*نور* نور ہے، روشنی روشنی ہے، نور کا مقام بلندی اور عروج ہے۔ نور حقیقی نے ھدایت کو انبیاء بھیجے، آخر میں انھیں بھیجا جن کے لیے کائنات سجائی تھی، انھیں فضل و کمال عطا فرمایا، ایسا فضل و کمال کہ عقل انسانی اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ انھیں کونین کی ھدایت کو بھیجا، نوری مخلوق کے لیے بھی اور خاکی مخلوق کے لیے بھی۔ سید کونین رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس دونوں پہلوؤں کی جامع ہے، شان بشریت اور شان نورانیت، وہ افضل البشر ہیں، سیدالبشر ہیں، خیرالبشر ہیں، اور نوری بشر ہیں اور ایسے کہ: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَاِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی o (سورۃ النجم:۳۔۴) ’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی جاتی ہے۔‘‘
*اللہ* نے ’’رسول مقدس‘‘ کونور کہا اور اپنی کتاب ’’قرآن مقدس‘‘ کو بھی: قَدْ جَآء کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المآئدۃ:۱۵) ’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔‘‘ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا گیا کیوں کہ آپ سے تاریکیِ کفر دٗور ہوئی اور راہِ حق واضح ہو گئی۔(خزائن العرفان) شان بشریت پر اعلیٰ حضرت محدث بریلوی لکھتے ہیں: وہ (سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم) بشر ہیں مگر عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف و احسن، وہ انسان ہیں مگر ارواحِ ملائکہ سے ہزار درجہ الطف، وہ خود فرماتے ہیں: لست کمثلکم ’’میں تم جیسا نہیں‘‘ رواہ الشیخان (اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا۔) (قمرالتمام، ص۱۵)
وہی نورِ حق وہی ظلِ رب، ہے انھیں سے سب ہے انھیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
*اللہ کریم* نے اپنے محبوب کو جہاں رفعت و کمال سے نوازا، اعجاز و اکرام عطا کیا وہیں وہ منفرد شان عطا کی جو دوسرے انبیا کو نہ ملی، معراج عطا کی، اپنا دیدار کرایا، اپنے قرب کا شرف بخشا، ’’معراج‘‘ نبوی کمال کا نمایاں باب ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: ’’پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد اگرد ہم نے برکت رکھی۔‘‘ مسجد اقصیٰ سے آگے کے سفر کا بیان سورۃ النجم میں ہوا ، آغاز اس طرح ہوا: ’’اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے۔‘‘
*اللہ* کا دیدار رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج ہے، اس کا سب سے پہلے انکار کفار مکہ نے کیا، بعد کے دور میں مستشرقین یورپ نے اور عقل خام سے دیکھنے والے کلمہ گویوں نے، حالاں کہ ’’معراج‘‘ کا معاملہ عقل سے نہیں سمجھ میں آ سکتا ہے، امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: عقل کو حجت نہیں قرار دیا جا سکتا، اس سے غلطی کا احتمال ہے۔ (مکتوبات ج۳)عقل کی پرواز بڑی محدود ہے، اس کے لیے ’’وحی‘‘ کی رہ نمائی درکار ہے، جب وحی معراج نبوی کی تائید کر رہی ہے تو پھر ایک موحد کیسے عقل کو قبلہ مان سکتا ہے۔ یہ ایک علمی نکتہ ہے ، رویت باری سے متعلق قرآن کی سُنیں: ’’تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو اور انھوں نے تو وہ جلوہ دو بار دیکھا۔‘‘ (النجم:۱۲۔۱۳) مفسرین کہتے ہیں: معراج شریف بہ حالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے۔ (خزائن العرفان)
*راقم* نے جیسا کہ ابتدا میں تحریر کیا کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا ایک پہلو نورانیت بھی ہے اور نور کا مقام بلندی ہے ، رب قادر مطلق نے اپنے محبوب کو معراج عطا فرمایا تو اس میں جائے حیرت کیا؟ بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے خاتم النبیین کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے اور رب کی قدرت کا اظہار۔ مجھے یہاں امام شرف الدین بوصیری (م۶۹۴ھ) کا ایک شعر یاد آرہا ہے ؎
فَحُزْتَ کُلَّ فَخَارٍ غَیْرَ مُشْتَرَکٍ
وَجُزْتَ کُلَّ مَقَامٍ غَیْرَ مُزْدَحِمٖ
