علامہ شیخ محمد صابونی رحمتہ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال۔ عالم اسلام سو گوار
اسلام کے نمائندہ ، انقلاب آفرین، عہد ساز ،عبقری شخصیت ،عالم جلیل، فاضل نبیل ،محقق عصر ، محدث کبیر، صوفی با صفا، مفسر قرآن، حضرت علامہ شیخ محمد علی بن جمیل صابونی حلبی حنفی اشعری علیہ الرحمہ ایک طویل دینی، تصنیفی وتدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے مذہبی ومسلکی فریضہ کو دیانت داری کے ساتھ ادا کرتے ہوئے عمر بھر پوری ذمہ داری کے ساتھ احقاق حق و ابطال باطل فرماتے ہوئے ٦ شعبان المعظم نماز جمعہ سے قبل ١٤٤٢ ہجری بمطابق 19 مارچ ٢٠٢١ء کو اسطنبول کے قریب شمال مغربی ترکی کے شہر یلوفا میں تقریبا ٩١ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔
آپ کی ولادت ١ جنوری ١٩٣٠ ہجری بمطابق ١٣٤٩ء شام کے گنجان آبادی والے تاریخی شہر حلب میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت علامہ شیخ جمیل صابونی علیہ الرحمہ بھی ایک مشہور صوفی اور عالم دین ہونےکے ساتھ ساتھ باصلاحیت اور قابل مدرس تھے اس لیے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کیا۔ گھر سے ہی متصل ایک مدرسہ تھا جس میں حفظ قرآن مکمل کیا۔ اور مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے شام کے مشہور علماء و مشائخین جیسے علامہ شیخ محمد نجیب سراج علیہ الرحمہ، حضرت علامہ شیخ احمد شماع علیہ الرحمہ، حضرت علامہ شیخ محمد سعید ادلبی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ شیخ محمد راغب تواب علیہ الرحمہ، حضرت علامہ شیخ محمد نجیب خیاطہ علیہ الرحمہ وغیرہ کی شاگردی اختیار کی اور ان کے جملہ علوم و فنون سے استفادہ کیا۔
پھر ١٩٥٤ میں شام کی وزارت برائے اوقاف کے مشن سرکاری وظیفے پر جامعہ ازہر میں داخلہ لیا وہاں عالیہ، علیا (بیچلر اور ماسٹر) کی ڈگری حاصل کی پھر اپنے آبائی وطن حلب لوٹ آئے اور آٹھ سال ١٩٦٢ تک مدرس کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ پھر خليج عرب کا سفر کیا اور شام کے وزارت تعلیم وتربیت کی طرف سے شریعہ کالج اور علوم اسلامیہ پڑھانے کی خاطر استاد کی حیثیت سے وہاں مأمور ہوئے۔ تیس سال تک آپ نے مکہ مکرمہ یونیورسٹی اور اس سے منسلک جتنے ادارے تھے سب میں تدریس کے فرائض انجام دی۔ پھر جامعہ ام القریٰ میں سائنسی محقق کی حیثیت سے کام کرنے والی کمیٹی کے سرگرم رکن کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ پھر رابطہ العالم الاسلامیہ کے زیر نگرانی تشکیل کردہ کمیٹی ‘قرآن و سنت نبویہ کا سائنسی معجزہ’ کے نام سے موسوم ڈپارٹمنٹ کے مشیر کی حیثیت سے طویل زمانے تک خدمت انجام دی۔
تیس سالہ طویل مدت میں روزانہ آپ کی مسجد حرام مکہ مکرمہ میں درس قرآن کی علمی مجلس منعقد ہوتی جس سے بہت سے طلباء استفادہ کرتے اور موقع موقع سے لوگ سوالات پوچھتے اور جوابات عنایت کئے جاتے ساتھ ہی آپ کی ہفتہ واری مجلس درس قرآن شہر جدہ میں ہوا کرتی جو تقریباً آٹھ سال تک چلی اسی دوران آپ نے تہائی قرآن کی تفسیر بیان فرمائی اور طلباء نے آپ سے خوب استفادہ کیا۔ وقتا فوقتا آپ کے بے شمار علمی، فکری اور روحانی خطابات وتدریس ہوا کرتے۔
