“سُنی سُنائی باتوں پر کان دَھرنا اہلِ علم کا طریقہ نہیں…وہ تو بزمِ تحقیق و مطالعہ سجاتے ہیں…”
جھوٹ، مغالطہ، پروپیگنڈہ اہلِ علم کا شیوہ نہیں…اہلِ علم تو بِنا تحقیق کوئی بات نہیں کہتے…سُنی سُنائی باتوں پر کان نہیں دَھرتے…جھوٹ کو سچ بنا کر نہیں پیش کرتے…لیکن! بُرا ہو عصبیت کا، حسد کےجراثیم جب پنپتے ہیں تو وَحشَت میں ہر نقشہ اُلٹا نظر آنے لگتا ہے… یہی کچھ امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی (وصال ١٣٤٠ھ/١٩٢١ء) سے متعلق کیا گیا…جب دیکھا گیا کہ اعلیٰ حضرت کے علم و فن، تحقیق و تدقیق کا شہرہ ہو رہا ہے…پاکیزہ فکریں! علم کی بنیاد پر خدماتِ اعلیٰ حضرت کی سَمت مائل ہو رہی ہیں…تو پروپیگنڈا مہم چلائی گئی…جھوٹ بولا، کہا، لکھا، چھاپا گیا…اِس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رقم طراز ہیں:
’’مطالعہ و مشاھدہ نیک و بد اور خیر وشر کی پہچان کا بہترین ذریعہ ہے ، پروپیگنڈے سے کچھ وقت کے لیے خیر کو شر اور نیک کو بد بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں؛ مطالعہ کے بعد جب جہل و لا علمی کے پردے اُٹھتے ہیں تو مطلع صاف نظر آنے لگتا ہے۔‘‘۱؎
پھر ہوا بھی یہی کہ…جب خوب جھوٹ بولا گیا، لکھا گیا، شائع کیا گیا، تو اہلِ تحقیق سچ کی تلاش میں چَل پڑے…مطالعۂ رضویات کے ابواب کھل گئے…تہ در تہ مغالطے کی فضا چاک ہونے لگی… مطلع صاف نظر آنے لگا…سچ کی صبح طلوع ہوئی… مینارِ قصرِ رضاؔ کی بلندی صاف دکھائی دینے لگی؎
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مِری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
باطل تحریکات نے بڑا زور لگایا کہ علمی دُنیا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے کارناموں سے غافل رَہ جائے…لیکن روشنی ظاہر ہو کر ہی رہتی ہے، اس کے نصیب میں چھپنا نہیں… مکرو فریب کے پردے چاک ہو کر رہتے ہیں اور حق واضح ہو جاتا ہے بہ قول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد:
’’۱۹۵۷ء سے راقم مسلسل لکھ رہا ہے لیکن امام احمد رضا کی سوانح اور علمی و سیاسی خدمات کی طرف ۱۹۷۰ء میں متوجہ ہوا، جب دیکھا کہ…اربابِ علم و دانش اس طرف سے برابر پہلو تہی کر رہے ہیں، اور…غلط فہمیوں کی برابر تشہیر کی جا رہی ہے، تو شرم و ندامت کے اس بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے جس کے تلے ہمارے محققین و مؤرخین دَب رہے تھے، اس طرف متوجہ ہوناپڑا۔ اور یہ فرض کفایہ ادا کرنا پڑا…‘‘ ۲؎
بہ ایں وجہ آپ نے امام احمد رضا پر سب سے پہلا مقالہ ’’فاضل بریلوی اور ترک موالات‘‘ لکھا جس نے مقبولیت کی بلندی پر اپنا علَم نصب کر دیا…یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور اہلِ تحقیق دنگ رہ گئے…اور اُجالا پھیل گیا… جھوٹ کی اندھیریاں چھٹ گئیں…سچ ہے کہ: ’’مطالعہ ہی غیر محبوب کو محبوب بنا دیتا ہے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کر دیتا ہے …‘‘۳؎ تو جو سرمایۂ ملت کا علَم بردار تھا …اسلام کی سچی تعلیمات کا داعی تھا… اسی کی ذات کو نشانہ بنایا گیا…اُس کی خدمات کو قصداً چھپانے کی کوشش کی گئی…اُس کی تصانیف کے خلاف رُکاوٹیں کھڑی کی گئیں…کہ علمی دُنیا میں حسن بے نقاب نہ ہو جائے… مسعود ملت نے سچ کہا:
