معرفتِ الٰہی عظیم نعمت اور بڑی دولت ہے- ہمارا خالق اللہ ہے۔ اسی کی بندگی وعبادت مقصدِ حیات ہے۔ یہ وہ عظیم انعام ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ ہمیں ناز ہے اپنے مسلمان ہونے پر۔ ایسے اَنمول انعام کا حصول اس ذاتِ بابرکت کی تشریف آوری سے ہوا جن کا پیغام عالم گیر وآفاقی تھا۔ یہ کائنات جن کی ذات پاک کے لیے سجائی سنواری گئی؛ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم…جنھیں رب کائنات نے آخری نبی بنایا۔ جن کی آمد آمد کے بعد اب کوئی کتنا ہی بڑا مؤحد ہو اور نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت وعظمت کو تسلیم کیے بغیر ایمان والا نہیں ہو سکتا۔ مدارِ ایمان ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، اس لیے کہ رب کریم کی معرفت ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہی ہوئی۔ سچ فرمایا لطفؔ بدایونی نے :
رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزم خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
آفاقی ہدایت: جیسا انعام ہوگا ویسا اہتمام ہوگا۔ انبیائے کرام کو الگ الگ علاقوں میں، قوموں میں، اور زمانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔ سبھی نے اللہ کی معرفت کا درس دیا۔ حیاتِ انسانی پر جب سب سے نازک و پُرخطر موڑ آیا؛ آفاقی ہدایت کی ضرورت پیش آئی؛ ایسی کامل ہدایت جو قیامت تک کے لیے تھی، اس کی تکمیل ہوئی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے؛ مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی رضوی لکھتے ہیں:
’’یہ سب (حضرات انبیاے کرام علیہم السلام باری باری) تشریف لا کر اپنا اپنا کام (یعنی خلق کی ہدایت) کرتے گئے حتیٰ کہ ایک ایسا وقت بھی آ گیا جب حیاتِ انسانی ایک عالم گیر تاریکی میں محصور ہو گئی… عالم گیر اصلاح کے لیے ایک عالم گیر پیغام کی ضرورت تھی اور جس خداے واحد و یکتا نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب رسولوں کو وحی بھیجی تھی، حضرت محمد مصطفیٰ علیہ الصلاۃ والسلام والتحیۃ والثناء کو بھی وحی بھیجی۔ وہی جنھوں نے تاریخ انسانیت میں بالکل پہلی بار خدائی حکم کے مطابق یہ دعویٰ کیا:
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (پ۹،ع۱۰)
اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔‘‘(انسانی مسائل کا حل،ص۱۱۔۱۲)
ایسی آفاقی نبوت جس کی انسانیت کو اشد ضرورت تھی، امام محمد شرف الدین بوصیری (م۶۹۴ھ) فرماتے ہیں ؎
فَاِنَّہٗ شَمْسُ فَضْلٍ ھُمْ کَوَاکِبُھَا
یُظْھِرْنَ اَنْوَارَھَا لِلنَّاسِ فِي الظُّلَمٖ
ترجمہ: کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب فضل و کمال ہیں اور انبیاے کرام ستارے ہیں جو اسی آفتاب کی روشنی انسانوں کو تاریکیوں میں دکھاتے رہے ہیں۔(کشف بردہ،از نفیس احمد مصباحی)
ایامِ الٰہی: دین کی تکمیل ذات پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ہوئی۔ شرک شکن دن ہے ’’۱۲؍ربیع الاول‘‘ کفر شکن لمحہ ہے آمدِ سرکار، ایمان کی تابندگی کا پیغام ہے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ دنوں کے تعیین پر غور کرو تو اللہ کریم کی حکمت کے جوہر عیاں ہو جاتے ہیں، افسوس ہم قرآن کریم نہیں پڑھتے!! قرآن نے ہمیں کہیں تشنہ نہیں چھوڑا۔ شعور وعرفان دیا۔ ضابطۂ حیات دیا، ایمان وایقان کے رموز دیے، خاص دنوں کی اہمیت اجاگر کی۔ ’’ایام اللہ‘‘ قرار دے کر مخصوص دنوں کا شعور بخشا، ارشادِ الٰہی ہے:’’ اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا۔‘‘(پارہ ۱۳، ابراہیم:۵) دن یاد دلانا یوں ہی نہیں۔ غوروفکر کرو تو معلوم ہوتا ہے۔ کچھ لمحے ہوتے ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جاتا۔ شبِ قدر کو یاد رکھا جاتا ہے۔ ذبحِ اسماعیل کو یاد کیا جاتا ہے۔ خاصانِ خدا کے معمولات مخصوص وقتوں میں یاد کر کے ایامِ حج کے بطور ہر سال تازہ کیے جاتے ہیں۔ یومِ شہدائے کربلا سے اسلامی عظمتوں کی روشن تاریخ کے نقوش تازہ کیے جاتے ہیں۔ پھر وہ لمحۂ مبارکہ جو بے مثل و مثال ہے، جو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں معرفتِ الٰہی میسر آئی- ولادتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم- کیوں نہ اسے یاد رکھا جائے۔