آپ قرآن کریم اور علوم قرآن میں بڑا علم، درک اور شغف رکھتے تھے اس لیے اس موضوع پر مختلف کتابیں تحریر فرمائیں۔ آپ کی تصنیف لطیف کا ایک زبردست شاہکار ‘صفوۃ التفاسیر’ اور ‘روائع البیان’ ہے جو مقبول عام کی سند حاصل کر چکی ہے جس کی مثال شاذ ونادر ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ قرآن اور علوم قرآن کے حوالے سے آپ نے اس فن میں 30 سے زائد کتابیں تحریر فرمائی۔ اور اہل السنۃ والجماعۃ متصلب فی الدین متقدمین علماء کی روایت کے حامی اور انہیں کے نہج پر گامزن اور ان کے ہم فکر ومزاج تھے اسی وجہ سے حکومت کے متعین سعودی علماء وحکام نے بارہا آپ کے ساتھ بدتمیزیاں کی اور بہت سی تکالیف ومخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیا جیسا ماضی میں حضرت علامہ شیخ سید علوی مالکی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ شیخ یوسف نبہانی علیہ الرحمہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ آپ کی کتابیں مسلک حقہ اہلسنت والجماعت کی تائید کرتی اور بد مذہب وہابیوں کے عقائد کے خلاف ہوا کرتی لہذا آپ اور آپ کی کتابوں کی اشاعت اور طباعت پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ آپ نے امت مسلمہ کے لئے بیش بہا قیمتی سرمایہ تصنیف وتالیف کی شکل میں چھوڑا۔
علامہ شیخ صابونی کی تصانیف لطیف کی چند فہرست۔
- صفوة التفاسير، 2. المواريث في الشريعة الإسلامية، 3. من كنوز السّنّة، 4. روائع البيانفي تفسير آيات الأحكام، 5. قبس من نور القرآن الكريم، 6. السنة النبوية قسم من الوحي الإلهي المنزّل، 7. موسوعة الفقه الشرعي الميسر (سلسلة التفقه في الدين)، 8. الزواج الإسلامي المبكر سعادة وحصانة، 9. التفسير الواضح الميسر، 10. الهدي النبوي الصحيح في صلاة التراويح، 10. إيجاز البيان في سور القرآن، 11.موقف الشريعة الغرّاء من نكاح المتعة، 12. حركة الأرض ودورانها حقيقة علمية أثبتها القرآن، 13. التبيان في علوم القرآن، 14. عقيدة أهل السنة في ميزان الشرع، 15. النبوة والأنبياء، 16. رسالة الصلاة، 17. المهدي وأشراط الساعة، 18. المقتطف من عيون الشعر، 19. كشف الافتراءات في رسالة التنبيهات حول صفوة التفاسير، 20. درة التفاسير (على هامش المصحف)، 21. جريمة الربا أخطر الجرائم الدينية والاجتماعية، 22. التبصير بما في رسائل بكر أبو زيدمن التزوير، 23. شرح رياض الصالحين، 24. شبهات وأباطيل حول تعدد زوجات الرسول، 25. رسالة في حكم التصوير، 26. معاني القرآن (للنحاس)، 27. المقتطف من عيون التفاسير (للمنصوري)، 28. مختصر تفسير ابن كثير، 29. مختصر تفسير الطبري، 30. تنوير الأذهان من تفسير روح البيان (للبروسوي)، 31. المنتقى المختار من كتاب الأذكار (للنووي)، 32. فتح الرحمن بكشف ما يلتبس في القرآن (للأنصاري).
آپ کا وصال امت کے لئے بڑا سانحہ اور یہ وہ خلا ہے جو کبھی پر نہ کیا جاسکے گا صوفی ،سنّی، حنفی، علمائے متاخرین میں آپ جیسا مفکر، دوراندیش، ہمہ جہت شخصیت شاید ہی کوئی ملے۔
اللہ تعالی اپنے حبیب کے صدقے طفیل امت مسلمہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔۔ ہم سب کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔۔۔ اور انہیں جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔۔۔ اور ان کے جملہ علوم و فنون سے تمام تشنگان علوم کو سیراب فرمائے۔۔۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