اخلاق و محبت اور صلح و آشتی کے ذریعہ تاریک دلوں میں اللہ کی اطاعت و بندگی کی شمع روشن کرنے کا نام چشتیت ہے- ہندوستان کے بعض خطے یوں تو پہلی صدی ہجری ہی میں نورِ اسلام سے منور ہو چکے تھے۔ مگراپنے پورے جغرافیائی حدود کے ساتھ اخلاقِ محمدی کی عملی صورت سے متعارف ہونے کا موقعہ داتا گنج بخش حضرت علی ہجویری کے بعد سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کی ذات گرامی سے میسر آیا۔
خواجہ معین الدین چشتی ایک علمی اور روحانی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا دادیہال اور نانیہال دونوں گھرانہ تقوی و طہارت اور دین داری میں پیشوائی کا درجہ رکھتا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ دونوں جہت سے جگر گوشہ رسول سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ یعنی آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ ماں سیدہ ام الورع ماہ نور کی طرف سے حسنی اور والد سید غیاث الدین کی طرف سے حسینی ، یہ آپ کی خاندانی نسبت تھی۔
ولادت و وفات: خواجہ صاحب کی تاریخ ولادت میں دو قول ملتے ہین ۔ اول: آپ کی ولادت 530ھ میں ہوئی، دوم: آپ کی ولادت 535ھ میں ہوئی۔ جب کہ تاریخ وفات : 633ھ اور 632ھ ملتی ہے۔ سیر العارفین کے حوالے سے پتا چلتا ہے کہ خواجہ صاحب کی عمر 97 سال تھی۔ اس اعتبار سے خواجہ صاحب کی وفات اگر 663ھ مانیں تو ولادت 536ھ ہونی چاہیے اور اگر وفات 632ھ مانی جائے تو تاریخ ولادت 535ھ بنتی ہے۔ تاریخ ولادت و وفات کا یہ اختلاف کوئی عجوبہ نہیں، بلکہ ایسا ہر اس شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے جن کی تاریخ ابتدا ہی سے مرتب نہیں ہوتی۔ اور خواجہ صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔سلطان جی خواجہ نظام الدین اولیا کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد، خواجہ امیر خورد کرمانی کی کتاب سیر الاولیا اور شیخ جمالی کی کتاب سیر العارفین جن میں نہایت مختصر طور پر دو چند باتیں ہی آئی ہیں، یہ ساری کتابیں بعد کی ہیں، مگر ان میں بھی تفصیلی حالات مذکور نہیں ہیں۔
جائے ولادت: ہرات کے قریب سیستان نامی جگہ میں خواجہ صاحب کی ولادت ہوئی۔ سیستان جسے عربی میں سجستان کہا جاتا ہے اور اہل عرب اہالیان سجستان کو سجزی کہتے ہیں، اسی لیے خواجہ صاحب کو خواجہ معین الدین چشتی سجزی کہا جاتا ہے۔ اور ہمارے ہندوستان میں غلط العوام کے طور پر سجزی کی جگہ بعض لوگ سنجری کا لاحقہ لگاتے ہیں۔
تعلیم: خواجہ صاحب کے والد بزرگوار سید غیاث الدین جہاں بڑے تاجروں اور صاحب ثروت لوگوں میں شامل تھے وہیں آپ کا شمار اپنے زمانے کے ممتاز مشائخ میں بھی ہوتا تھا۔چناں چہ ابتدائی تعلیم کے ساتھ خود ہی خواجہ صاحب کو قرآن بھی حفظ کرایا۔ مزید تعلیم کے لیے کوئی بڑا فیصلہ ہوتا کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چناں چہ جب خواجہ صاحب کی عمر 15 سال کی ہوئی تو والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ اس کے بعد زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ والدہ کی شفقتوں سے بھی آپ محروم ہو گئے۔ نتیجۃً آپ کی تعلیم موقوف ہو گئی۔
تقسیم وراثت کے بعد آپ کے حصے میں ایک باغ اور بور(Bore well) آیا۔ چناں چہ آپ اسی کی دیکھ بھال میں خود کو مصروف رکھنے لگے۔ مگرباغ بانی کا یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک دراز نہ رہ سکا۔ ایک دن ابراہیم قندوزی نامی مجذوب آپ کے باغ میں آ پہنچے۔ ان کی آمد پر آپ نے ان کی از حد تعظیم کی، خوب مہمان نوازی کی اور باغ کے پھل سے ان کی ضیافت فرمائی، جس کی وجہ سے قندوزی صاحب بہت خوش ہوئے ۔ قندوزی صاحب نے جانے سے پہلے کوئی چیز چبا کر آپ کو دی جسے آپ نے کھا لیا۔ تذکرہ نگاران لکھتے ہین کہ اسے کھاتے ہی آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی اور عشق و عرفان کی جو وراثت والدین کی طرف سے ملی تھی وہ دو آتشہ ہو گئی۔ چناں چہ جلد ہی آپ نے سب کچھ بیچ کر خود کو اللہ کے سپرد کر دیا۔