’’حقیقت یہ ہے کہ امام احمد رضا خاں بریلوی نے پوری قوت کے ساتھ سوادِ اعظم اہلسنّت کے اس عالمی مسلک کی حفاظت اور مدافعت فرمائی اور اس کو دُشمنوں کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دیا…‘‘ ۴؎
اعلیٰ حضرت نے اہلسنّت کو باطل کی تیز و تند آندھیوں سے بچایا…قادیانیت کی بیخ کنی کی…وہابیت کے نئے و باطل عقائد سے چمن اسلام کی حفاظت کی…ناموسِ رسالت ﷺ پر پہرے دیے…یہ فکر دی؎
انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا
پھر ایک وقت آیا…جب جامعات کی فضائیں ذکر رضاؔ سے گونجنے لگیں…جب مدارس و دانش کدے نغماتِ رضاؔ سے گونج گونج اُٹھے…ہر سمت تحقیقاتِ رضویہ کے اُجالے پھیل گئے…؎
گونج گونج اُٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں
کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے
آج ہر بزم میں چرچا رضاؔ کا ہے…مطبوعات کا ہجوم ہے…افکارِ پاکیزہ کی چمک سے بزمِ علم منور ہے…تحقیق کے نئے نئے ابواب کھل رہے ہیں…اشاعتِ دین کے کئی تحقیقی مینارے فکرِ رضاؔ کی روشنی میں نہائے ہوئے ہیں…ہر روز نئی کرن، نیا اُجالا، نئی روشنی…پوری بزم منور ہو گئی…؎
احمد رضاؔ کی شمع فروزاں ہے آج بھی
خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی
بہر کیف! تحقیقی فکر کا تقاضا ہے کہ:
[۱] سُنی سُنائی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں…
[۲] پروپیگنڈوں پر کان دَھرنا اہلِ علم کا شیوہ نہیں…جب کوئی خبر آئے تو پہلے تحقیق کی جائے…پھر کوئی رائے سچ کی روشنی میں قائم کی جائے…
[۳] جھوٹ کی عمر مختصر ہوتی ہے…ممکن ہے کہ سچے کے بارے میں جھوٹ کے سہارے دلی عناد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہو…ممکن ہے کہ حسد کی بنیاد پر کام کی راہ میں رُکاوٹیں قائم کی جا رہی ہوں…آج یہی کام وہ طبقے بھی کر رہے ہیں…جنھیں کام نہیں بھاتا…جنھیں کام پسند نہیں…کام کے مقابل پروپیگنڈے کا سہارا لیتے ہیں…لیکن! پاکیزہ مزاج منصفانہ نگاہ رکھتے ہیں…وہ سُنی سُنائی پر کان نہیں دَھرتے…تحقیق سے کام لیتے ہیں…سچ ہی قبول کرتے ہیں…جھوٹ کو مسترد کر دیتے ہیں…آج اسی کی ضرورت ہے…آج اعلیٰ حضرت کی خدمات کی قندیل فروزاں کر کے دل و دماغ کو منور کرنے کی ضرورت ہے…
ہم اہلِ علم سے گزارش کریں گے کہ وہ اعلیٰ حضرت کی خدمات کا مطالعہ کریں…انھیں پڑھیں…ان کی تصانیف اسلاف کے مسلک کی ترجمان ہیں…تحقیق و تدقیق کا مرجع ہیں…انھوں نے مسلکِ سلفِ صالحین کی نمائندگی و ترجمانی کی…ان شاء اللہ! مطالعہ سے سچ کی راہ ظاہر ہو گی…فکر و نگاہ کا قبلہ درست ہوگا…ایمان تازہ ہوگا… عقیدہ و عقیدت میں نکھار آئے گا…رہِ حق واضح دکھائی دے گی…اللہ تعالیٰ قبولِ حق اور سچائی کی توفیق بخشے…سُنی سُنائی پر کان دَھرنے سے بچائے… شعورِ صدق و وَفا دے…آمین
حوالہ جات:
۱…محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر،گناہ بے گناہی ،المجمع الاسلامی مبارک پور۱۹۹۳ء،ص۴
۲…محمد مسعود احمد،پروفیسر ڈاکٹر، آئینۂ رضویات ،ج۴،مرتب عبدالستار طاہرمسعودی،ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ۲۰۰۴ء،ص۱۲
۳…محمد مسعود احمد،پروفیسر ڈاکٹر، امام احمد رضا اور عالم اسلام، ادارۂ مسعودیہ کراچی ۲۰۰۰ء،ص۲۷
۴…محمد مسعود احمد،پروفیسر ڈاکٹر، تقدیم البریلویت کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ،رضا اکیڈمی ممبئی ۲۰۰۶ء،ص۲۱