو بکر سے شمس العلماء بنادیا۔
اسکا اندازہ اس و اقعہ سے بحسن وخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت شمس العلماء کی رفیق حیات اس دنیا کو الوداع کہہ چکی تھی اور نماز جنازہ پڑھانے کی بات ہوئی تو شمس العلماء نے امامت کے لئے سید”محمد علی شہاب،، نور اللہ مرقدہ کو منتخب فرمایا، رات کا وقت تھا اس پرایک تہائی رات گذر چکی تھی جنازہ پڑھا نے کے ارادہ سے نکلے کہ راستے میں حضرت کو کچھ ناگہانی حادثہ کا سامنا ہوگیا تو سید صاحب نے شمس العلماء سے معذرت خواہی کی اور شمس العلماء کو مشور ہ دیا کہ آپ خو د ہی نماز جنازہ پڑھا دیں لیکن عشق دیکھئے عرض کیا حضو روالا آپ کی تشریف آور ی چاہے جب ہو میں انتظار کر و ں گا مگر جنازہ تو آپ ہی پڑھا ئیں گے،یہ تھا انکا خانوادہ اہل بیت سے شیفتگی او ر وارفتگی کا عالم۔ جب کہ خو د شمس العلماء اپنے وقت کے عبقری شخصیت ہو نے کے ساتھ ورع و پرہیز گار ی میں یکتائے زمانہ تھے پر آل رسول کے سا منے ہمیشہ سرنگوں رہتے،اور ان کے حضورخو د کو ذرہ خا ک سے بڑھکر تصورنہیں کرتے تھے، اپنی پوری ز ند گی اسی جادہ حق پر بسر کی لیکن مجال دم زدن کیا کہ ماتھے وپیشانی پر ناگواری کی بل و سلوٹیں ابھر آ ئیں۔
ابوبکر مسلیار کی ابتدائی تعلیم یعنی ناظرہ قرآن وغیرہ کی تعلیم والدین کی آغو ش اور سایہ عاطفت ہی سے حاصل ہوئی آپ کے خاص معلم خود آپ کے والد ماجد ر ہے بتایاجاتاہے کہ نصف تعلیم یعنی کتب فقیہ نحویہ صرفیہ زنجان فتح المعین الفیہ اور محلی وغیرہ تو والد صا حب سے پڑھی پھردرمیانی تعلیم پانے کے بارے دوروایتیں ہیں ایک تو یہ کہ ان کو مدرسہ یا اسکو ل میں داخلہ کروایاگیا اسکو ل ابوبکر کے گھر سے تقر یبا نو کلو میٹر دور تھاپھر بھی روز ا نہ اتنی دور پیدل چلکر بلاناغہ اسکول پہنچتے ذرا سو چئیے کتنی تکلیف برداشت کرکے جاتے ہو ں گے لیکن کبھی بھی بڑ ھنے میں جی نہیں چراتے اوراتنی مشقتوں کے باوجود وقت سے اسکول میں حاضر رہتے اپ کی یہ دل جمعی او ر تعلیم سے محبت دیکھکر ماسٹران آپ کو شاباشی دیتے،۔
آپ جب ساتویں کلاس میں پہنچے تو انگریز ی سے اچھالگاؤ ہوگیاتھایعنی اچھی طرح انگلش زبان پرقدرت ہوگئی تھی یہاں تک کہ انگریز ی پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کرتے ایک دن کی بات ہے کہ آپ کے والد ین آپ کے کمرہ میں کسی غر ض سے گئے تو کمرہ منظر دیکھکر متحیر ہوگئے دیکھاکہ بہت سی کتابیں کمر ے میں پڑی ہیں لیکن سب انگلش وغیرہ کی ہیں دینی ایک کتاب بھی نہیں۔ کویاکٹی مسلیار نے اسی وقت اللہ تعالی کی بارگا عالیہ میں عاجزانہ دعاء کی، اے اللہ میرے بیٹے کو اسلام کا محافظ بنا، دین کا مبلغ بنا،اس سے دین اسلام کام لے۔