معرفت کی راہ از اول تا آخر عشق کی راہ ہے، مگر علم بالکتاب و السنۃ ساتھ نہ ہو تو انسان مجذوب ہو جاتا ہے، جس سے ایک بڑی آبادی فیض پانے سے محروم رہ جاتی ہے۔ ہاں! عشق کے ساتھ علم بھی ہم رکاب ہو جائے تو نور علی نور ۔ اسی وجہ سے خواجہ صاحب نے باغ اور پن چکی فروخت کرنے کے بعد تحصیل علم کو ترجیح دی اور اس زمانے کے مراکز علم سمر قند و بخارا کے مشاہیر علما و مشائخ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے مروجہ علوم نقلیہ و عقلیہ میں مہارت حاصل کی۔
تاریخ ولادت کے اختلاف کے اعتبار سے جب آپ کی عمر 27 سال یا 32 سال کی ہوئی تو مرشد کامل کی تلاش کرتے ہوئے پہلی بار 562ھ میں بغداد پہنچے۔ بغداد کے شہرہ آفاق بزرگ عالم دین محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی کا وصال ابھی جلد ہی ہوا تھا ( شیخ کا سال وصال 561ھ ہے۔ شیخ کی درس گاہ بغداد میں تھی، جب کہ اسی زمانے میں نیساپور کےہَروَن / ہارون نامی قصبے کے ایک بزرگ خواجہ عثمان ہَروَنی / ہارونی کی روحانیت کا شہرہ بھی خوب تھا۔ ان دنوں خواجہ ہارونی بغداد میں مقیم تھے ۔ خواجہ صاحب ان کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شرف بیعت سے مشرف ہوئے اور خود کو مرشد برحق کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔اور بیس سال کی شبانہ روز خدمت و تربیت کے بعد خرقہ خلافت سے سرفراز کیے گئے۔
خواجہ صاحب نے پہلی بار اپنے مرشد گرامی قدر خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ سفر حج کیا جہاں آپ کو بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ہندوستان کی ولایت سونپی گئی۔ دوسری بار مرشد کے بغیر ہی حج پر روانہ ہوئے اور بارگاہ رسالت سے سفر ہند کا حکم پایا۔ حج و زیارت سے فراغت کے بعد آپ بغداد پہنچے، جہاں کئی نامور مشائخ نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔ بغداد سے روانگی کے وقت آپ کے مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی ساتھ ہو گئے۔ ہمدان، تبریز، خرقان، اصفہان، بلخ اور غزلی ہوتے ہوئے لاہور پہنچے اور داتا گنج بخش مخدوم علی ہجویری کے مزار مبارک پر چلہ کش رہ کر دہلی کے راستے ایک روایت کے مطابق 40/ درویشوں کے ساتھ اجمیر معلیٰ وارد ہوئے۔ آپ جس زمانے میں اجمیر آئے وہ راجہ پرتھوی راج چوہان کا زمانہ تھا۔
بغداد سے دہلی آتے ہوئے خواجہ صاحب نے کئی ملکوں اور کئی علاقوں کی تہذیب و ثقافت کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ آپ بذات خود ایک متبحر عالم دین تھے۔ چناں چہ اسلامی سماحت و وسعت فکری کے پیش نظر یہاں کے باشندوں کا از حد خیال رکھا۔ آپ ان کے دکھ درد کا مداوا کرتے، ان کی مظلومیت پر ان کو دلاسہ دیتے اور اپنی معیت و قربت بخش کر بے پناہ پیار و محبت کا سلوک کرتے۔ چناں چہ وہ لوگ جو ذات پات ، اونچ نیچ اور امیری و غریبی کے بیچ پسے ہوئے تھے رفتہ رفتہ آپ سے قریب ہونے لگے۔ آپ نے اعلیٰ اخلاقی خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت حکمت کے ساتھ ان کے تاریک دلوں کو شمع توحید سے روشن کرنا شروع کر دیا۔
