کیرلا میں اردو زبان و ادب کے امین جناب ڈاکٹر کے پی شمس الدین
آج سے کوئی دس سال قبل جناب ڈاکٹر عبد الغفار صاحب (صدر شعبہئ اردو، گورنمنٹ کالج، ملاپرم، کیرلا) نے جناب ڈاکٹر کے پی شمس الدین صاحب ترورکاڈ کے ایک توصیفی مضمون میں یہ بات صد فیصد صحیح کہی تھی کہ ”یہ ملیالی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں کہ جس کام کو شروع کرتے ہیں تو اس کے لیے خود کو وقف کر دیتے ہیں اور سمندر میں ڈوب کر گوہر نایاب ڈھونڈ لاتے ہیں“۔
میں ڈاکٹر موصوف کے اس قول کی صحت پہ اس درجہ اعتماد کے ساتھ اس لیے بحث کر رہا ہوں کہ برسہا برس سے میں اس امر کا عینی شاہدرہا ہوں۔ یعنی کیرلا کی ایک عظیم دینی و مادی درسگاہ ”دار الہدی اسلامک یونیورسٹی“ میں مکمل بارہ سال زیر تعلیم رہ چکنے کے بعد اب ملازمت کے سلسلے میں بھی اسی سر زمین کا ہو کر رہ گیا ہوں۔ بنا بریں مجھے یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ میں نے کیرلا کے دینی و علمی ماحول کے ساتھ ساتھ یہاں کے باشندوں کی طرز زندگی اور ان کے اندر پائے جانے والے اوصاف و خصائل کا خاصا ادراک کیا ہے۔ یقینا اہل کیرل میں کسی بھی کام کو بصد ذوق وشوق اور انتہائی انہماکیت کے ساتھ کرنے کا مادہ بہ نسبت دیگر ہندوستانی ریاستوں کے باشندگان کے قدرے زیادہ ہے۔ اور بلا شبہ یہی وصف انہیں دوسروں پر کئی امور میں فوقیت بخشتا ہے۔
نتیجتہً جناب ڈاکٹر کے پی شمس الدین ترورکاڈ صاحب (ملاپرم) نے بھی اردو زبان و ادب کے تعلق سے تحقیق و تدقیق کا مادہ وافر مقدار میں پایا ہے۔ پھر اپنے کام اور فن کے حوالے سے دیانت داری و سخت کوشی تو انہیں ملیالی ہونے کی حیثیت سے فطری طور پر بلکہ ورثے میں ملی ہے۔ کسی شخص کے لیے اس کی زبان سے جنون کی حد تک لگاؤ اور کشش پیدا ہو جانا کوئی حیرت کی بات نہیں مگر یہی چیز اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کے ساتھ دیکھنے کو ملے تو بلا شبہ حیرت کی بات ہے۔ جناب شمس الدین کا تعلق اسی دوسری صنف سے ہے۔ یہاں قابل حیرت امر صرف یہ نہیں کہ موصوف نے اپنی مادری زبان یعنی ملیالم کو چھوڑ کر اردو کو اپنایا بلکہ ان کے تعلق سے حیرت کی انتہا اس وقت ہو جاتی ہے جب ہمیں اس کا بات کا تیقن ہوتا ہے کہ جناب کے دل میں اردو کے تعلق سے ذرہ برابر بھی عصبیت نہیں ہے۔ جبکہ ایک غیر اہل زبان کا کسی دوسری زبان سے اس حد تک محبت و وفاداری آج کے متعصب اور علاقہ واریت کے مریض دور میں ناقابل اعتبار شے لگتی ہے۔
جناب شمس الدین صاحب کو میں جانتا تو کئی سالوں سے ہوں لیکن ان سے میرا قریبی تعلق کوئی آٹھ سالوں قبل سے رہا ہے۔ پہلی بار میں نے انہیں اپنی یونیورسٹی کے ایک ادبی سمینار میں مقالہ پیش کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ موصوف کے مقالہ پڑھنے کے انداز و آواز سے دیگر بہتوں کی طرح میں بھی متاثر ہوا تھا۔ کیوں کہ یہ مقالہ ایک غیر اہل زبان کا ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر پرکشش اور بلیغ اردو میں تھا۔ اسی دن سے میرے دل میں موصوف سے دو بہ دو ملاقات کا ارادہ بیٹھ گیا۔ آخرکار 2017میں میری خواہش پوری ہوئی اور میری پہلی کتاب ”نادر الکلام“ (غزلوں کا مجموعہ) کی ترتیب و اشاعت کے سلسلے میں مجھے ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا۔ موصوف کے مجھ جیسے ادنی طالب علم سے ملنے کے انداز نے مجھے حیرت کا پتلا بنا دیا۔ پرتپاک استقبال اور پر تکلّف میزبانی کے علاوہ ان کا لہجہ کافی مشفقانہ تھا۔ میرے ہر استفسار و سوال کا جواب نہایت محبت اور تفصیل کے ساتھ دیتے تھے۔ موصوف کی شفقتوں اور اردو زبان و ادب سے بے پناہ محبت کا اندازہ لگائیے کہ انہوں نے میری خواہش پہ مجھ جیسے ناچیز کے حقیر سے غزلیہ مجموعے پہ تقریظ لکھنے کی حامی بھر لی اور کیرلا کی اردو تاریخ پر گہری نظر ڈالتے ہوئے ایک طویل افزائشی مضمون لکھ ڈالا۔
