امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے ، آپ کا لقب فاروق اور کنیت ابوحفص تھی اور یہ دونوں نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ تھے، آپ اعلان نبوت کے چھٹے سال چالیس مرد اور گیارہ عورتوں کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ کے ایمان لانے کا واقعہ بہت مشہور ہے، آپ کے ایمان لانے سے مذہب اسلام کو بے پناہ تقویت ملی کہ مسلمان کھلم کھلا عبادت کرنے لگے اور آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ایمان لانے کی دعا فرمائی تھی، آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں بھی ہے،ایک رشتے سے آپ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے خسر تھے کہ آپ کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی الله عنہ حضور ﷺ کی زوجیت میں تھیں اور ایک رشتے سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے خسر تھے کہ حضرت ام کلثوم بنت علی رضی الله عنہما آپ کی زوجیت میں تھیں۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بے شمار فضائل ہیں جنہیں اس مختصر مضمون میں بیان نہیں کیا جاسکتا، جن میں سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن پاک میں متعدد آیات طیبات ہیں جو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں یعنی بعض ایسے حادثات رونما ہوئے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر اپنی رائے کا اظہار فرمایا اور اللہ تبارک و تعالی نے آپ کی رائے کا پاس و لحاظ رکھا اور آپ کی راۓ کے عین موافق آیات کریمہ نازل فرمایا۔
اس مختصر سے مضمون میں حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقت میں نازل شدہ آیات کو بیان کرکے آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اس عمل قصیر کو اپنے لئے بخشش کا ذریعہ تصور کرتا ہوں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا، میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی، میں عرض گزار ہوا! یا رسول اللہ ﷺ کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنالیں تو حکم الہی ہوا اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لو ۔
دوسرا پردے کی آیت۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا یا رسول اللہﷺ کاش! آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں ، کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالی نے پردے کی آیت فرما دی اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے رشک کے باعث حضور پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا کہ اگر حضور آپ لوگوں کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ
ان کا رب انھیں ایسی بیویاں عطا کرے جو اسلام میں تم سے بہتر ہوں تو اس پر بھی آیت کریمہ نازل ہوئی۔
اسی طریقے سے ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ نے فرمایا! میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی ، مقام ابراہیم میں،حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں۔
مذکورہ بالا حدیث میں تین تین آیات کا ذکر صرف شہرت کہ وجہ سے ورنہ محدثین عظام کے مطابق قرآن پاک میں ایسی بیس آیات طیبات ہیں جو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں اور علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بیس آیات کا ذکر فرمایا ہے۔ فصل في موافقات عمر ص 100۔
چند آیات طیبات اور ان کی شان نزول مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تین باتوں میں رب عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے میری موافقت ہوئی (ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ) میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اگر ہم مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی (یعنی نماز پڑھنے کی جگہ) بنائیں (تو کیسا رہے گا؟) تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہی آیتِ مبارکہ میری تائید میں نازل فرما کر مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی بنانے کا حکم ارشاد فرمادیا : (وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ۔ پ۱ ، البقرۃ: ۱۲۵) ۔ ترجمہ : اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ ۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ ج ۱ ص ۱۵۸ حدیث: ۴۰۲)(تفسیر در منثور)
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : اِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِن الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ لَوْاَمَرْتَ اُمَّھَاتَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِالْحِجَابِ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر قسم کے لوگ حاضر آتے ہیں ، پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم امہات المؤمنین کو حجاب میں رہنے کا حکم دیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت حجاب نازل ہوگئی : (یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ (پ۲۲ ، الاحزاب: ۵۹) ۔ ترجمہ : اے نبی اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ، ج۳ ، ص۳۰۴ ، حدیث: ۴۷۹۰،)
