ہر سال ماہِ محرم میں یادِ امام حسین رضی اللہ عنہ منائی جاتی ہے…شہداے کربلا کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے…ان کی دین کے لیے جاں نثاری کے چرچے ہوتے ہیں…ظالمانِ کوفہ اور رہزنانِ کربلا کے ستم سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں…محبتِ اہلِ بیت میں خود بخود مژگاں پر آنسوؤں کی بوندیں نمودار ہوتی ہیں…خانوادۂ نبوت نے دین کی خاطر سر کٹایا…باطل کے آگے سرنگوں نہ ہوئے…وفا شعاری کا نمونہ پیش کیا…مثال قائم کی…عزیمت و استقامت کی لاج رکھی…مشعلِ راہ بن گئے ہے…
ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سُراغ لے کے چلے
شہداے کربلا کے نقوشِ قدم رہِ حق کی علامت بن گئے…اعلیٰ حضرت نے مذکورہ شعر میں غلامانِ رسول ﷺ کے نقوشِ قدم کو راہِ خدا کہہ کر صدق و وَفا کے چراغ روشن کر دیے… ایک سوال یہ ہے کہ ہر سال یادوں کی محافل کیوں سجائی جاتی ہیں…ذکرِ شہید اعظم رضی اللہ عنہ کیوں کیا جاتا ہے…کس لیے بزمیں منعقد ہوتی ہیں…اشک رواں ہوتے ہیں…امام حسین سے محبتوں کی قندیلیں فروزاں کی جاتی ہیں…شہداے کربلا کی پاکیزہ حیات کے ہر رخ کو اُجاگر کیا جاتا ہے…انھیں سنگِ منزل مانا جاتا ہے…نشان منزل سمجھا جاتا ہے…
دین کا نظام ’’قانونِ شریعت‘‘ کامل و اکمل ہے…جس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی و مصالحت دین سے بغاوت ہے…راہِ خدا سے انحراف ہے…امام حسین رضی اللہ عنہ نے شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے لیے یزید کی بیعت سے انکار فرمایا…یزید کی شریعت سے بغاوت و انحراف کے خلاف آواز بلند کی…اِس لیے امام حسین کا نقشِ قدم راہِ خدا ہے…شریعت کے تحفظ کے لیے آپ کی ذات مشعلِ راہ بن چکی ہے…نشانِ منزل ہے…رہِ استقامت کا نشانِ امتیاز بن چکے ہیں امام حسین رضی اللہ عنہ…
وہ لمحات کیسے اذیت ناک ہوں گے! جب یزیدی انحراف کے خلاف امام حسین نے سفر کی صعوبتیں گوارہ کیں…ارضِ طیبہ سے دوری کسے برداشت ہو گی!…وہ تو بارگاہِ نبوی ﷺ کے چَین و سکوں تھے…پروردۂ آغوشِ مصطفیٰ ﷺ تھے…
یزید کے خلافِ شریعت اقدامات کو نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے مقابل کچلنا ضروری تھا…قیصر و کسریٰ کے آمرانہ طرزِ حکومت کی پیروی یزید نے کی…اہلِ کوفہ نے یزید کی بیعت سے انکار پر مبنی خطوط بھیجے…امام حسین کے پاک ہاتھوں پر بیعت کی خواہش ظاہر کی… تحفظِ شریعت کے لیے امام حسین رضی اللہ عنہ نے دیارِ محبوب ﷺ سے سوئے کوفہ و کربلا مسافرت اختیار کی…
نخلستانِ طیبہ سے جُدائی ہوئی…وہ طیبہ جہاں خاتم الانبیاء ﷺ کی بارگاہِ اقدس کا ہر آن دیدار میسر تھا…دین متین کے چمن کو بے دینی کی تیز و تند آندھیوں سے بچانے کے لیے، شریعت کے گلشن کو نقب زنی سے محفوظ کرنے کے لیے امام حسین رضی اللہ عنہ سرزمینِ کربلا تشریف لے گئے…
میدانِ کارزار گرم ہوا…ایک طرف مسلح فوج، ہتھیاروں سے آراستہ دستے، دوسری طرف ۷۲؍ نفوسِ پاکیزہ، جن میں اکثر خانوادۂ نبوت کے چشم و چراغ… جن سے دین کی نکہتیں تھیں، جو شریعت کی حفاظت کے لیے آئے تھے… جن کی پیشانیاں تقویٰ و طہارت سے روشن تھیں…جن کے پیشِ نظر اسلامی قوانین کی تکریم تھی…ایک طرف شاہانہ کروفر تھا؛ شوکتِ اقتدار کا نشہ تھا…اسی نشے میں یزیدی مکروفریب کی آماج گاہ بن گئے…انھیں دنیا نظر آنے لگی… اقتدار کی چاہت غالب آئی… آخرت بھول گئے…اپنی عاقبت تباہ کر بیٹھے…اصحابِ کرام کی عظیم نسبتوں کو فراموش کر بیٹھے…دین سے وابستگی کے دعوے کا لحاظ بھی باقی نہ رہا…
اپنے ہاتھوں کو مبارک لہو سے رنگین کیا…اس لیے رعب و رسوخ رخصت ہوا…تاریکی مسلط ہوئی…یزیدانِ عہد نشانِ عبرت بن گئے…نفرتوں کا استعارہ اور ظلم کی علامت قرار پائے…کسریٰ و قیصر کے استبداد کا نمونۂ عبرت بن گئے… وقت نے یزیدی شکست کا نوشتہ تحریر کیا…
شہادت سیدنا امام حسین کا یہی پیغام ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے لیے سرگرم عمل ہوا جائے… دین کے معاملے میں مصالحت سے بچا جائے بلکہ استقامت و تصلب دینی کی راہ اختیار کی جائے… اللہ تعالیٰ ہمیں اطاعت و عمل کی توفیق بخشے آمین بجاہ حبیبہٖ سیدالمرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم-