سرکار مخدوم اشرف سمنانی بحیثیتِ عادل حکمراں
محرم الحرام کی اٹھائیس تاریخ کو ایک عظیم المرتبت شخصیت کا یومِ وصال منایا جاتا ہے۔جنہیں دنیا، تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔اس مضمون میں سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ کی سیرت و سوانح سے متعلق تحریر کرنے کی کوشش کررہا ہوں قارئین ملاحظہ فرمائیں اور دعا کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے اور آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ولادتِ باسعادت
سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ اس عظیم شخصیت کا نام ہے کہ آپ کی تشریف آوری کی بشارت حضور اقدس ﷺ نے دی۔ ڈاکٹر سید مظاہر اشرف لکھتے ہیں: جب حضرت قدوۃ الکبریٰ (سیدنا مخدوم اشرف سمنانی) کی پیدائش کا وقت قریب آیا اور امید پیدا ہوئی کہ چند ایام میں ولادت ہوگی، انہی ایام میں ایک شب (سیدنا مخدوم اشرف سمنانی کے والد ماجد) حضرت سید ابراہیم علیہ الرحمہ کو خواب میں حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ابراھیم چند ہی ایام میں اللہ تعالیٰ تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائے گا، جس کا نام اشرف رکھنا، یہ دنیا و دین کا سلطان ہوگا، دنیا اس کے فیض سے مستفیض ہوگی، تم اس کی تربیت وتعلیم کا خاص خیال رکھنا۔ (لطائف اشرفی:24)
بشارت کے مطابق سلطان سمنان سید ابراھیم علیہ الرحمہ کے گھر سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت کے متعلق حضرت علامہ شبیر احمد راج محلی اپنے مقالہ بعنوان (کون ہیں مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی؟)میں لکھتے ہیں: (سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ) جن کی ولادت تحقیقی روایت کے مطابق 712ھ میں بمقام (خراسان) میں ہوئی (اشرفی جنتری:02)- جب سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ پیدا ہوئے تو شاہی خاندان میں آپ کی پرورش ہوئی۔ آپ کی عمر مبارک چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو خاندانی روایت کے مطابق آپ کی رسم بسم اللہ خوانی حضرت عماد الدین تبریزی رضی الله عنہ نے فرمائی (لطائف اشرفی:65)- سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ کا نام مبارک بشارت عظمیٰ کے مطابق “اشرف”رکھا گیا۔ بعد میں آپ رضی اللہ عنہ کو جہانگیر اشرف، محبوبِ یزدانی، تارک السلطنت، سلطان التارکین، قطب الاقطاب جیسے ان القابات سے بھی پکارا جانے لگا۔
تعلیم و تربیت
سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کے والد ماجد حضرت سلطان سید ابراھیم علیہ الرحمہ عرصہ دراز کے بعد بیٹے کی دولت سے بہرہ مند ہوئے تھے۔ اس لیے آپ کے والد ماجد چاہتے تھے کہ اپنے فرزند ارجمند کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ کریں اور شدت سے اس وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ میرا یہ فرزند ارجمند تحصیل علم کے قابل ہو تو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے۔ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے مکمل قرآن پاک صرف ایک سال کی مدت میں نہ صرف یہ کہ ناظرہ بلکہ قرآت سبعہ کے ساتھ حفظ کرلیا جب کہ اس وقت سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ کی عمر صرف سات سال کی تھی۔ قرآن مجید حفظ کے بعد چودہ سال کی کم عمری میں تمام علوم وفنون سے فارغ ہوئے اور دستار فضیلت آپ کے سر پر باندھی گئی۔سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اپنے دور کے بہت بڑے مفسر، محدث، فقیہ اور محقق بھی تھے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں آپ کے والد ماجد اور حضرت عماد الدین رضی الله عنہما کے علاوہ حضرت علی بن حمزہ کوفی علیہ الرحمہ کا بھی نام آتا ہے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور قرآت سبعہ کے ماہر تھے (لطائف اشرفی:22)-
ترک سلطنت