چنانچہ جب اسکو ل سے ابوبکر لوٹے والدصاحب نے آواز دیکر اپنے پاس بلایا حاضرہوئے تو کہا بیٹے کل سے اسکو ل جانابند کردو یہ سنتے ہی رنجیدہ ہوئے پروالد صاحب کاحکم تھاانکی اطا عت کرنافرض اولین سمجھتے تھے سوچااباکہہ رہیں تو ضرور اسمیں کچھ مصلحت ہوگی پھربھی تسلی کے لئے عرض کی کیوں ابو؟والد نے کہادیکھو بیٹے اسوقت ہماری قوم اورہمارے ملک کو کسی وزیر یا کسی بڑے آفسیرکی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک ایسے عالم کی حاجت ہے جو دینی علوم کا شہنشاہ بنکر امت مسلمہ کی قیادت فرمائے اسکی صحیح طریقہ سے رہنما ئی کرے،لہذا کل سے تم مسجد جا ؤ گے اور دینی تعلیم میں ملکہ حاصل کروباپ کا حکم سرآنکھوں پر مانتے ہوئے۔
دوسری روایت کے مطابق والد سے تعلیم پا نے کے بعدابوبکر 1920ء کوعلم دین کیلئے مڈور مسجد کا رخ کیایہاں ”سی ایم کنج ماین کویا،،مسلیار کے درس میں ۰۳۹۱ء تک موجود تھے ۰۳۹۱کے بعد دارالعلوم واژگاڈ پہنچے اسمیں اپ کے استاذ حضرت شیخ ماہر علوم عبد القادر بن شیخ ولی مستجاب الدعوات یوسف فضفر ی مسلیار بنے یہیں کَنِّیتَّ احمد استاد کے شاگرد ہوئے ااوربہت سے علوم وفنوں میں مہارت پائیء علمم حد یث میں نابغہ ء زمانہ تلمیذاحمد رضا خان بریلوی ”احمد کویا شایاشالیتی،،سے سندحاصل کی منطق و منا ظر ہ میں عبدالقادر الفضفری سے در س لیا،پُدیاپلاعبدالرحمن مسلیار اورقطبی محمد مسلیارسے فن فقہ واصول میں سند حاصل کی اسی حذاقت ومہار ت کی وجہ سے اسلام ومسلمانوں کی ترقی کے بہت سی اہم کام کیا۔
یہ ایسا زما نہ تھاجب قریب قریب کیرالا کے گھرگھرمیں فاقہ کشی کی نوبت تھی غربت بہت زیادہ تھی لوگوں کوروزی روٹی بہت مشکل سے ملتی تھی ایکدن میں ایکبارہی کھانے کے لئے ملنادوبھر ہوتا تھا پھر بھی ایسی جاں کنی کی حالت میں ”ابوبکر،، پو ر ی مستعدی سے علم حاصل کرتے اور ذرہ برابر بھی کاہلی و سستی نہ برتتے، ہرکتابوں کا مطالعہ کرکے پڑھناآپ کی فطرت تھی اور ہرسبق میں اسا تذہ سے اپنی معلومات بھر مباحثہ کرناآپ کی عادت تھی، اور جب مطمئن ہوجاتے تب آگے بڑھتے،اساتذہ نے جب”ابوبکر،،کی ذہانت و فطا نت دیکھی تو اعلی تعلیم کیلئے اس زمانہ کے بہترین مدرسہ میں بھیجنے کی والد ین سے خواہش جتائی باپ نے کہا آپ اسی سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے استاذوں نے دریافت کیا کہ بیٹے تم کیا بننا چاہتے ہو کہ بچے نے پرجوش تمناسے عرض کی کہ میں دینی علوم میں مہارت تامہ کے حصول کا جذ بہ رکھتا ہوں میری دلی آرزو ہے کہ میں ایک بڑا عالم دین اورمبلغ اسلام بنکرجہاں میں شریعت مصطفو ی کو عام کروں والدصاحب نے جب اس کی نیک نیتی ا ور دینی ولولہ کودیکھا اورسناتو فرط مسرت سے مچل اٹھے اور دل میں ٹھان لیا کہ جیسے بھی ہو اس کی چاہ میں کسی شئ کوراہ کا روڑا نہیں بننے دوں گا اور سو جتن کرکے اسے اسکی منزل تک پہچانے کو کوشش کروں گا۔چنانچہ اس کے ارمان وحسرت کی تکمیل کے لئے اپنے دور میں شمالی ہندکاشہرت پذیرادارہ الباقیات الصالحات ویلور کا انتخاب ہواجب وہاں جانے کامکمل ارادہ ہوگیااور والدین نے بھرے دل سے اجازت بھی دیدی توروانہ ہونے سے پہلے معروف وممتازبزرگ عالم دین میدان فقہاہت کے درشہسوار حضرت قطبی محمد مسلیارکی بارگا ہ میں دعاء کے لئے حاضر ہو ئے دستہ بستہ عرض کی حضور الباقیات الصالحات جارہاہوں دعاء فرمادیں۔