3۔ جب جنگ بدر میں ستّر کافِر قید کر کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں لائے گئے تو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُن کے متعلق صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے مشورہ طلب فرمایا۔ امیر المؤمنین خلیفہ رسول اللہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں میری رائے میں انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا بعید کہ اللہ تعالٰی اسی سبب سے انہیں دولت اسلام سے سرفراز فرما دے ۔ جبکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی ، آپ کو مکۂ مکرّمہ میں نہ رہنے دیا یہ کُفر کے سردار اور سرپرست ہیں، ان کی گردنیں اُڑائیں ۔ اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فدیہ سے غنی کیا ہے ، علی المرتضٰی کو عقیل پر اور حضرت حمزہ کو عباس پر اور مجھے میرے رشتہ داروں پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں ۔ بہرحال امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کی رائے پر سب کا اتفاق ہوگیا اور فدیہ لینے کی رائے قرار پائی ۔ لیکن بعد ازاں یہ آیت مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوگئی : (مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ۔ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ۔ (پ۱۰ ، الانفال: ۶۷) ۔ ترجمہ : کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہائے تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الجھاد باب الامداد ۔ الخ ، ص۹۷۰ حدیث: ۹۰)
4۔شراب کی حرمت سے متعلقہ تین آیات مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں ۔ چنانچہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی : اللّٰهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما۔تو سورۂ بقرہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی: (یَسْــلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ) ۔ (پ۲ ، البقرۃ: ۲۱۹) ۔ ترجمہ : تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت مبارکہ سنائی گئی تو انہوں نے دوبارہ یہی دعا کی : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما ۔ تو سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى ۔ (پ۵ ، النساء: ۴۳) ۔ ترجمہ : اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت مبارکہ سنائی گئی تو انہوں نے دوبارہ یہی دعا کی : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما ۔ تو سورۂ مائدہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ۔ (پ۷ ، المائدۃ: ۹۱) ترجمہ : شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے ۔ جب یہ تیسری آیت مبارکہ نازل ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اِطمینان کا اظہار فرمایا۔ (سنن ابو داود ، کتاب الاشربۃ ، باب فی تحریم الخمر ، ج۳ ، ص۴۵۴ ، حدیث: ۳۶۷۰)
5۔ جب منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ بن ابی نےجو مسلمان ، صالح ، مخلِص صحابی اور کثیر العبادت تھے یہ خواہش ظاہر کی کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُن کے والد عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنی قمیص مبارک عنایت فرمائیں اور نمازِ جنازہ بھی پڑھائیں ۔ یہ سن کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان دونوں امور کے ارادے سے آگے بڑھے تو حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فوراً اٹھا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بالکل سامنے کھڑا ہوگیا اور دست بستہ عرض کی : اَعَلٰى عَدُوِّ اللہ ابْنِ اُبَيْ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کیا آپ دشمن خدا عبد اللہ بن اُبی کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں ؟ جس نے فلاں فلاں دن ایسی ایسی گستاخیاں کی تھیں ۔ لیکن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس منافق کو اپنی قمیص بھی عطا فرمائی اور اس کے جنازے میں بھی شرکت فرمائی ۔ بعد میں یہ آیت مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوگئی : وَ لا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (پ۱۰ ، التوبۃ: ۸۴) ترجمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکِر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ، پ۱۰ ، التوبۃ ، : ۸۴ ، ص۳۷۶،)
6۔ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی راتوں میں اپنی زوجہ سے مباشرت کرنا جائز نہیں تھا ، لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ودیگر چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جماع کرلیا تو رمضان المبارک کی راتوں میں جماع کے جواز کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ) ۔ (پ۲ ، البقرۃ: ۱۸۷) ۔ ترجمہ : روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو ۔ (سنن ابی داود ، کتاب الاذان ، کیف الاذان ، ج۱ ، ص۲۱۳ ، الحدیث: ۵۰۶،)
