ابتدا ہی سے حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی رہی ہے، اور فتح بالآخر حق کی ہوئی۔ باطل ہمیشہ کروفر اور لشکرِ جرار ؛طاقت و توانائی سے لیس آیا؛اس کے ساتھ اقتدار بھی رہا جب کہ اہلِ حق قلیل لیکن تائیدِ غیبی اور مشیتِ ایزدی کے فضلِ خاص سے مالا مال ہو کر میدانِ عمل میں سرخ رُو رہے۔بارہا ایسا ہوا کہ ایک مردِ حق آگاہ نے باطل کے عزائم کو خاک میں ملادیا، تاریخ انسانیت میں احقاقِ حق کے لیے مشیت کی طرف سے ایسے معاملات بارہا ظہور پذیر ہوئے۔ پانچویں صدی ہجری کا آخر بڑا ہول ناک تھا، گلستانِ اسلام کو اُجاڑنے کی صدیوں سے جاری مہم لگ بھگ کام یاب دکھائی پڑتی تھی؛یہودیت و عیسائیت نے طوائف الملوکی کو ہوا دے کر مسلمانوں کو باہم برسرِ پیکار رکھا، داخلی طور پر فتنوں کو ہوا دی؛ دہریت، لادینیت، اسلامی بصیرت کو بنجر بنانے کے لیے فلسفۂ خام پورے شباب پر تھے۔لباسِ خضر میں چار سٗو رہ زن پھرتے تھے، شریعت کی حدود کی پامالی عام تھی، اہلِ ایماں کرب و اضطراب میں تھے:
الٰہی تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
اصلاح و تجدید کی شدید ضرورت تھی؛ مشیتِ ایزدی نے ایسے نازک حالات اور عہدِ قحط الرجال میں سر زمینِ جِیْل نواحِ بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف غوث اعظم (۴۷۰ھ-۵۶۱ھ)کو خانوادۂ سادات میں پیدا فرمایا۔ آپ نے بغداد کو اپنی سرگرمیوں کا محور بنایا، اس لیے کہ اس دور میں بغداد ہی لادینی سرگرمیوں کا منبع تھا جہاں سے اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی مہم شباب پائی تھی۔ بہت جلد غوث اعظم کے مواعظ و ارشادات اور فلسفۂ خام کے مقابل کرامات کی شہرت دٗور دٗور پہنچ گئی۔ عامۃالمسلمین کی فکری اصلاح نیز خواص کی تربیت کے لیے غوث اعظم نے وعظ کا سہارا لیا جب کہ درس گاہِ غوثیت سے خوشہ چینی کرنے والے ہزاروں ہیں، یہ ہزارہا تلامذہ در اصل اسلام کے عظیم مبلغ، محدث، مفسر اور صاحبانِ روحانیت و تاج ورِ ولایت تھے۔ اس طرح اسلام کی حفاظت و صیانت کا ایک پورا نظام آپ نے قائم فرما دیا…اس تحریر میں تعلیماتِ غوثیہ کی عصری اہمیت و افادیت کا تجزیہ مقصود ہے۔
تعلیماتِ غوث اعظم کے نتیجے میں بہت جلد فتنوں نے دم ٹوڑ دیا، بغدادمیں اسلامی علوم و فنون کی وہ بہار پھر لوٹ آئی جو ابتدائی صدیوں میں سایہ فگن تھی، درس و وعظ کا یہ عرصہ چالیس برس جاری رہا، پہلا وعظ۵۲۱ھ میں اور آخری درس ۵۶۱ھ میں دیا۔درس و وعظ و ارشاد میں تفسیر و حدیث،علم و فن،مسائل شرع، فقہ و تصوف اور عرفان کا دریا رواں دواں ہوتا جس سے ایک طرف ایمان کی فصل ہری ہوتی تو دوسری طرف بے ایمان دل نورِ ایمان سے منور ہو جاتے۔ ملفوظات کے لکھنے کے لیے ۴۰۰؍علما مامور تھے۔
دعوتِ اسلام:
غوث اعظم فرماتے ہیں: میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زیادہ یہود و نصاریٰ شرفِ اسلام سے مشرف ہوئے ہیں، اور لاکھوں سے زیادہ گناہ گار و معصیت کیش توبہ کر کے راہِ راست پر گام زن ہوئے ہیں۔(چار بڑے اقطاب،ص۲۲)
توحید:
توحید پر جمے رہو۔ توحید (کے رنگ میں رنگے رہو)؛توحید( کی رسی مضبوطی سے تھام لو)؛ کیوں کہ توحید ہی سرمایۂ نجات ہے، (مرجع سابق،ص۲۵)
پیغام:
اے خوابیدہ شخص! بیدار ہو آنکھیں کھول اور دیکھ کہ تیرے سامنے عذاب کے لشکر سزا کے لیے پہنچ چُکے ہیں اور تو ان کامستحق بھی ہے،لیکن رحیم و کریم رب کی وجہ سے محفوظ ہے۔(ص۱۹۹،قلائدالجواہر)
دنیا:
اسے(دنیا کو) جب بھی موقع ملے گا تجھ کو لُوٹ لے گی، اور تجھ جیسے کتنے ہی لوگ اس کی چمک دمک اور اس کے حرص و طمع سے فریب کھا چکے ہیں۔(مرجع سابق)اسی کی توضیح مصلح ملت امام احمد رضا محدث بریلوی قادری(م۱۹۲۱ء)ایک شعر میں فرماتے ہیں:
شہد دکھائے زہر کھلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اِس مُردار پہ کیا للچایا دُنیا دیکھی بھالی ہے
ایک مقام پر آپ دُنیا کی حقیقت ان لفظوں میں وا کرتے ہیں: دُنیا ایک گزر گاہ ہے اور قیامت مصائب و تلخیوں کی آماج گاہ۔(مرجع سابق،ص۲۰۶)یعنی زندگی کی راہ میں اگر احکام الٰہی و فرامینِ رسالت پناہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پاس داری نہ رہی تو اس کا صلہ آخرت میں مصائب و سختیوں کی شکل میں ملنا ہے؛آخرت کی تیاری کا ساماں ابھی سے کیا جائے۔
صدق:
صدق و صفا کو اپنے اوپر لازم قرار دے لو، کیوں کہ ان دونوں کے بغیر انسان قربِ الٰہی حاصل نہیں کر سکتا۔(مرجع سابق،ص۲۰۴)
اہتمام سُنّت:
سُنّتِ نبوی اور اجماعِ اُمّت پر قائم رہنا؛اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۔ بلاشبہہ یہ (دینِ اسلام) میرا سیدھا راستہ ہے،اسی پر چلتے رہو۔(مرجع سابق،ص۲۱۹)
صوفی:
موجودہ دور میں شریعت سے بغاوت کرنے والے۔دُنیا سے محبت واُلفت کا رستہ جوڑنے اور طمع سے تعلق رکھنے والے خود کو صوفی کہلواتے ہیں؛ ایک طبقہ توہینِ رسالت بھی کرتا ہے اور پھر بھی صوفی؛ غوث اعظم فرماتے ہیں: صوفی وہ ہے جو اپنی مُراد کو مُرادِ حق کے تابع کردے۔ترکِ دُنیا کر کے مقدّرات کی موافقت کرنے لگے۔(مرجع سابق،ص۲۴۴)صوفی کو دوسرے لفظوں میں فقیر بھی کہا جاتا ہے، یہ فقیر وہ نہیں جو بھیک مانگتے ہیں بلکہ یہ فقر و استقامت والے ہوتے ہیں، اسی طبقے نے براعظم ایشیا و افریقہ کے بیش تر علاقوں میں اسلام کی کامیاب اشاعت کی،لیکن آج فقرا وصوفیا میں وہ اثر نہیں رہا!الا ماشاء اللہ؛ اس کا سبب افکار و کردار سے تابندگی کا رُخصت ہو جانا ہے، غوث اعظم کا یہ درس صوفیا کے لیے درسِ عمل اور آفاقی تربیت کا استعارہ ہے: فقیر کے لیے یہی مناسب ہے کہ اس کی فکر میں جولانی ہو، اس کے اندازِ فکر میں جوہر ہو…صداقت کے سوا اور کوئی راستہ اختیار نہ کرے۔ اس کا سوال کرنا صرف حصولِ علم کے لیے ہو۔(مرجع سابق،ص۲۵۱)
صبروشریعت:
صبر نام ہے مصائب و ابتلا میں ثابت قدمی اور شریعت کے دامن کو پکڑے رہنے کا۔(مرجع سابق،ص۲۴۶) وہ لوگ سبق لیں جو ضرورت اور تقاضا کی آڑمیں شریعت کی بیخ کنی کرتے ہیں، انتشار پھیلاتے اور علماے شریعت کا مذاق اڑاتے ہیں۔یاد رکھیں! شریعت پر استقامت ہی سُنّت کا راستہ ہے،باقی دُنیا کی طلب ہے اسی کی خاطر شریعت سے رُو گردانی کی جاتی ہے،مذکورہ ارشاد پر علما، داعیانِ دین کی توجہِ خاص درکار ہے۔
کتاب وسنت کی پیروی:
حضرت غوث اعظم ایک مرتبہ اولیا کی جماعت کے ساتھ امام حنبل کے مزار کی زیارت کو گئے،اس موقع پر شیخ عدی کو یہ نصیحت کی: میں تمھیں کتاب و سُنَّت کی پیروی کی تلقین کرتا ہوں۔(مرجع سابق،ص۲۶۳)اس ارشاد سے وہ لوگ سبق لیں جو معرفت کا راستہ فرایض وسُنَت کے ترک کو سمجھتے ہیں، نمازوں سے غفلت کرتے ہیں اور خود کو اہل اللہ سمجھتے ہیں۔
بہ طورِ نمونہ تعلیماتِ غوثیہ سے عطر کشید کر کے پیش کر دیا گیا، عہدِ رواں کے تناظر میں دیکھو تو لگتا ہے کہ یہ ارشادات حال کے شامیانے میں کہے گئے،ان ارشادات میں وہ پیغام ہے جنھیں آج بھی گلشنِ حیات میں آویزاں کر لیا جائے تو مصائب کی خزاں دور ہو جائے گی اور امیدوں کے سیکڑوں لالہ و نرگس کھل اٹھیں گے۔ضرورت عمل کی ہے۔