قطبی محمد مسلیار نے فرمایا آپ باہر جاناچاہتے ہیں؟ خوشی سے مچلتے ہوئے ابوبکرنے آہستہ سے کہا، جی ہاں! حضرت نے فرمایا، اچھا، تو میں بھی دیکھوں کہ آپ نے باہر جانے کی کیسی تیا ر ی کی ہے چنا نچہ ان کی ذہنیت کوٹٹولنے کیلئے مشفقانہ اندازمیں چند سوالات کیے،پلک جھپکتے ہی جواب مل گیا، علمی امنگ دیکھکر حضرت بہت خوش ہو ئے شا با شی دی، سمجھ گئے کہ بچہ نہایت زیرک ودانا ہے ڈھیر ساری دعا ئیں دی علم وعمل میں برکت کی دعاء فرمائی اور بخوشی الباقیات الصالحا ت جا نے کی ا جازت مرحمت فرمائی ابوبکرشادان وفرحاں جھومتاہوا گھر لوٹا اور علم دین سے آراستہ وپیراستہ ہونے کے لیے اپنی دھن میں مگن البا قیا ت الصالحات ویلورکو روانہ ہو گیا۔
یہ 1937ء کی بات ہے جب ابوبکرصاحب الباقیات الصالحات پہونچے، استاذوں سے ملا قا ت کی، ٹیسٹ لیا گیا،اچھے نمبر سے صرف پاس ہی نہ ہوئے بلکہ طلبہ میں نمایاں اور ممتازرہے،خدا نے ایسے یگا نہ ذہن سے نواز تھاکہ استاذوں کی نگا ہو ں میں بھی اولین فرصت ہی میں اپنا مقام بنانے میں یکایک کامیاب ہو گئے،داخلہ ہوا،تعلیم شروع ہوگئی،شیخ”آدم حضرت،،اور”شیخ ضیا الدین،،شیخ عبدالرحیم،، وغیرہما کے درس میں شامل ہوئے استاذبھی خاص نظررحمت و رافت فرماتے،چونکہ مردم شناس اور رجائی optimist) )لوگوں نے پہلی نظر میں بھا نپ لیاکہ ہونہ ہو یہ مستقبل کا کوئی عظیم شخص ہے،خو ب جی بھر کر علم سے سیراب ہوئے اور علم وادب کے بحر ناپید ا کنار ہو گئے اور البا قیا ت الصا لحات سے اس عالی درجہ سے فراغت پائی کہ الباقیات الصالحات کی تاریخ میں ایسا طالب علم اس سے پہلے کبھی نہیں گذراتھاآج بھی انکا نام سنہر ے حرفوں میں لکھاجاتا ہے الباقیات الصالحات ہی سے میٹریکلشن امتحان دیا”اردوماہر،،کاامتحان پاس کیاتمل زبان مہارت حاصل کی سریانی اورفارسی بھی الباقیات الصالحات سے سیکھا اور1938-40 ء میں آ پ باقیات میں مدرس رہے اورمسلسل فقہ شافعی کے مفتی کی جگہ پر رہکر افتاء وغیرہ کام کرتے رہے۔
ای کے ابوبکرکی علمی ترقی کے بھید میں نمایاں مقام کتابوں کا احترام بھی ہے بتایا جاتا ھیکہ آپ کتابوں کا بڑااحترام فرمایاکرتے تھے کہ ہمیشہ کتابوں کو سنیے سے لگائے رکھتے یہاں تک کہ اگر عربی کا ایک ٹکڑا بھی زمین پر گر اپاتے توفورااسے اٹھا کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیتے وہیں متعلمین کوبھی حکم دیتے،خبردار! کوئی بچہ، اپنی کتاب کمر سے نہ چبکائے بلکہ سینہ سے لگاکر رکھے، اور اگر کسی کو اس کے برخلاف پاتے تو اس کی