ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنی الگ الگ خوبیوں کی وجہ سے ہمیشہ سے سرخیوں میں رہا ہے، یہاں کی آب و ہوا، نشیب و فراز، بہتے آبشار، گلستاں کی بہار، سمندر کی موجیں، بل کھاتی ندیاں، چڑیوں کی چہچہاہٹ، صبح کا سویرا، رات کا اندھیرا، غرض کہ اسی طرح کے بے شمار خوبصورت مناظر ہندوستان کو دیگر ممالک سے ممتاز کرتے ہیں، اس کی خوبیوں میں سے سب سے عظیم خوبی یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے سب سے پہلے نبی کو ہندوستان کی سرزمین پر بھیجا، یوں کہیے کہ سب سے پہلے دین اسلام اسی سرزمین پر آیا، سب سے پہلے اذان و صلاۃ، تسبیح و تہلیل، توبہ و استغفار، دعا و مناجات، نداء و صدا اسی زمین کا مقدر ہے، علامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی اپنی کتاب “شمامة الأنبر” میں تحریر فرماتے ہیں: حضرت آدم علیہ السلام کی برکت سے ہندستان میں جواہرات اور کانوں کا وجود ہے، کسی نے ہندوستان کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا: اس کے سمندر موتی ہیں، اُس کے پہاڑ یاقوت ہیں، اُس کے درخت عود اور پتے عطر ہیں۔ (صفحہ 66)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ: ہندستان کی زمین اس لیے عمدہ اور ہری بھری ہے، اور عود اور قرنفل وغیرہ خوشبوئیں اس لیے وہاں پیدا ہوتی ہیں، کہ حضرت آدم علیہ السلام جب اس زمین پر آئے تو اُن کے جسم پر جنتی درخت کے پتے تھے، وہ پتے ہوا سے اڑ کر جس درخت پر پہنچے وہ درخت ہمیشہ کے لیے خوشبو دار ہو گیا، (تفسیر نعیمی، جلد 01)
الغرض ہندوستان اپنی بے شمار خوبیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے، ایک وقت میں ہندوستان کی مالیت کا عالم یہ تھا کہ اس کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، لیکن پھر اچانک اس خوبصورت باغ کو کسی کی بری نظر لگ گئی، اور اس ہندوستان پر فرنگیوں (انگریزوں) کا قبضہ ہو گیا۔
جب انگریز پوری طرح سے ہندستان پر قابض ہو گئے، تو انہوں نے یہاں قتل و غارت، لوٹ مار شروع کر دی، اور یہاں کے باشندوں کو اپنا غلام بنا لیا، اور کچھ ایسے احکام جاری کیے جو شریعت کے مخالف تھے.
اُن میں سے پہلا فرمان یہ تھا کہ: ہندوستان میں اب تک جتنے مدرسے اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں، جہاں اہل سنت و الجماعت کے علماء درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اُن تمام درس گاہوں کو بند کر دیا جائے اور اُن کی جگہ اسکولز قائم کیے جائیں، جو انگریزی حکومت کے ماتحت ہوں گے، اسکولوں میں بلا تفریق مذھب صرف ایک تعلیم ہوگی جو کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو پڑھنا ہوگا، تعلیم بھی ایسی شروع ہوئی کہ اُس میں عیسائیت کا زہر گھولا جاتا تھا،
دوسرا حکم یہ نافذ کیا کہ: کوئی بھی کسان اپنا اناج براہ راست نہیں بیچ سکتا بلکہ ہمارے ہتھ بیچے گا، پھر ہم اُس کو جس طرح چاہیں گے بیچیں گے۔ اس سے اُن کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ بھکمری کا شکار ہوں گے اور ان کے دروازے پر جائیں گے، اور معاشی بدحالی نے انسان بسا اوقات دوسرا دین قبول کر لیتا ہے۔
تیسرا حکم یہ نافذ کیا کہ کوئی بھی مسلمان ختنہ نہیں کرائے گا۔
