جنگ آزادی بھارت کی تاریخ کا ایک اہم باب
جنگ آزادی بھارت کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 15/اگست 1947ء کو بھارت آزاد ہوا تب سے لے کر آج تک پورے بھارت میں آزادی کا جشن بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مگر آپ نے کبھی غور کیا کہ آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والوں میں مسلمانوں کی کتنی تعداد تھی؟ شاید نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ آزادی کی جنگ میں ہمارے کن کن علمائے کرام نے اپنا قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ جشن آزادی میں اوروں کا نام تو بڑے ہی عزت واحترام سے لیا جاتا ہے اور ان کے ایثار کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر افسوس صد افسوس! ہمارے ان علمائے کرام کا ذکر تک نہیں آتا جنہوں نے نہ صرف آزادی کی جنگ میں اپنا قائدانہ کردار ادا کیا بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔
دنیا میں مسلمانوں نے اپنی قوم، ملک، وطن کے لیے بے شمار قربانیاں دی۔ اسی طرح جب برصغیر سے انگریزوں کو سات سمندر پار واپس بھیجنے کا معاملہ آیا تو مسلمانوں نے اپنا تن، من، دھن سب کچھ داؤ پر لگا دیا، ٹیپو سلطان نے جو قربانیاں پیش کی 18/ویں صدی کی تاریخ میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔ ٹیپو سلطان انگریزوں کے لیے آخری قلعہ ثابت ہوئے۔
انگریزوں کا تسلط جب پورے بھارت پر ہوگیا اس کے بعد انگریزوں نے جو بربریت اور ظلم وستم کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی وہ یقیناً بھلائی نہیں جاسکتی۔ بھارت کی آزادی کے لیے ملک کی ہر قوم جد وجہد میں لگی ہوئی تھی مگر سوال یہ تھا کہ پہل کون کرے؟ جب ہندوستانی عوام اسی کشمکش کا شکار تھی اس وقت دہلی کی جامع مسجد سے ایک آواز انگریزوں کے خلاف جہاد کی بلند ہوئی۔ یہ آواز حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی تھی۔ آپ ہی نے وسیع پیمانے پر سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا، علماء سے فرضیت جہاد پر فتویٰ لیا، جس پر دہلی کے 33 علمائے حق نے دستخط ثبت کئے، جس کے نتیجے میں 1857ء کی جنگ آزادی رونما ہوئی جسے انگریزوں نے غدر کہا، جس میں قائدین و مجاہدین کی بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی، لاکھوں عوام نے اپنا خون نذر کر کے حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں علمائے کرام شہید کیے گئے، لاکھوں مجاہدین سولی پر لٹکائے گئے، مسلمان مجاہدین کی فہرست کافی طویل ہوتی گئی مگر پھر کیا ہوا جب ہمارا ملک بھارت آزاد ہوا، ہماری تاریخ کو مسخ کر دیا گیا، اسے بگاڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا، تاریخ کو محدود کر دیا گیا، وہ مجاہدین جنہوں نے آزادی کا علم بلند کیا تھا ان کے نام تک مٹا دیے گئے، ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ملک کی دیگر قومیں اس میں شامل نہ تھیں، نہیں ہرگز نہیں، انہوں نے بھی اپنے ملک کے لیے ہمارے دوش بدوش حصہ لیا۔ آج بھارت کی دھرتی اگر سر سبز وشاداب ہے تو اس ہریالی کے پیچھے مسلمانوں کا بہتا لہو بھی کار فرما ہے۔ حرارت ایمانی سے گرم خون ہی نے اس مٹی کو زرخیز بنا رکھا ہے۔
تحریک آزادی کے ادوار اور مسلمانوں کا کردار:
جب ہم جنگ آزادی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت کی تحریک آزادی کی تاریخ تین ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلے دور کو “اعتدال پسندوں کا دور” کہا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا 1885ء سے ہوتی ہے اور انتہاء 1905ء پر ہوتی ہے۔ دوسرے دور کو “انتہاء پسندوں کے دور” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 1905ء سے ہوتا ہے اور اختتام 1919ء پر ہوتا ہے اور تیسرا گاندھیائی دور سے”شروع ہو کر 1947ء میں آزادی ہند پر ختم ہو جاتا ہے۔حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، علامہ فضل حق خیر آبادی اور دیگر علمائے کرام نے تحریک آزادی 1857ء سے پہلے ہی شروع کر رکھی تھی لیکن باضابطہ طور سے اس کا اعلان 1854ء ہی میں دہلی کی جامع مسجد سے “فتویٰ جہاد” جاری کرنے کے بعد کیا۔ ان کی کوششوں کو دیکھ کر صرف مسلم ہی نہیں بلکہ بھارت کے غیر مسلم بھی نہایت تیزی کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہونے لگے۔ انقلاب 1857ء کے بانی در حقیقت اس وقت کے مسلمان علمائے کرام ہی تھے۔ لہٰذا: یہ حقیقی تاریخ کا اظہار ہے کہ تحریک آزادی کے بانی اور محرک مسلمان تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حقیقت پسند غیر مسلم مؤرخین مثلاً ڈاکٹر تارا چند، پی سی جوشی وغیرہ اور اسلام مخالف انگریز تاریخ نگاروں کے بیان کردہ حقائق سے بھی اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ “ہنٹر نامی” انگریز مؤرخ کی اس کتاب سے واضح ہو جاتا ہے جو مسلمانوں کی مجموعی مجاہدانہ سرگرمیوں پر لکھی گئی ہے اور جس میں آزادی کی کوششوں میں ہر محاذ پر مسلمانوں اور ان کے مذہبی قائدین کو پیش پیش دکھایا گیا ہے۔ ہنٹر نے لکھا:”جو مسلمان زیادہ متعصب ہیں وہ تو کھلم کھلا بغاوت میں حصہ لے رہے ہیں اور باقی تمام بھی علانیہ جہاد کی فرضیت پر بحث میں مصروف ہیں۔ “بھارت کی خوبصورتی کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ مختلف مذہب و مسلک اور گوناگوں تہذیب و ثقافت کا حسین گہوارہ ہے۔ بلاشبہ یہ ایک دلکش گلشن ہے جو اپنے ہر پھول کی امتیازی خوشبو سے مشکبار ہے۔ یقیناً صفحات ماضیہ کے وسیع و عریض پلاٹ پر ہمارے ملک عزیز کی لمبی تاریخ اور طویل داستان پھیلی ہے جو اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ ہمارا یہ وطن عزیز جو آج چمن زار ہے اسے گلزار بنانے کی خاطر اس میں بے شمار پھولوں کی لاجواب قربانیاں مضمر ہیں۔ آج ہم جو اپنے مادر وطن کے گوشے گوشے اور خطے خطے میں فرحت و مسرت اور عزت و وقار کے ساتھ آزادی کی سانس لے رہے ہیں یہ در حقیقت ان مجاہدین آزادی کی سعی پیہم اور جہد مسلسل کی پاکیزہ جاں نثاریوں کا ثمرہ ہے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ تحریک آزادی میں قائدانہ اور نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اپنی رگ و پے میں دوڑنے والے خون کے آخری قطرے کو بھی بہا دیا، تاکہ غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے اپنے وطن میں آزادی اور حریت کی لہر دوڑائی جاسکے۔ مجاہدین آزادی کے جسم سے نکلے ہوئے خون سے لت پت صفحات ماضیہ اور جاں نثاران آزادی کی خون چکاں داستان سے رنگین کتاب ایثار کی ورق گردانی کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وقت کا یہ دل دوز تاریخی سانحہ ہے کہ مؤرخین نے مجاہدین آزادی کی صف میں مشہور و معروف لیڈران اور نام نہاد قائدین کا ذکر تو کیا لیکن علمائے کرام کی جاں فشانیوں سے چشم پوشی اور حقیقت سے روگردانی کی ہے اور پھر یہ تاریخی خیانت اور نا انصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاں نثاران آزادی کی فہرست سے انھیں بڑی بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ اس طرح محو کیا کہ اسکولوں اور کالجوں کی تاریخی کتابوں میں ان کی ناقابل فراموش قربانیوں کی جھلک تک نظر نہیں آتی۔ جس کا ثمرہ یہ ظاہر ہوا کہ غیر تو غیر جب اپنوں سے بھی آزادی کے باب میں علمائے کرام کے زریں کارناموں کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے تو وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں اور اپنی نا آشنائی کا پتہ دیتے ہیں۔