*ترجمہ:* تو آپ نے ہر قابل فخر کمال اپنی ذات میں اس طرح سمیٹ لیا کہ اس میں کوئی آپ کا شریک و سہیم نہیں اور ہر منزل آپ نے تنِ تنہا طے کی۔ (کشف بردہ ص۳۴۳)
*(۱)* امام نسائی اور امام ابن خزیمہ و حاکم و بیہقی کی روایت میں ہے: کیا ابراہیم علیہ السلام کے لیے دوستی اور موسیٰ علیہ السلام کے لیے کلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ حیرت ہے؟… حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے، امام قسطلانی و زرقانی نے فرمایا اس کی سند جید ہے۔ (رحمت عالم اور دیدار الٰہی ص۱۲)
*(۲)* امام الائمہ ابن خزیمہ و بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں: بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ (نفس مصدر ص۱۳)
*(۳)* امام نووی شرح صحیح مسلم میں، علامہ محمد بن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں کہ: جمہور علماے کرام کے نزدیک راحج یہی ہے کہ حضور تاج دار مدینہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب اپنے رب عزوجل کو انھیں آنکھوں سے دیکھا۔ (نفس مصدر ص۱۵)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث میں ہے: میں نے ایک عظیم ہستی دیکھی نہ تو روح کی اس تک رسائی ہے اور نہ ہی قلبی خیالات کی اس تک پہنچ ہے پاکی ہے اسے اور بلندی، نہ ہی اس کا کسی آنکھ نے مشاہدہ کیا نہ کسی کان کو اس کی شنوائی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی شہ کے دل میں کھٹکا ہوا تو میں اپنے رب کے قریب ہو گیا۔ (الاسرأوالمعراج ص۳۳)
*محدث* بریلوی فرماتے ہیں ؎
کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام
*احادیث* صحیحہ میں معراج کے دلائل کثیر ہیں، جس پر ہر دور کے محدثین نے پختہ یقین رکھا، عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ جس ذات کے لیے بزم ہستی سنواری گئی، آرائش کی گئی، خالق حقیقی اگر اپنے اس شاہ کار کو اپنا دیدار کرادے تو جاے تعجب نہیں! سید محمد اشرفؔ مارہروی (انکم ٹیکس کمشنر دہلی) کا ایک شعر اس باب میں مضمون آفرینی کا نمونہ ہے، وہ فرماتے ہیں ؎
وہ خدا کے نور کو دیکھ کر جہان والوں میں آ گئے
سرِ عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے
*معراج* میں رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جلوہ باری کو ملاحظہ فرمایا، آسمانوں کی سیر کی، انبیاے کرام علیہم السلام سے ملاقات فرمائی، اور مسجد اقصیٰ میں انبیا کی امامت کی، یہ امامت آپ کی نبوت کے کامل ہونے پر ایک دلیل ہے یعنی ہمارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم امام الانبیا ہیں اور آخری نبی… قبلۂ اول بیت المقدس جسے معراج میں خاص عظمت ملی اس پر یہودی قابض ہیں، دن بہ دن ان کے تسلط میں شدت آرہی ہے، مسلم ممالک تماشائی ہیں، حجازمقدس میں یہود نواز ہیں، انھیں حرم کی پاس بانی کا پاس نہیں ہے، شاہان مملکت اسلامیہ عیش و طرب میں مبتلا ہیں اور امت آزمایش میں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبلۂ اول کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، دعائیں کریں، معراج کی مبارک شب میں رب کی بارگاہ میں جبین نیاز خم کر دیں۔ معراج کے دولھا کا وسیلہ لیں… امید قوی کہ رب کی رحمت نازل ہوگی، وہ صبح نمودار ہو گی جس سے یہودی سازشوں کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ اللہ کریم! معراج کی مقدس شب کے طفیل قبلۂ اول کو یہودی تسلط سے آزاد فرما۔ اور خوب خوب درود نازل فرما اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر ؎
عَلَیْکَ صَلَاۃُ اللّٰہِ یَاسَیِّدَاُسْرِیْ
اِلَی اللّٰہِ حَتّٰی مَرَّ بِالسَّبْعِ وَالْحُجْبٖ
*ترجمہ:* آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود ہو، اے صاحبِ اسریٰ و معراج صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! جسے اللہ نے ساتوں آسمان کی سیر کرائی، اپنے پاس بلایا اور اس منزل پر لے گیا جہاں کوئی نہیں جا سکتا۔
(نوٹ: یہ شعر روضۂ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی جالی مبارک میں لکھا ہوا ہے۔)