ہر سال جب ماہ ربیع الاول شریف آتا ہے تو عالم اسلام میں خوشیوں کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اہل ایمان طرح طرح سے جشن ولادت نبوی کا اہتمام کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ خاص طور سے بارہ ربیع الاول کو) جو سرکار دوعالم ﷺ کی تاریخ آمد وولادت ہے۔) بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ اس قسم کی تقریبات جن میں بالعموم عوام الناس شریک ہوں اور ان کا اہتمام و انتظام بھی وہی کریں، کچھ نہ کچھ بے اعتدالیوں کا شکار ہوجاتی ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ان بے اعتدالیوں کے قلع قمع کے لیے جدوجہد کریں۔ اصل بہار، ہدایت کی بہار ہے، اس کے لیے قربانیاں دیں۔ خوشی و مسرت کا نغمہ سننا سنانا تو آسان ہے مگر گمراہی اور غفلت میں پڑے انسانوں کوراہِ ہدایت سے ہمکنار کرنا کمال ہے اور آج اس کی سخت ضرورت بھی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ظاہری خوشیوں، جلسہ، جلوس، جھنڈے، جھنڈیوں، فرش و فروش کی زیب و زینت کے اہتمام کے ساتھ چند اور کام بھی کریں تو بہت بہتر ہے بلکہ زیب و زینت سے کچھ پیسے بچاکر ان اہم کاموں میں استعمال کریں تو زیادہ ہی کارِ ثواب ہے۔وہ چند اہم کام یہ ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:
۱۔ ہر سال ربیع الاول شریف کے آتے ہی ہم اپنی نفلی عبادات میں اضافہ کردیں کہ سرکار اقدس ﷺ کی ولادت طیبہ بندوں کو مولیٰ کی بارگاہ میں سر جھکانے ہی کے لیے ہوئی تھی۔ہاں جن پر فرض نمازیں باقی یعنی قضا ہیں نفل سے پہلے ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں کہ جن کے ذمے فرض ہو ان کے نوافل قبول نہیں ہوتے۔
۲۔ ماہ ربیع الاول شریف میں درود شریف کی کثرت کریں اور دوسرے اسلامی بھائیوں کوبھی اس کی تلقین کریں، ہوسکے تو درود شریف کے فضائل و برکات پر مشتمل کتابچے اور پمفلٹ تقسیم کریں، خرید کر اور ہوسکے تو طبع کرا کے۔ درود شریف ہو سکے تو پورے مہینے یا بارہ دنوں میں روزانہ ایک ہزار بار ضرور پڑھ لیا کریں اور اس ذریعے سے سرکار اقدس ﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کریں۔ ساتھ ہی درود شریف کے فضائل وبرکات سے بھی مالامال ہوں۔ واضح ہو کہ سرکار ﷺ نے فرمایا کہ درو د شریف سے تمام مشکل کام حل ہوتے ہیں اور حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔اور رزق میں بھی برکت ہوتی ہے۔
۳۔ سرکار اقدس و اطہر ﷺ کی سیرت طیبہ پڑھنے اور سننے کا خاص اہتمام کریں اور ہوسکے تو اخلاق حسنہ اور سیرت طیبہ پر مشتمل مختصر رسائل طبع کرائیں یا خرید کر مسلمانوں میں تقسیم کریں اور چونکہ آج کل عام طور پر نوجوان طبقہ اردو سے ہی نا واقف ہے، اس لیے اردو کے ساتھ ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی لٹریچر کا خاص اہتمام کریں تاکہ نئی نسل اپنے آقا ﷺکی سیرت طیبہ سے لاعلم نہ رہ جائے۔ ہوسکے تو مساجد یا محافل میں سیرت پاک کی کتابیں پڑھ کر سنا دی جائیں تاکہ آسانی سے سیرت النبی کی برکتیں عام ہو سکیں۔ائمہ مساجد اور علماے کرام یہ کام بآسانی انجام دے سکتے ہیں۔
۴۔ نماز سرکار مکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اس کو قائم رکھنے کے لیے بھی تحریک چلائیں اور نماز پر خصوصی بیان ہو اور اس کے احکام و مسائل بھی بیان کیے جائیں اور نماز سے متعلق لٹریچر بھی تقسیم کیے جائیں۔