حتیٰ کہ جب فقط ان کے اسماء کا بھی ذکر کیا جاتا ہے تو بھی بچشم تعجب و حیرت اپنی نا واقفیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم تاریخی صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے ان ایام کی طرف پلٹیں جب تن کے گورے اور من کے کالے انگریز اور انگریز زادے ہندوستان میں تجارت کرتے کرتے اسی سر زمین پر حکومت کرنے کا خواب ذہن و فکر میں بساکر اسے عملی جامہ پہنانے اور اپنے فارمولے “لڑاؤ اور حکومت کرو” کو مکمل کرنے کے لیے ہمہ تن کوشاں تھے۔انھوں نے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے متعدد کارہائے نازیبا کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مذہبی اختلافات و علامات کو نیست و نابود کر کے کفر و شرک اور الحاد کی تاریک فضا قائم کرنی چاہی۔ حتیٰ کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت برادران وطن کے درمیان قائم شده اتفاق و اتحاد کی زنجیر کو اختلاف و انتشار کی قینچی سے کترنا شروع کیا۔ مذکورہ بالا سازش کو پروان چڑھانے کے لیے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے المناک ماحول میں علمائے کرام اپنے سامنے اسلامی تعلیمات کی پامالی کے مناظر تماشائی بن کر دیکھنا کیسے گوارا کر سکتے تھے اور وطن عزیز سے سچی محبت والفت رکھنے والے برادران وطن، ملک کے روح فرسا حالات دیکھ کر چپ رہنا کیسے پسند کر سکتے تھے۔ لہٰذا!محبان وطن کے اظہار عقیدت کے ساتھ ساتھ علمائے کرام نے اپنی نبوی وراثت اور وطن سے محبت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے ملک کو شاہراہ آزادی پر گامزن کرنے کے لئے بے مثال جاں فشانی پیش کی جسے پڑھنے کے بعد آج بھی کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اور آنکھیں آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ لیکن افسوس!ان غیر منصف مؤرخین پر جنھوں نے حقیقت سے آنکھیں چراکر تاریخی بے وفائی کی مثال پیش کرتے ہوئے علمائے کرام کی بے مثال جاں فشانی کو تاریخ کے سنہرے صفحات میں منقش نہ ہونے دیا۔ حقیقت سے آشنا ہونے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ 1857ء کا مکمل تاریخی سانحہ علمائے کرام کی جاں شماری اور جاں فشانی سے رنگین ہے۔ ان کی بے مثال قیادت اور لاجواب خدمات کی بنیاد پر انگریزوں نے انھیں پر سب سے زیادہ لرزہ خیز مظالم کی بارش کی اور دل دوز ایذارسانی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ یہ کوئی زبانی نہیں بلکہ حقائق و شواہد کی ترجمانی ہے۔ان پر ڈھائے گئے ظلم وستم کی منظر کشی مشہور و معروف کتاب بنام “ممتاز علمائے انقلاب 1857ء” میں ایک انگریزی فوجی افسر، ہنری کوٹن کے بیان کے ذریعے اس طور پر کی گئی:”دہلی دروازہ سے پشاور تک، گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں ہی جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درخت ہوگا جس پر انقلاب 1857ء کے رد عمل اور اسے کچلنے کے لیے ہم نے ایک یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو۔ایک اندازہ کے مطابق تقریباً کئی ہزار علمائے کرام کو پھانسی دی گئی۔ “مزید ان کے ظلم وستم کی داستان مذکورہ کتاب میں اس طرح مرقوم ہے: مسلم مجاہدین کے نام سے لکھی گئی اپنی کتاب میں ایک غیر مسلم مورخ لکھتا ہے: “ایک اندازہ کے مطابق 1857ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئی تھی۔ جو بھی معزز مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اس کو ہاتھی پر بٹھایا گیا اور درخت کے نیچے لے گئے اس کی گردن میں پھندا ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھایا گیا۔ لاشیں پھندے میں جھول گئیں، آنکھیں ابل پڑیں اور زبان منہ سے باہر نکل آئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ملک کی آزادی کا بنیادی تصور اور انگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت علمائے کرام نے کی۔ جنگ آزادی کی داستان بہت طویل اور انتہائی درد ناک ہے جس کا احاطہ راقم الحروف سے ممکن نہیں۔