جب سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ پچیس برس کی عمر کو پہونچے اور سمنان کی سلطنت سنبھالے ہوئے دس برس گزر چکے تو اسی دوران بار بار اپنے دل کو کسی شیخ کی ملاقات کے لیے بے قرار پاتے۔ آپ کا ظاہر و باطن، پابندی شریعت اور تقویٰ و طہارت سے آراستہ تھا، اس سبب دل ہی دل میں ایسے مرشد برحق کی تلاش میں رہتے جو اپنے فیض سے سرفراز کریں۔ اتفاقاً سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب یعنی شب قدر کو سیج تحلیل میں مشغول تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی سے فرمایا: اے اشرف! یہ دنیاوی سلطنت چھوڑو اور روحانی سلطنت پانے کے لیے اٹھو اور ہندوستان کی طرف رخ کرو کہ وہاں میرے دوستوں میں سے ایک دوست رہتے ہیں، انہیں کے باغ ولایت سے تمہارا گل مقصود ملے گا، گروہ اخیار انہیں صاحب قدم، گروہ ابرار واجب قدم، اوتاد یحییٰ صادق، ابدال عیسیٰ نفس، ارباب عرفان شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات اور بعض آدمی انہیں شیخ علاؤ الحق کہتے ہیں۔ عالم ملکوت میں ان کو آثار موسیٰ، عالم جبروت میں خلیل انوار اور عشاق ان کو یوسف ثانی کہتے ہیں اور میں خضر ہوں۔ جب یہ خوش خبریاں حضرت خضر علیہ السلام سنا چکے اس کے بعد نظر سے غائب ہوگئے۔ صبح صادق ہوئی تو سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے تخت و تاج سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید سلطان محمد اعرف کو سپرد کیا اور خدمت والدہ ماجدہ میں حاضر ہوکر اجازت طلب کی۔ عرض کرنے لگے امی جان!اگر حکم ہوتو میں اس سلطنت دنیا کو ترک کر کے فقر اختیار کروں اور بادشاہت ملک آخرت کی حاصل کروں۔ والدہ ماجدہ نے فرمایا: اے فرزند!جب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اس سے پہلے روحانیت پاک ہمارے جد حضرت سلطان العارفین خواجہ سید احمد یسوی علیہ الرحمہ نے خواب میں بشارت دی تھی کہ تم کو ایسا فرزند نصیب ہوگا جس کی آفتاب ولایت کی چمک سے دنیا روشن ہوجائے گی اور اس کی نور ہدایت کی بدولت جہاں سے گمراہی مٹ جائے گی، اب سمجھی ہوں کہ وہ نسیم رحمت الٰہی چلی۔ اے میرے! بیٹے مبارک ہو! میں تم کو خدا کی راہ میں سپرد کر دیتی ہوں اور اپنی حقوق مادری بخش دیتی ہوں۔ والدہ ماجدہ سے اجازت ملنے پر سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ ہندوستان کا سفر شروع کرتے ہیں سفر ہندوستان کے دوران ایک سے بڑھ کر ایک واقعات پیش آئے۔ بہر حال حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله عنہ سمنان سے چلتے چلتے بہت طویل سفر طے کرکے پیرو مرشد حضرت علاؤ الحق والدین گنج نبات علیہ الرحمہ، جن کا مزار مبارک آج پنڈوا شریف ضلع مالدہ بنگال میں ہے ان کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔
تبلیغ دین
سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ جہاں اپنے دور کے بہت بڑے ولی کامل تھے وہی اپنے دور کے بہت بڑے مبلغ بھی تھے۔ آپ نے رمضان المبارک کا مہینہ اپنے پیر کے ساتھ گزارا اور عید کے دن پنڈوا شریف سے رخصت ہوئے۔ پیر و مرشد کے حکم کے مطابق جون پور کی جانب روانہ ہوئے یہیں سے آپ کی تبلیغی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پنڈوا شریف ضلع مالدہ بنگال سے روانہ ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے جس جگہ قیام فرمایا وہ جون پور کے قریب ظفر آباد کا علاقہ تھا، وہاں آپ نے اسلام کا پرچم لہرایا اور منزل بمنزل اعظم گڑھ ہوتے ہوئے آپ کچھوچھہ مقدسہ پہنچے اور کچھوچھہ مقدسہ ہی کو آپ نے اپنا مرکز بنایا۔دوران سفر آپ نے جہاں جہاں قیام فرمایا وہاں اسلام کی بہاریں آگئی۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کی پر اثر تعلیمات سے متاثر ہوکر تائب ہوتے اور حلقہ ارادت میں شامل ہو جاتے۔ آپ نے کچھوچھہ مقدسہ میں پوری زندگی عبادت و ریاضت اور تبلیغ دین میں گزاری۔ اگر آپ سے لوگ مسائل پوچھتے تو آپ مدلل جواب عنایت فرماتے، بڑے بڑے علماء فضلاء آپ کے علم کے سامنے طفل مکتب نظر آتے، تبلیغ کے ذریعے آپ نے اسلام کی بے پناہ خدمت کی۔ آپ اپنے مریدین کو بھی سختی کے ساتھ یہی تعلیم دیتے کہ شریعت کو ہر حال میں مقدم رکھیں اور کبھی بھی اس کے خلاف عمل نہ کریں آپ کی تبلیغ کا اثر یہ ہوا کہ ہزاروں انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور لاکھوں نے تائب ہوکر راہ ہدایت اختیار کی۔ آپ کچھوچھہ مقدسہ میں رہ کر ایسے ایسے شہروں اور علاقوں میں بھی تشریف لے گئے جہاں اسلام کا نام لینا بھی مشکل تھا۔ جب آپ وہاں تشریف لے گئے اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا تو کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
بحیثیت عادل حکمراں