۵۔ اس مبارک و پرمسرت موقعے پر غریب طلبہ اور نادار عوام کی امداد و اعانت پر بھی توجہ دیں۔ کھانے، کپڑے اور ضروریات زندگی کے سامان کی تقسیم کا اہتمام کریں۔ائمہ مساجد اور مؤذنین کا بھی خاص خیال رکھیں۔ ان کی بھی خدمت کو اپنی سعادت سمجھیں۔
۶۔ آج بھی بہت سی بستیاں بڑی مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔ تلاش کرکے وہاں کے بسنے والوں کو خوش حال کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ مٹھائیوں کی تقسیم سے زیادہ غریبوں میں کھانے کی اشیاء تقسیم کریں۔ ہو سکے تو جیلوں میں جو لوگ قید و بند کی مصیبتیں جھیل رہے ہیں ان کے لیے بھی ضرورت کی اشیاء فراہم کریں اور ان میں بھی مٹھائیاں تقسیم کریں اور اس میں مسلم وغیر مسلم کی بھی کوئی تفریق نہ کریں۔ ان کی رہائی اور نیک بننے کی بھی دعائیں کریں۔
۷۔ یتیم اور بیوہ عورتوں سے سرکار اقدس ﷺ کو بہت پیار تھا۔ لہٰذا محتاج، یتیموں اور ضرورت مند بیواوں کی کفالت اور ان کی مددکا اس مبارک موقعے پر خاص خیال رکھیں۔
۸۔ غیر مسلموں میں اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت و اخلاق پر مشتمل ان کی زبانوں میں لٹریچر تقسیم کریں اور ان کے درمیان اسلام کے تعارف میں بیانات کا بھی اہتمام کریں اور اسلام کی حقانیت کو اجاگر کریں اور اسلام پر لگائے جانے والے الزامات اور غلط فہمیوں کے ازالے پر بھی توجہ دیں۔
۹۔ جلوس عید میلاد النبی ﷺ میں غیر شرعی امور سے بالکل اجتناب کریں، سنجیدگی اور خوش اسلوبی کا ایسا مظاہرہ کریں کہ دوسرے برادران وطن بھی ہمارے پُر امن اور سنجیدہ جلو س سے متاثر ہوں۔ ہرگز ہرگز جلوس میں ایسی کو حرکت نہ کریں جس سے راہ گیروں کو کوئی تکلیف ہو۔ اور نہ ایسے نعرے لگائیں جو کسی کی دل آزاری کا باعث بنیں۔ جو سنجیدہ نعرے لگائے جائیں ان کی آواز بھی بہت کرخت نہ ہو اور نہ بہت زیادہ چیخ پکار کی کیفیت پیدا کی جائے۔
۱۰۔ جلوس کے گشت کے دوران نماز کا وقت ہوجائے تو جلوس کو روک کر نماز ادا کریں پھر آگے بڑھیں بلکہ کوشش کریں کہ جلوس کسی نماز کے بعد شروع ہو اور آنے والی نماز سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے، مثلاً فجر کے بعد شروع ہو اور ظہر سے پہلے ہی اختتام کو پہنچ جائے۔
۱۱۔ محافل میلاد اور جلسہ ہاے عید میلاد النبی ﷺ میں سیرت رسول کے ساتھ تعلیمات و ارشادات ِ رسول(ﷺ) پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ آمد رسول ﷺ کا اصل مقصود انہیں تعلیمات و ہدایات پر عمل کرناکرانا ہے اسی کے لیے سرکار اقدس ﷺ اس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے اور علماء مقررین نیز میلاد خواں حضرات کو کوشش کرنی چاہیے کہ حتی الامکان موضوع اور واہی (غیرمعتبر) روایات سے پرہیز کریں اور اُنہیں روایات کو بیان کریں جو شرعاً قابل گرفت نہ ہوں۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ سنت و سیرت کا بیان ہو۔ اور سرکار اقدس ﷺ کے وہ فضائل و مناقب بیان ہوں جو مستند روایات سے ثابت ہوں۔