چوتھا حکم یہ نافذ کیا کہ: عورتیں بغیر پردے کے باہر نکلیں گی کسی کو بھی نقاب پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ بندوق کی گولیوں کے سرے پر چربی لگی ہوئی تھی، جسے بندوق چلاتے وقت دانتوں سے توڑنا پڑتا تھا، مسلمانوں کو خنزیر کی چربی والی گولی دی جاتی تھی اور غیرمسلموں کو گائے کی چربی والی دی جاتی تھی۔ اس طرح کے بے شمار احکام جاری کیے جس میں اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہیں تھیں، جب پانی سر سے اوپر ہو گیا، شریعت کی رو سے جہاد کرنا فرض ہوا تو علماء کرام کی ایک بڑی جماعت آگے آئی، یہ بات مسلم الثبوت اور ناقابل تردید ہے کہ ہندوستان کی آزادی علماء کرام ہی کے دم قدم سے ہے، آج ہم آزادی کی جس فضا میں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں یہ علماء کرام کی قربانیوں کا نتیجہ ہے،
1857ء میں علماء کرام نے اپنی جان و مال اور اولاد کی پرواہ کیے بغیر فرضیت جہاد کا فتویٰ دیا، یہ فتویٰ خاص طور پر مجاہد جنگ آزادی حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ نے صادر فرمایا، اس فتوے کے جاری ہونے کے بعد ہندوستان میں موجود ہر فرد چاہیں وہ ہندو ہو یا مسلم ہو سب کے سینوں میں آزادی کی آگ بھڑک اٹھی، ہر طرف انگریزوں کے خلاف بغاوت ہونے لگی۔
اس بغاوت کو کچلنے میں انگریزوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مجاہد جنگ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ ”الثورۃ الہندیہ” میں لکھتے ہیں: اس ابتلائے عظیم میں پردہ نشین خواتین پیدل نکل کھڑی ہوئیں، اُن میں بوڑھی اور عمر رسیدہ بھی تھیں جو تھک کر عاجز ہو گئیں، بہت سی خوف سے جان دے بیٹھیں، بہت سی خوف سے جان دے بیٹھیں، اور پچاسیوں عفت و پاکدامنی کی بنا پر ڈوب کر مر گئیں، اکثر پکڑ کر قیدی بنائی گئیں، طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار ہو گئیں، کچھ کو بعض رذیلوں میں لونڈیاں بنا لیا، بعض چند ٹکوں کے عوض بیچ دی گئیں، بہت سی بھوک اور پیاس کی تاب نہ لا کر مر گئیں، بہت سی ایسی غائب ہوئیں کہ نہ تو لوٹ کر آئیں اور نہ اُن کا کوئی پتہ چلا۔ (باغی ہندستان، صفحہ ۵۱، ۵۲)
اس کے بعد انگریزوں نے علماء کرام پر ظلم و ستم کرنا شروع کیا، ایک انگریز فوجی ”ہنری کوٹن” بیان کرتا ہے: دہلی دروزه سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں ہی جانب شاید کہ کوئی ایسا خوش قسمت درخت ہوگا جس پر 1857 کا رد عمل کچلنے کے لیے ہم نے ایک یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو، ایک اندازے کے مطابق تقریباً بائیس ہزار (۲۲۰۰۰) علماء کرام کو پھانسی دی گئی، ایک غیر مسلم مؤرخ لکھتا ہے کہ: ایک اندازے کے مطابق 1857ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دیں گئیں۔ جو بھی معزز مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اُس کو ہاتھی پر بیٹھایا گیا اور درخت کے نیچے لے گئے، پھندا اُس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا گیا، لاش پھندے میں جھول جاتی تھی، آنکھیں اُبل پڑیں، زبانیں منہ کے باہر نکل آتیں۔ (علماء اہل سنت کی بصیرت و قیادت، صفحہ ۸۰)
تین سال کی قلیل مدت میں یعنی 1864ء سے 1867ء تک چودہ ہزار علماء کرام کو پھانسی دی گئی، دہلی میں چاندنی چوک کے ارد گرد دور دور تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر علماء کی گردن نہ لٹکی ہو۔ علماء کے جسموں کو تانبوں سے داغا گیا، اُن کو سوروں کی کھال میں بند کر کے دہکتے ہوئے تنوروں میں ڈال دیا گیا، لاہور کی جامع مسجد میں ایک دن میں اسی اسّی علماء کرام کو پھانسی دی جاتی تھی، لاہور کے دریائے راوی میں علماء کرام کو بوریوں میں بند کر کے دریا میں بہا دیا جاتا تھا اور اوپر سے گولیاں چلائی جاتی تھیں، ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے جن کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.
علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللّٰہ علیہ:
آپ نے جب انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، تو آپ پر مقدمہ کر دیا گیا، عدالت میں آپنے بھرے مجمع میں حق گوئی اور بےباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا، جو فتویٰ آپ کے سامنے پیش کیا گیا، وہ فتویٰ بالکل صحیح ہے، میرا لکھا ہوا ہے، اور اس وقت بھی میری وہی رائے ہے، چنانچہ آپ کو کالا پانی کی سزا سنائی گئی،
آپ کو کالا پانی بھیج دیا گیا، آپ نے قید میں رہتے ہوئے ”الثورۃ الہندیہ” (باغی ہندستان) کتاب تحریر فرمائی، جو انقلاب آزادی کا ایک مستند ترین ماخذ ہے، آپ نے وہیں سے دو کتابیں تحریر فرمائیں اور علامہ عنایت احمد کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ کالا پانی سے سزا کاٹ کر واپس آئے تھے) کے ہاتھ اپنے فرزند کے پاس بھجوائی، جو کہ کپڑے پر کوئلہ اور پینسل سے لکھی گئی تھی، یہاں وہ آپ کی کتاب چھپ کر شائع ہوئی، اور آپ کے بیٹے آپکی رہائی کا پروانہ لے کر کالا پانی پہنچنے، تو ایک جنازہ رکھا ہوا دیکھا، جنازہ کے آس پاس ازدحام کثیر تھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جنگ آزادی کا یہ عظیم مجاہد ۱۲ صفر المظفر ۱۲۷۸ھ مطابق ۱۸۶۱ء کو آپ انتقال فرما گئے، اور اب آپ کو سپرد خاک کرنے جا رہے ہیں، آپ کے بیٹے بھی دفن میں شریک ہوئے اور مایوس ہو کر خالی ہاتھ انڈیا واپس آئے،
علامہ کفایت علی کافی علیہ الرحمہ:
آپ بھی جنگ آزادی میں بحیثیت قائد پیش پیش تھے، حالات کے پیش نظر علماء کرام نے جنگ کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کے آپ ایک اہم رکن تھے، ساتھ ہی اس جنگ کو ناکام بنانے کے لیے قومی غدار بھی موجود تھے جن کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا، کیوں کہ انگریزوں نے غداروں کو ایک لالچ دے رکھا تھا کہ جو بھی کسی مجاہد کو گرفتار کروائے گا اور پھانسی دلوائے گا تو اس کی جائیداد کا بڑا حصہ اُس کو دیا جائے گا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی مجاہد ایسا نہیں بچا جس کو ان غداروں نے پھانسی نہ دلوائی ہو، انہی غداروں کی وجہ سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا، آپ کا مقدمہ بہت تیزی سے سمیت دیا گیا، ۴ مئی ۱۸۸۵ء میں آپکا مقدمہ پیش ہوا اور بہت جلد فقط دو دن میں اس کا فیصلہ سنا دیا گیا، مؤرخین لکھتے ہیں کہ: آپ کے جسم نازنین پر گرم گرم استری پھیری گئی، زخموں پر نمک چھڑکا گیا، اسلام سے برگشتہ کرنے کا دشمنوں نے ہر حربہ استعمال کیا، لیکن ناکام رہے، یہاں تک کہ مراد آباد کے ایک چوک پر آپ کو برسر عام پھانسی دے دی گئی (خطبات اسلام)
جس وقت مولانا کافی علیہ الرحمہ کو پھانسی کے لیے لے جایا جا رہا تھا اُس وقت آپ یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
بس رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے ”کافی” و لیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
اِن کے علاوہ علامہ عنایت احمد کاکوروی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بھی دشمنوں نے بے شمار تکلیفیں دیں، کالا پانی کی سزا ہوئی، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کو بھی دشمنوں نے بہت ستایا، آپ جنگ آزادی میں بے شمار اقدامات کیے، کسی غرض سے آپ پُوائیں (شاہجہاں پور) تشریف لائے، یہاں کے راجہ بلدیو سنگھ نے غداری کی، راجہ بلدیو سنگھ نے آپ کا سر مبارک تن سے جدا کر کے آپ کو شہید کر دیا جس کے عوض راجہ کو انگریزوں نے پچاس ہزار روپے کا انعام دیا۔ (ماخوذ: جنگ آزادی میں علماء کا مجاہدانہ کردار)
داستان بہت طویل ہے سب کا احاطہ ممکن نہیں، بس یہ کہ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کرتی ہیں
شہیدان وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل
وہاں پر شکر کرتے تھے، جہاں پر صبر کرنا تھا