حق و باطل کی معرکہ آرائیوں میں غزوۂ بدر کو بڑی اہمیت حاصل ہے، در حقیقت یہ جنگ حق و باطل کے مابین ایک فیصلہ کن جنگ تھی جیسا کہ رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی مقبول و مبرور دعاؤں میں عرض کیا ہے
” اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ (مسلم شریف)
(یااللہ! اگر یہ مسلمان ہلاک ہوگئے تو پھر روئے زمین میں تیری عبادت کبھی نہیں کی جائیگی)
بارگاہ الہی میں آپ کا یہ رقت انگیز عریضہ مقبول و مستجاب ہوا.
رب کریم نےآپکی ایسی مدد فرمائی کہ *۳۱۳ کی تعداد نے ایک ہزارکفار بد اطوار کے لشکر جرار کومات دیدی اور اس کے ۷۰ بڑے بڑے سورماؤں کو تہ تیغ کر کے ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلا دی
فالحمد للہ علی ذلک
یہ جنگ ۱۷ رمضان ۲ ھجری کو وقوع پذیر ہوئی
اسکو “غزوۂ بدر الکبری “اور”یوم الفرقان” بھی کہا جاتا ہے .
اسلامی لشکر کے قائد مکرم ، رسول معظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تھے، جبکہ لشکر کفار کا بد ترین لیڈر ابو جہل لعین تھا؛ لشکر اسلام کی تعداد 313 تھی جبکہ لشکر کفارکی تعداد1000تھی
بدر میں قتل ہونے والے کفار 70 اور گرفتار ہونے والے بھی 70 تھے؛ بدر میں شہید ہونے والے خوش نصیب مسلمانوں کی تعداد 14 ہے.
اس میں افضل ترین ذات کا نام حضرت مہجع بن صالح ہے، جو سید الشہدا کے لقب سے ملقب ہوئے
جیسا کہ سرکار عالی وقار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
یومئذ سيد الشهداء مهجع ( تفسیر قطبی)
مقتول کافروں میں بد ذات و بد نہاد ابو جہل بن ہشام بھی ہے جو ذلت کے ساتھ مارا گیا ،اور اس مغرور کو دو چھوٹے بچوں نے مار گرایا
جس کے بارے میں سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
“ إن لكل أمة فرعون وفرعون هذه الأمة أبو جهل بن هشام”
یعنی ہرامت میں ایک فرعون ہوتاہے اور اس امت کا فرعون ابو جہل بن ہشام ہے.
فضیلت اصحاب بدر:
اصحاب بدر کے فضائل کثیر ہیں ، یہاں صرف دو فضیلتیں بیان کی جاتی ہیں ۔ “جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ -صلى اللهُ عليه وسلم- فَقَالَ: «مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ؟ قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِينَ، – أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا – قَالَ: وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ” (بخاري شريف)
یعنی مکین سدرہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا۔
یا رسول اللہ ! آپ اصحاب بدر کو جملہ مسلمانوں میں کیا سمجھتے ہیں ؟
آپنے فرمایا میں انکو سارے مسلمانوں سے افضل سمجھتا ہوں
اس پر سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا
جو فرشتے بدر میں شریک تھے ان کا درجہ بھی فرشتوں میں ایسا ہی ہے؛
یعنی یہ فرشتے جملہ فرشتوں میں افضل ہیں
سبحان اللہ کیا فضیلت ہے غزوۂ بدر کی کہ اس میں شرکت کرنے والے امتیازی شان کےحامل بن گئے ،
اس سے صرف انسانوں کو فضیلت نہیں ملی ، بلکہ اس میں شریک ہونے والے فرشتوں کوبھی مقام ار فع حاصل ہوگیا.
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اصحاب بدر سے بہت خوش تھے ، ان سے بہت محبت فرماتے تھے ، ایک مرتبہ آپنے انکے بارے میں ارشاد فرمایا
لعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ
(اللہ تعالیٰ نے بدر والوں پر خصوصی نظر فرمائی اور فرمایا: تم جو اعمال چاہو کرو میں نے تم کو بخش دیا) (بخاري شريف)
ساری امت میں افضل اصحاب بدر ہیں ، ان کی شان ارفع کا یہ عالم ہیکہ انکو بخش دیا گیا ہے ،
انکی مغفرت کر دی گئی ہے ،
ان سے یہ بھی کہدیا گیا کہ اب وہ جو چاہیں کریں ،
بشارت عظمی سے مشرف یہ جماعت اس کو سن کر مغرور و آزاد اور بے لگام نہیں ہوگئی ،ان حضرات کی ساری زندگیاں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں؛ ہمیں ان کی زندگی کا کوئی بھی حصہ جرم و خطا میں ملوث نظر نہیں آتا؛ ان بزرگوں نے اس بشارت کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کیا جو قابل مذمت اور خلاف شرع ہو، ان حضرات نے احکام خدا وندی کی تعمیل میں نہ کبھی کاہلی کی اور نہ ان سے دوری و بیزاری، بلکہ اوامر شرع کا احترام اور نواہئ شرع سے احتراز ہی ان کی پاکیزہ زندگی کا پاکیزہ محور رہا اور انہوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے جد و جہد اور محنت شاقہ میں پوری زندگی صرف کی۔
اس سے صاف جھلکتاہے کہ یہ بشارت صرف جنت کی نہیں تھی بلکہ آئندہ زندگی شرع کے مطابق صاف و شفاف گزریگی ، اسکی بھی یہ بشارت تھی فالحمد للہ علی ذالک۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
وما علینا الاالبلاغ
۔۔۔۔۔۔*سید آل رسول حبیبی ہاشمی *۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔*سجادہ نشین*۔۔۔۔۔۔۔۔
*خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ، اڈیشا، انڈیا*
۱۶ رمضان ۱۴۴۲مطابق 29 اپریل2021
۔۔۔۔۔۔۔ *نوٹ*۔۔۔۔۔۔۔۔
کل 17 رمضان المبارک ہے جو یوم بدر ہے ،احباب اہل سنت خوب ذکر شہدائے بدر کریں اور ثوابوں کے نذرانے پیش کریں ۱۲