۱۲۔ جشن میلاد النبی ﷺ منانا فرض، واجب نہیں بلکہ ایک اچھا اور پسندیدہ عمل ہے۔ اگر کوئی شخص میلاد کی شب عشاء پڑھ کر سو جاتا ہے، نہ چراغاں کرتا ہے، نہ جلوس میں شرکت کرتا ہے مگر میلاد منانے کو جائز مانتا ہے، ایساشخص ہرگز ہرگز گناہ گار نہ ہوگا مگر برائی ان لوگوں کے لیے ہے جو میلاد النبی ﷺ منانے کو شرک و بدعت اور گناہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ ذکر رسول ﷺ جہاں کہیں ہواور جس بھی جائز طریقے سے ہو عند اللہ محمو دو پسندیدہ ہے کیوں کہ ذکر رسول کی عظمت و بلندی کا بیان اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ”اے حبیب! ہم نے آپ کے لیے آپ کے ذکر کو بلند ی عطا کی۔“ (سورہ انشراح)
رب عزوجل نے اپنے پیارے محبوب کے ذکر کو بلندی عطا کی اور اسے محبوب رکھا مگر کسی خاص طریقے کا ہمیں پابند نہیں بنایا اس لیے محبوب ِخدا ﷺ کا ذکر جیسے بھی ہو اسلام میں جائز، پسندیدہ اور کار ثواب ہے۔ لہٰذا اسے منع کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ ایمان والے جو نبی دوعالم ﷺ کے ذکر میں لذت محسوس کرتے ہیں اور اس کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں اور محبت رسول کا تقاضا بھی ہے کہ ان کا ذکر بار بار کیا جائے اور خوب کیا جائے۔ کیوں کہ حضور ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ ‘‘مَن اَحبَّ شیئاً اَکثرَ من ذکرہ’’(جامع صغیر سیوطی، حدیث ۱۴۳۵) یعنی جو جس سے زیادہ محبت کرتا ہے اس کا ذکر بھی زیادہ کرتا ہے۔
لہٰذا ذکر فضائل رسول ﷺ اور بیانِ سیرت سرکار کی جس قدر ہو سکے دھوم مچائیں، اور احکام شرع کی پابندی کا مزاج بنائیں، امر بالمعروف (نیکیوں کی دعوت) اور نہی عن المنکر (برائیوں کی ممانعت) پر بطور خاص توجہ دیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کی آمد وولادت کا اصل مقصد یہی ہے اور اسلام کی جان بھی یہی، لہٰذا جشن منانے کے ساتھ اس پر بھی پوری پوری توجہ مبذول کریں بلکہ یہ جشن سے بھی زیادہ اہم ہے۔
آج کل جلوس عید میلاد النبی میں بہت سی خرافات کے ساتھ ڈی جے کا استعمال بھی ہونے لگا ہے، اس پر سختی سے پابندی عائد کی جائے کہ اس سے مریضوں کو تکلیف ہوتی ہے اور مصروف ترین لوگوں کی مصروفیات میں فرق اور خلل پڑتا ہے اور اس کا دینی دنیاوی کوئی بھی فائدہ نہیں، نقصان بالکل واضح ہے اور اسلام نقصان دینے والی چیزوں سے منع کرتا ہے اور یہ باجا تو صرف باجا نہیں بلکہ شور شرابے کا طوفان برپا کرنے والا نہایت کریہہ اورناپسند باجا ہوتا ہے، جس سے کبھی کبھی دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے، اس کے ناجائز ہونے میں کیا شبہہ ہے؟
لہٰذا ایسے لغو اور فضول اور تکلیف دہ باجے سے بچنا اور پرہیز کرنا ضروری ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: “إِنَّ اللّٰهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، وأمرَني بِمَحوِ الْمَعَازِفِ، وَالْمَزَامِيرِ، وَالْأَوْثَانِ، وَالصُّلُبِ وَلَايَحِلُّ بَيْعُهُنَّ، وَلَا شِرَاؤُهُنَّ، وَلَا تَعْلِيمُهُنَّ، وَلَا التِّجَارَةُ بِهِنَّ، وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ.(مسند احمد ،حدیث: 22307) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور مجھے مزامیر اور گانے باجے کے آلات کو مٹانے کے لیے مبعوث کیا یوں ہی بت و صلیبوں کو مٹانے کے لیے، ان کی بیع یعنی خرید و فروخت حلال نہیں اور نہ ان کی تعلیم (سکھانا) اور تجارت جائز ہے اور ان کی قیمت یا اجرت بھی جائز نہیں۔