زجر وتوبیخ کرتے ان کے علمی غلغلہ کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اساتذہ بھی ان کی قوت داد ذہا نت کے تہہ د ل سے معترف ہوگئے پھرباقیات ہی میں بعدفراغت اساتذہ کی صف میں چن لیے گئے اور ر1938-40 ء تک مفتی شافعیہ کی جگہ پر افتاء وتدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور اپنے علم کی نو ر سے طلبہ کونورانی بناتے رہے،بعدہ 1937 ء میں قوۃ الإسلام تالی پرمبا Thalipparamba kasarkod,Dist))تشریف لے آئے اس کے بعد پارَکَّڈُوParakkadav,kannur, Dist))کے درس میں پہنچے یہاں بھی علمی سطوت سے طلبہ کو مرعوب کرتے رہے پھر استاذ پانغل احمد کٹی مسلیار کی وفات کے بعد اصلاح العلوم تانور،میں مد ر س ہوئے، بعدہ باڈَنّ َPadanna,Dist kannur)) بعدہ کَروَن تِرتی Karuvanthirathi,kozhikod,Dist) ) وبعدہ مٰادٰا یِ ضلع کنورMadayi,kannur,Dist) )سے جڑ گئے کہتے ہیں کہ ان ذکرکردہ جگہوں میں بہت سے علماء بھی درس میں شامل ہوتے تھے،پھر جا معہ نوریہ پٹی کاڈ میں 1963 ء سے 1977ء تک علم کے گوہر لٹاتے رہے اور متعلمین بڑھ چڑھکرلوٹتے رہے۔
جامعہ نوریہ کی خاص با ت یہ ہے کہ شمس العلماء،اور کنیت استاد جو شمس العلما ء ابوبکر کے خاص استاذ میں شمارہوتے ہیں،یعنی شاگرد واستا ذ بیک وقت دونوں جامعہ نوریہ میں مدرس تھے شمس العلما پر نسپل اور کنیت استاد صدر مدرس کی حیثت سے تھے بقول شخصے بحوالہ شیخنا زین الدین مسلیار پروچانسلر دار الہدی یو نیو رسٹی کیذر یعہ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کبھی کبھی کنیت استا د شمس العلماء کو اپنے پاس بلاتے اور پو چھتے کہ یہ بتاؤ پرنسپل بڑاہے یا صدر مدرس حضر ت شمس العلما ء بڑے مودب اندازمیں عرض کرتے! حضور!صدرمدرس!یہ سنکر کنیت استاذمسکر اتے اور کہتے ٹھیک ہے!پھرکسی وقت شمس العلماء کو بلاکر فرما تے ابوبکر ذرا ہمار ا قمیص کمر ے سے اٹھالاؤ حضرت شمس العلماء فورا تعمیل حکم بجالا تے اور حرف شکایت تک زبان پر نہ لاتے۔یہ تھا استاذکاپاس وادب،آج شمس العلماء کو ماننے والے بیشمارہیں،پر ہے- کوئی شمس العلماء جیسا جو علم کا بحر بیکر ان قابل فخر عہدہ کا حامل ہو نے کے باوجود اس خندہ پیشانی سے شاگردہونے کی رسم بجالائے،شاید جواب،نفی- میں ہی ملے گی۔ شمس العلماء جیسا نادر زمانہ ہمیشہ پید ا نہیں ہوتا اور انسان بلندی کی چوٹی پر آسانی سے نہیں پہنچتاستاروں سے آگے کمندڈالنا معمولی نہیں ہے۔
کتنے عالم ہیں کہ غنچوں پرگذرجاتے ہیں تب کہیں جاکے وہ رنگیں قباہوتی ہے
یقیناقدرت کی تخلیق انمول ہوتی ہے اسکا انتحاب لاجواب ہوتاہے وہ نوازنے پر آتاہے توپل میں ذروں کو کندن بنادیتاہے کہتے ہیں کہ رزق پرکسی کا زور نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن وحدیث اس پر شاہد ہے خمس لا یعلمہن الا اللہ (ان اللہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وما تدری نفس ماذاتکسب غدا وماتدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر(سورۃ لقمان آیۃ31 تا 34)