7۔ پانچ ۵ ہجری میں غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام پر ٹھہرا تو اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ضرورت کےلیے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ گیا ، تو آپ اس کی تلاش میں مصروف ہو گئیں اور قافلے والے آپ کو قافلے میں سمجھ کر روانہ ہوگئے ۔ بعد ازاں آپ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آگئیں تو قافلے میں موجود منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا کی شان میں بدگوئی شروع کردی اور اَوہام فاسدہ (غلط وسوسے) پھیلانا شروع کر دیے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس معاملے میں گفتگو فرمائی تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کی گواہی دی ۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مَنْ زَوَّجَکَھَا ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کا نکاح کس نے فرمایا ؟ ۔ فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ۔ عرض کیا : اَتَنْظُرُ اَنَّ رَبَّكَ دَلَّسَ عَلَيْكَ فِيْهَا ۔ یعنی کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ کے رب عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو عیب دار چیز عطا فرمائی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے سُبْحَانَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ۔ یعنی الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے ۔ تو آپ کی موافقت میں یہی الفاظ رب عَزَّ وَجَلَّ نے نازل فرما دیے : وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ ۔ (پ۱۸ ، النور: ۱۶) ۔ ترجمہ : اور کیوں نہ ہوا جب تم نے سنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے ۔ (عمدۃ القاری ، کتاب الصلاۃ ، باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔ الخ ، جلد ۳ ، صفحہ ۳۸۷ ، تحت حدیث : ۴۰۲،)
8۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب منافقین کے استغفار کی کثرت کی تو امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی زبان پر یہ کلمات آئے : سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ کا ان منافقین کے لیے استغفار فرمانا یا نہ فرمانا دونوں برابر ہیں ، تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان ہی الفاظ میں آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت کریمہ نازل فرمادی : سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ ۔ (پ۲۸ ، المنافقون: ۶) ۔ ترجمہ : ان پر ایک سا ہے تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو ۔ (الصواعق المحرقۃ ، ص۱۰۰،)(تاریخ الخلفاء ، ۹۷)
9۔ حضرت سیِّدُنا ابن ابی حاتم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن ابی لیلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کی ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ایک یہودی کی ملاقات ہوئی تو اس نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کہا : اِنَّ جِبْرِيْلَ الَّذِيْ يَذْكَرُ صَاحِبُكُمْ عَدُوٌّ لَّنَا یعنی یہ جو جبریل ہے جس کا تذکرہ تمہارے دوست (محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَائِیلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ یعنی جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا۔ ‘‘ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں انہی الفاظ میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمادی : (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ(۹۸)) (پ۱ ، البقرۃ: ۹۸) ترجمہ : ’’ جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا ۔ (درمنثور ، پ۱ ، البقرۃ : ۹۷ ، ج۱ ، ص۲۲۴)
10۔ ایک بار امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ رات کے وقت آرام فرماتے رہے تھے تو آپ کا خادم آپ کے کمرے میں داخل ہوا ۔ آپ چونکہ نیند کی حالت میں تھے لہٰذا بدن سے کچھ کپڑا ہٹا ہوا تھا ایسی حالت میں حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غلام کا بلا اجازت داخل ہونا اچھا نہ لگا تو آپ نے رب عزوجل کی بارگاہ میں یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ حَرِّمِ الدُّخُوْلَ عَلَيْنَا فِيْ وَقْتِ نَوْمِنَا ۔ یعنی یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے سونے کے اوقات میں بلا اجازت داخلہ حرام فرمادے ۔ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۔ (پ۱۸ ، النور: ۲۷) ۔ ترجمہ : اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کر لو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو ۔ (ارشاد الساری کتاب تفسیر القرآن سورۃ الاحزاب باب قولہ: لاتدخلوا ۔ الخ ، ج۱۰ ص۵۹۶ تحت الحدیث: ۴۷۹۰،)
نہایت ہی اختصار سے کام لیتے ہوئے راقم الحروف نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقت میں نازل شدہ چند آیات طیبات کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی, ابھی اس کے علاوہ بھی بے شمار آیات کریمہ ہیں جو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں، بلا شبہہ یہ آیات طیبات جہاں ایک طرف حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی قدر ومنزلت کی جانب مشیر ہیں تو وہیں روافض کی جانب سے آپ پر کیے گئے اعتراضات اور ان کے بےبنیاد الزامات کا دندان شکن جواب بھی ہیں ۔
آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