کہتے ہیں کہ کسی کی زندگی اس طرح پاکیزہ ہو جائے کہ وہ بلا تفریق مذہب و ملت سب کے ساتھ یکساں ہم دردی کرنے لگے، سب کو ایک نظر سے دیکھے، محبت و عداوت بھی انصاف سے خالی نہ ہو، سب کا احترام ، سب کی عزت و قدر کے ساتھ سب کا خیر خواہ ہو، اس کی مجلس میں سب کو شرف یابی کے مواقع ملیں اور سب کی ڈائریکٹ اس تک رسائی ہو، اس کا کوئی بھی عمل کسی بھی فرد بشر کے لیے دوئی کو قبول نہ کرتا ہو تو ایسا شخص نہ صرف جسم و جاں ، بلکہ دین و ایمان کا بھی خریدار بن جاتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ خواجہ صاحب توحید ربانی کا بھی آئینہ تھے۔ چناں چہ جتنے لوگ بھی آپ سے قریب ہوتے گئے وہ آپ ہی کے رنگ میں رنگتے چلے گئے۔
آپ کے بعد آپ کے خلفا اور سلسلے کے بزرگوں نے بھی اسی روایت کو فروغ دیا جس کا نتیجہ ہوا کہ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی جلد ہی نور توحید سے منور ہو گئی اور آج بھی جہاں جہاں آپ کی تبلیغی روایت باقی ہے، لوگ شمع توحید سے اپنے تاریک دلوں کو روشن کر رہے ہیں۔
خواجہ صاحب کے کئی نامور خلفا ہوئے جن میں آپ کے صاحب زادے خواجہ فخر الدین احمد چشتی بھی شامل تھے جن کا مزار اجمیر سے 60/ کیلو میٹر دور سرواڑ شریف میں مرجع خلائق ہے، مگر آپ کی مسند روحانیت کے جانشین قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہوئے، ان کے بعد ان کے خلیفہ بابا فرید الدین پاک پٹنی ، ان کے بعد سلطان جی خواجہ نظام الدین اولیا اور صابر پاک خواجہ علاء الدین صابر کلیری، سلطان جی کے بعد چراغ چشت خواجہ نصیر الدین محمود دہلوی، ان کے بعد بندہ نواز سید محمد گیسو دراز گلبرگہ اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری اور دیگر مشائخ چشت کے ذریعہ پھر یہ شجر طوبیٰ ایسا برگ و بار لایا کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی خطہ یا خانقاہ ایسی ملے جہاں چشتی فیضان نہ پہنچا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کن کے یہاں کون سی نسبت غالب ہے، مگر چشتی فیض سے سبھی مستفیض ہیں۔
ہندوستان کی رنگا رنگی اور یہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی بوقلمونی کے پیش نظر اگر بڑے پیمانے پر کوئی طریقہ دعوت یہاں مؤثر ہو سکتی ہے تو وہ فقط چشتیت ہے۔ چشتیت سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ ارشاد ایک مومن کے لیے اپنے حق میں تو مفید اور کار آمد ہو سکتی ہے، لیکن دوسرے کے حق میں وہ بات کہاں جو جو چشتیت کے سُر اور تان میں ہے۔
خواجہ صاحب کا پیغام محبت تھا، وہ ہر ایک فرد بشر سے محبت کرتے تھے اور کسی شرط کے بغیر محبت کرتے تھے۔ ان کے یہاں کسی کے لیے نفرت نہیں تھی اور نہ کسی سے بھید بھاؤ تھا۔ وہ ہر شخص کے دوست تھے اور ہر ایک سے دوستی نباہتے تھے۔ خواجہ صاحب کی تعلیمات کے لیے سلطان جی کا مجموعہ ملفوظات فوائد الفواد، امیر خورد کرمانی کی سیر الاولیا، مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی خزانہ جلالی، شیخ سعد الدین خیر آبادی کی مجمع السلوک اور مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری کے مکتوبات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
خواجہ صاحب کا وصال اجمیر معلیٰ میں 6/ رجب کو ہوا، آپ کے صاحب زادے خواجہ فخرالدین احمد چشتی نے نماز جنازہ ادا کرائی اور وہیںاجمیر میں آپ مدفون ہوئے۔ اسی لیے ہر سال اسی تاریخ میں اجمیر شریف میں آپ کے عرس کا اہتمام ہوتا ہےجہاں بلا تفریق مذہب و ملت دنیا بھر کے زائرین اکتساب فیض اور حصول برکت کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔
آفتاب رشک مصباحی
القدس لائبریری داراپٹی مظفرپور ۔ 8210586235