مفاتیح الغیب خمس لایعلمہا الا اللہ تعالی لایعلم احد مایکون فی غد الا اللہ تعالی ولایعلم احد مایکون فی الارحام الا اللہ تعالی ولایعلم متی تقوم الساعۃ الا اللہ تعالی ولاتدری نفس بای رض تمووت الا اللہ تعالی ولا یدری اخدمتی یجئ المطرالا اللہ تعالی (سورۃ الاحزاب) صحیح بخاری وغیر ہ۔
لہذااللہ تعا لی نے جہاں جہاں روزی میسر فرمایا اور دین متین کی خد مت لینی چاہی وہاں وہاں آپ تشریف لے گئے اب بظاہر حالا ت جیسے بھی ہو ئے ہوں اس سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ جامعہ نوریہ سے پوچکاڈPoochakkad,kannur,Dist) )تشریف لے گئے اور درسِ پلی (مسجد)میں مدر س ہوئے پھر 1978ء سے جامعہ دار السلا م عربک کالج کے پرنسپل ہو کرنندی میں جلوہ افگن ہوئے، اور اخری عمر تک یہیں جمے رہے،دارالسلام کوتعمیر ی،تعلمیی،ہر طر ف سے بلندی کے مقام سے ہم آہنگ کرایا آج بھی جامعہ دارالسلام کو کیرالا میں ایک اچھی حیثیت کا ادارہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں کے فارغین دارمی کے نام سے موسوم ہو کر کیرالا کی مختلف علاقوں میں دین اسلام کی سرگرمیوں میں مستعد عمل ہیں۔
شمس العلماء کے نامور تلامیذ:ان کے شاگردوں کا تو ایک جتھاہے کن کن کو گناؤں اور کن کو نہ گنوں اس لیے ان سب میں جو زیادہ مشہورہیں۔بحوالہ مظاہر الاضواء فی مناقب شمس العلماء ص 10-ا نکورقم کرتاہوں -لَم یَبقَ اَئحَدٌ مِنہُم فِی مَلِیبَارِ وََمَایُجَاوِرُ ہاَ مِنَ الدَّیَارِ إلاَّوَہُوَ مِن سِلسِلَۃِ التَّلاَمِیذِبلاَ شَکٍّ وَلاَ غُبَارٍ مِنہُم الشَّیخ ُالفَاضِلُ الرَّئیِسُ الحاَلِی لِلجَمعِیَّۃِِ المَذ کوُرَۃِ السید عبدُ الرحمنِ الأزہر ی،والشیخ الفاضل المرحوم حضرت کےِ کِے أبوبکر رءِیسُہَا القَدِیمُ،والشیخُ المُکرَّمُ أوکِے زَینُ الدِّینِ المَد رَ حِی،والشیخُ الصُّوفِی المَرحُومُ أبوبکرٍ المَعرُوفُ بِالمَدوُرِی،والشیخُ الفاضلُ السیدُعبدُالرَّحمٰن الُأضَّاضِی البُخَارِی،والشیخُ المَاہِرُ کُوتُومَلَاأَبُوبکرِ الکا ضَّا نبَادِی،والشیخُ المرحومُ عَلِی کُتِّیِ مُدَرِّسُ الجَامِعِ البَرِنغَتُورِی وَغَیرُہُم مِنَ العُلَمَا ءِ المُتقِنِینَ البَاقِینَ مِنہُم والمُنتَقِلِینَ إِلٰی جَوَارِرَبِّ العَالَمِینَ اوروہ ہیں صوفی ابوبکر مرحوم مڈوری، سید عبد الرحمن الاڈی بخاری، شیخ کے کے حضرت ابوبکرپرسیڈینٹ سابق جمعیۃ علماء کیرالا،سید عبدالرحمن ازہری پرسیڈ نٹ جمعیۃ العلماء،سید عمر علی شہاب تنگل سابق پرسیڈنٹ دار الہد یونیورسٹی،شیخ مکرم زین الدین اوکے مسلیارمدرحی،شیخ ماہرکوٹومالاابوبکرکالمباڑی (Kalambadi,Dist malappuram)، شیخ علی کٹی مرحوم مدرس جامع پرنگتوریPeringathoori) )،شیخ سیدبافقیہ تنگل پرسیڈنٹ مرکز الثقافۃ السنیۃ کارندورکالیکٹ۔