ڈاکٹر موصوف سے میرا تعلق اپنے دوسرے مجموعے بنام ”نکہت گل“ کے سلسلے میں بھی برقرار رہا۔ ان بار بار کے ملاقاتوں سے موصوف کے متعلق میری دانست میں جوبات آئی وہ یہ ہے کہ موصوف کو اردو زبان و ادب سے کافی گہرا اور قلبی لگاؤ ہے۔ بلکہ یوں کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ انہیں اردو زبان و ادب سے عشق ہو گیا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی اردو شخصیت سے ملنا، ریاست بھر میں منعقد ہونے والے ہر چھوٹے بڑے اردو پروگرامس میں شرکت کرنا اور ملک کی مختلف لائبریریوں سے اردو کتابوں اور رسالوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنا ان کا شوق ہے۔ ان امور سے انہیں دلی سکون میسرہوتا ہے۔ اردو کتب و رسائل سے موصوف کے حد درجہ پیار اور گہری مناسبت ہی کا نتیجہ کہیے کہ ان کے گھر میں اردو کتابوں اور مختلف جرائد کا ڈھیر ایک مستقل لائبریری کی حیثیت رکھتا ہے۔
جواں سال ادیب جناب ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ صاحب نے اپنی اس قلیل سی ادبی زندگی میں مختلف موضوعات و شخصیات پہ کئی پرمغز اور تحقیقی مضامین و مقالات لکھے ہیں جو ملک بھر کے موقر اخبارات و رسائل کی زینت بنے اور بن رہے ہیں۔ موصوف کی شخصیت و فن پہ دوسروں کی لکھی گئیں تحریروں کی فہرست بھی کافی طویل ہے۔ معمر و معزز اردو شخصیات سے لے کر مختلف یونیورسٹیوں کے نئے رسرچ اسکالرس نے ڈاکٹر صاحب کو بارہا موضوع سخن بنایا ہے۔
ان تمام تر اوصاف کے علاوہ ایک پر تعجب اور خوش کن بات یہ بھی ہے کہ موصوف کی جانب سے ہلکی پھلکی اردو شاعری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ گاہے بگاہے وہ مجھے اپنی مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت پذیر شعری تخلیقات جیسے غزل، نظم اور رباعیات وغیرہ بذریعہ واٹس آپ یا ای میل ارسال کرتے رہتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کی طبیعت اردو زبان و ادب کے تعلق سے تحقیق و تدقیق کے علاوہ شاعری کی طرف بھی مائل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ موصوف شاعری میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تاہم موصوف کی یہ کبھی کبھار کی اردو شاعری ایک کارنامے سے کم نہیں کیوں کہ انہوں نے غیر مادری زبان میں شعر کہنے کی قابل ستائش کو شش کی ہے جبکہ شاعری ایسی چیز ہے جس میں اہل زبان کو بھی کافی محنت و مشقت اور بھرپور مشق و ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر موصوف کی شاعری کو دیکھتے ہوئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اردو شاعری میں ریاست کیرلا کے عظیم شاعر اور قد آور و ممتاز ادیب جناب ایس، ایم سرورؔ کے ہم پلہ یا ان کے بعد اس غیر اردو سر زمین کے سب سے بڑے شاعر ہیں تاہم اردو زبان و ادب کے تعلق سے موصوف کی مجموعی خدمات کے پیش نظر جن کے اعتراف میں اردو کے کئی ادبی اداروں نے موصوف کو ”بابائے اردو مولوی عبد الحق ایوارڈ“، ”علامہ اقبال اردو ایوارڈ“، ”فروغ اردو ایوارڈ”، ”موسی ناصح ایوارڈ“ اور ایس ایم سرورؔ ایوارڈ کے بشمول کئی اعزازات سے نوازا، اتنا ضرور کہوں گا کہ جناب ایس ایم سرورؔ کے بعد کیرلا کی سر زمین پہ اردو زبان و ادب کے تعلق اور اس کے حوالے سے اگر کوئی معزز، قد آور اور قابل ذکر ملیالی الاصل ادبی شخصیت ہے تو وہ محب اردو جناب ڈاکٹر کے پی شمس الدین ترورکاڈ صاحب ہی کی ذات ہے۔ اللہ تعالی موصوف کو اردو زبان وادب کی مزید بے لوث خدمت کرنے کے لیے مکمل صحت و تندرستی عطا فرمائے۔