جب سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ تمام علوم وفنون سے فارغ ہوگئے اس کے کچھ دنوں کے بعد آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ آپ اپنے والد محترم حضرت سید ابراہیم نور بخشی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد تخت سمنان پر رونق افروز ہوئے۔ معتبر روایات کے مطابق جس وقت آپ سر زمین سمنان کے سلطان بنے اس وقت آپ کی عمر شریف پندرہ سال تھی۔ آپ نے سر زمین سمنان میں دس سال تک حکومت فرمائی، پچیس سال کی عمر میں ترک سلطنت کر کے عازم ہندوستان ہوئے۔ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ایک عادل، منصف، بیدار مغز اور حکمرانی کے اصول سے پوری طرح باخبر تھے۔ ایک حکمراں میں جو صلاحیتیں اور اوصاف ہونے چاہیے وہ سب آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ آپ کے عہد سلطنت کے متعلق واقعات بہت مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں:
“ایک بار دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور یہ بیان کیا کہ میں ایک جماعت کے ساتھ آج رات سویا ہوا تھا، میری کمر میں چالیس سونے کے تنکے بندھے ہوئے تھے، جب نیند سے بیدار ہوا تو رقم غائب تھی، جماعت کے سبھی حضرات لینے سے انکار کرتے ہیں، آپ نے جماعت کو طلب کر کے پوچھا تو ہر ایک نے انکار کیا، قسمیں کھانے لگے، آپ نے فرداً فرداً ہر ایک کو طلب کیا اور ہر ایک کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کچھ متفکر ہوئے، تھوڑے سے تامل کے بعد مصاحبین سے کہا کہ اس سے دریافت کرو کہ یہی اصل چور ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس نے اقرار کیا اور رقم جہاں چھپا کر رکھی تھی وہاں سے لاکر حاضر کی (سرکار سمناں کی روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ ہی:44)-
معلوم ہوا کہ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کس طرح اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے اور ان کی دادرسی کرتے تھے۔ آپ کے عہد سلطنت میں کسی وزیر یا امیر کو یہ جرات نہ تھی کہ رعایا میں سے کسی پر ظلم کر سکے۔ آپ نے ایسا نظام قائم کیا کہ ہر شخص دوسرے پر ظلم وزیادتی سے ڈرتا، ایسا لگتا تھا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے سماج میں جو لوگ کسی منصب پر فائز ہوتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ رشوت لے کر غریبوں پر طرح طرح سے ظلم کرتے ہیں اور صحیح فیصلہ نہیں کرتے۔ قربان جائیں سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی پر کہ آپ نے کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں سنایا، چاہے غریب ہو یا امیر،آپ کے دور حکومت سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک نہ کوئی غریب بھوکا اور پیاسا رہا نہ کوئی یتیم، کسی پر آپ نے ظلم و زیادتی نہیں ہونے دی، اتنی بڑی ذمہ داری ہونے کے باوجود فرائض و واجبات تو دور کی بات آپ نے کبھی نوافل کو ترک نہیں کیا، آپ پیدائشی ولی اور تقویٰ و طہارت میں اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتْقـكُمْ کی مکمل تفسیر تھے۔
سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے انتقال سے پہلے سیدنا عبدالرزاق نور العین رضی الله عنہ اور دیگر مریدین و معتقدین کو یہ وصیت کی کہ: “میری قبر روضے کے درمیان رکھنا اور اینٹوں سے تیار کرنا اس کی چوڑائی اس حد تک ہو کہ نماز ادا کی جاسکے اور لمبائی قد کے برابر ہو۔آپ کو کس قدر نماز سے محبت تھی وصیت فرما رہے ہیں کہ میری قبر اس طرح تیار کرو کہ میں نماز پڑھ سکوں مگر افسوس!آج ہم اپنے آپ کو آپ کا دیوانہ کہلاتے ہیں اور نمازوں سے دور ہیں۔ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ ایک ایسی شخصیت تھے کہ جن کے دربار میں ابدال و اوتاد بھی حاضری دیا کرتے تھے۔ اس عظیم شخصیت نے 832ھ اٹھائیس محرم الحرام کو دنیائے فانی کو الوداع کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ جس طرح ظاہری زندگی میں اپنے فیضان سے لوگوں کو مالا مال فرماتے تھے آج بھی اپنے مزار مبارک سے لوگوں کو مالا مال فرما رہے ہیں۔ آپ کا مزار پاک اتنا بافیض ہے کہ محقق علی الاطلاق علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اخبار الاخیار میں آپ کے مزار پاک کے متعلق فرماتے ہیں: “مخدوم اشرف کا مزار کچھوچھہ میں ہے، آپ کی قبر بڑا فیض کا مقام ہے اور ایک حوض کے درمیان میں ہے اس علاقے میں جنات کو دور کرنے کے لیے آپ کا نام لے دینا بڑا نسخہ ہے (اخبار الاخیار) –