(قارئین کی معلومات میں شاید یہ بات ہوکہ جمعیۃ العلماء لعموم کیرالا ایک ہی ہے او راسکا مماثل نہیں ہے تو یہ فکربالکل صحیح ہے لیکن اس کے مقابل میں اور بھی جمعیتیں وجود میں آئی ہے جیساکہ صدقۃ اللہ مسلیار کے ایجاد کردہ سمستھانہ کی طرف اشارہ کیاہے۔ ہاں یہ بات مسلم ہے کہ تمام جمعیۃ اسی سے پھوٹی ہیں اور اس کے تقابل میں وضع شدہ جمعیت کے بانیین مؤسسین بھی سمستھاقدیم میں کسی نہ کسی اہم عہدہ یا رکن ومشیران وممبران میں شامل تھے پھر بعدمیں با ہمی کسی مسائل داخلی یاخارجی یا شرعی اختلاف کی وجہ سے الگ ہوگئے اوراپنی ایک علیحدہ جما عت بنائی انہی میں ایک اے پی ابو بکر مسلیا ر بانی مرکز الثقافۃ السنیۃواے پی سمستھاہیں، یہی وجہ ہے کہ علماء وعوام وخواص کیرالا اول سمستھا کوغیروں سے ممتاز کرنے کی طور پر “ای کے سمستھا”سے موسوم کرتے ہیں اس سے کوئی قاری اس وہم وگمان میں ہرگزہرگز نہ مبتلاہوکہ ممکن ہے فریقین میں عقیدہ وخیالات شر عیۃ میں متفرق ہوں – حاشا وکلا –
اور خدانخوا ستہ اس طرح کے افواہ اگر آپ کے گوش ہمایوں تک کسی بھی فریق کے ذریعہ پہنچی ہو یابہنچے تو بلا تا مل اسے فورا سے پیشتردل ودماغ سے جھٹک دیں اور اسے بالکل جگہ نہ دیں اور اسے آپسی رنجش وہم عصری چشمک پرمحمول کریں، کیونکہ مذکو ر ہ بانیوں میں سے ہر شخص شافعی مذہب میں پختہ ہیں،سبھی سنی صحیح العقید ہ ہیں،میلادوفاتحہ، توسل و سلام، کے صر ف قائل ہی نہیں بلکہ ا س زور و شور،اور تزک واحتشام کیساتھ مناتے ہیں کہ اتناشمالی (نارتھ) انڈیایعنی کیرالا کے علاوہ میں اپنے اپ کو سنی کہلانے و منوانے والے بھی نہیں کرتے ہیں، اور مزے کی بات یہ کہ وہ حضرات جو نارتھ (شمالی) انڈیاخارج کیرالا میں اسکے منکر ہیں وہ بھی باقاعدہ ٹوپی چشمہ جبہ قبہ میں لپٹے ہوئے مونچھیں پھرّائے شرکت کرتے ہیں اور صرف شریک ہی نہیں ہوتے بلکہ اچھی طرح پیٹ پوجا کیساتھ جیب پوجاکے طورپرخاصی موٹی رقم بھی وصول کرتے ہیں جبکہ بقول انکے کہ مذکو ر ہ رسوم شرک سے مشابہ یاشرک ہیں تومشرکا نہ رسوم کا حاصل شدہ آمدات بھی حرام و ناجائز ہونا چا ہیے مگرشرکت کے عوض نذرانہ تحفہ مانگناحرام وشرک نہیں گردانتے بلکہ منھ زوری دیکھئے اپناحق واجبی سمجھتے ہیں۔
ایک ایساہی اتفاق راقم کیساتھ بھی پیش آیاہو ا یوں کہ کا لیکٹ ضلع کے گوڈولی (kodvalli) موضع میں ا یس کے ایس ایس ایف کے تحت عید میلا د النبی کا جلسہ تھا جس میں یہ حقیرمدعو تھا جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک صاحب کالی شیروانی بہترین ٹوپی چشمہ لگائے جبہ پائجامہ میں ملبو س صف اول کی کرسی پربراجمان ہیں میں بھی پہنچا لوگوں نے اس کے قریب بٹھایاشایدیہ سوچ کر کہ دونوں اردو والے ہیں انہیں کیامعلوم کہ دونوں اردو والے ہیں مگرایک عقیدہ وا لے نہیں،بہر حال ایک دوسر ے سے انجان ہونے کی بناپر رسمی علیک سلیک ہوا قریب ہی میں بیٹھاکہ اچانک اناؤنسر نے نام کا اعلان کیاتو دونو ں حیرت سے ایکدوسرے کوتکنے لگے کیونکہ نام کے لاحقہ میں صوبہ اورضلع ایک تھاآنجناب آنکھیں چمکاتے ہوئے گردن قریب لائے اور سوال داغا اپ کس گاؤں کے ہیں میں نے بتایا-سن کر انکی خوشی انافاناکافور ہوگئی،میں نے پوچھا کیاہوا-جواب ملا-نہیں! کچھ نہیں!کہ اناؤنسر نے مائک پرآنے کی دعوت دی، اتفاقامیراموضوع عید میلاد النبی ﷺکے مناسبت سے ثبوت عید میلادالنبی ﷺہی تھاجب میں فارغ ہواتو انکودعو ت دی گئی انکی تقریر کا مو ضو ع تھاسیرت النبی ﷺ-ختم کرکے جب کرسی پربیٹھے تو میں سرگوشی کے انداز میں پوچھاکہ آپ یہاں عید میلاد النبی کے جلسہ میں شریک ہیں یہ بتائیے کہ آپ کاعید میلاد النبی منانے کے متعلق اب کیاخیال ہے تو جوا ب سنئے اور عش عش کیجیے کہا آپ ایک قاسمی سے سوال کر رہے ہیں، میں نے کہاپھر بھی آپ کافی سالوں سے کیرالا میں رہتے اور تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں اور یہاں سنی حضر ات متفقہ طور پردھوم دھام سے جشن ولا د ت نبی مناتے ہیں اور اسمیں شایدآپ کی شرکت بھی ہوتی ہی ہوگی یہاں علماء وعوام کا یہ والہانہ عقید ہ دیکھ کر فکر میں نرم گوشہ پید اہو اہو،اور پھرمیں نے جوکچھ ثبوت میلاد ا لنبی کے متعلق کہاہے وہ کیا کافی نہیں ہے؟جو اب ملا نہیں! میراموقف آج بھی وہی ہے جو ہمارے دارالعلوم دیوبندو ندوہ اور دیوبند ی،ندوی علماء کا ہے کہ اس طرح کا انعقا د غیرمسلموں کے تہوارسے میل کھاتے ہیں اور یہ شرک وبدعت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہاں میں اس بات کا قائل اپنی ذاتی طور سے ہو ں کہ اگر کوئی فرط محبت میں کھڑے ہو کر نبی پرصلاۃ وسلام پڑھے تو گنجائش ہے ورنہ علماء دیو بند وندوہ کے نزدیک قیام سلام کیساتھ یہ سبھی چیزیں بد عت وشرک کے پٹارے ہیں۔
یہ ہے قاسمی دیوبندی اور ندوی نیچر ی کے اوہام وخیالات -میں نے کہامیں لوگو ں کی زبانی اوروہابی دیوبندی و ندوی اکابر کی کتابوں اور اخباروں میں اسطرح کے بیانات پڑ ھا اور سنا کرتاتھا پر آج بزبان قاسمی اپنی کانوں سے سنکر پختہ یقین ہوگیا۔
تیراکھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں ہیں منکرعجیب کھانے غرانے والے(احمدرضاخان بریلوی)
بہرحال کیرالا میں موجو د سنی جماعیتیں جوتنظیم”سمستھانہ،، یا”سمستھاای کے” ہو اے پی نام کی تحریک سے وابستہ ہیں،نہ مبتدعی ہیں نہ مشرک نہ وہابی نہ تبلیغی نہ نیچری نہ قاد یا نی نہ دیوبندی۔
ہاں ہر ایک کا اپنااپنانظریہ ہے خودکو عوام میں مقبول بنانے اور عوام کابہی خواہ کہلانے کاجو شایدمیر ے خیال سے ا پس میں ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اورماننے اورجھکنے سے روکے ہے واللہ اعلم بالصواب)