اظہارِ محبت رسولﷺ : محبت اظہار چاہتی ہے۔ اسے سکھانا نہیں پڑتا۔ ایمان وایقان کی دولتِ بہا کی قدر دانی کرنے والے “ایام اللہ” کو یاد رکھتے ہیں۔ ہر سال ساری دنیا میں میلادِ مبارک پر خوشی منائی جاتی ہے، مختلف علاقوں میں اہتمام کا انداز مختلف ہے؛ اللہ اللہ! کیسے کیسے انداز میں مسلمان اپنے رب کا شکر بجالاتے ہیں کہ عظیم پیغمبر کو دنیا میں بھیج کر ہم پر احسانِ عظیم کیا۔ اس نعمت کے تشکر میں گھروں کو سجاتے ہیں، کوچوں کوبساتے ہیں، بھوکوں کو کھلاتے ہیں، محتاجوں کی حاجت روائی کرتے ہیں، نمازوں سے غافل رہنے والے پابندِ صوم وصلوٰۃ ہو جاتے ہیں، جبینوں کو بارگاہِ صمدیت میں خم کرتے ہیں، صف در صف مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، ایک دوسرے کو خوش کرتے ہیں، سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں، آج وہ آئے جن سے ہمیں رب کا پتا ملا۔ وہ آئے کہ چمن کھِل اُٹھا، گلشنِ ہستی مہک اُٹھا:
وہ آئے تو آج ہے گھر گھر صلِّ علیٰ کی دھوم
رنگ مِلا ہے لالہ و گل کو خوشبو کو مفہوم
انسانیت عنقا تھی، حیا کاجنازہ نکل چکا تھا، ظلم عام تھے، دہشت گردی کاایسا دور دورہ کہ معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر ۳٦٠؍بتوں کی پرستش کی جاتی تھی، کعبۂ مقدسہ میں مشرک قابض تھے…. وہ آئے رحمۃللعالمین بن کر، مظہرِ ذاتِ کبریا بن کر۔ کائنات کی جان بن کر آئے۔ نظامِ ہستی جن کی آمد آمد کے لیے قائم کیا گیا تھا وہ کیا آئے پورہ چمن مشک بار ہوگیا۔ شرک کا جنازہ نکل گیا، دل ستھرے ہوگئے، جانیں سیراب ہو گئیں، ایمان کی کشتِ ویراں گل زار و چمن زار ہوگئی۔ اسی لیے ’’مؤحد‘‘ یہ دن مناتے ہیں، شیاطین پر توحید کی عظمتوں کی یاد منانا گراں گزرتا ہے، اسی لیے گزری ڈیڑھ صدی سے مسلسل یہود و انگریز کی یہ کوشش رہی کہ مسلمانوں کے دلوں سے محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع بجھا دی جائے!
صہیونی سازشیں: عصرِ حاضر میں مغربی سازشیں پورے طور پرکوشاں ہیں کہ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کو دور کردیا جائے، ایسے حالات میں لازم ہے کہ چاہتوں کے رشتے مدینہ امینہ سے استوار کیے جائیں، میلادِ مصطفیٰ شرعی حدود میں منا کرمغربی قوتوں کو باور کرائیں کہ ہماری متاعِ عشقِ نبوی سلامت ہے، بقول اعلیٰ حضرت:
جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اٹھائے کیوں
عالمی یوم اخوت واتحاد: معرفتِ الٰہی کے اس دن کو منا کرعالمی اسلامی سوسائٹی کو مضبوط کریں۔ یہ دن مسلمانوں کے عالمی اتحاد و اخوت کادن ہے، اس میں خوشیوں کے اظہار سے محبتوں کی وہ شمع دلوں کے طاق پر روشن کریں جس سے ہماری نسبتوں کو استحکام حاصل ہو۔ وہ قومیں مٹ جاتی ہیں جو اپنی بنیاد سے بیگانہ ہوتی ہیں۔ ہماری جڑیں موہن جوداڑو، ہڑپا، اجنتا ایلورہ، فراعنہ و قیصر وکسریٰ کے کھنڈرات میں نہیں، مدینہ طیبہ کی ارضِ طیب سے پیوستہ ہیں، ہماری قسمتوں کے فیصلے وہائٹ ہاؤس اور لندن واسرائیل کے قصرِ ظالماں کے یہاں نہیں ہوتے بلکہ -فیصلے گنبد خضرا کے مکیں کرتے ہیں- مغربی زعما نے محض جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اسلام کی منفی تصویرکشی کی! مغربی فکر سے آلودہ چہرے اسلام کا آئڈیل نہیں، اسلام کا آئڈیل نسبتِ مصطفیٰ سے مالا مال اکابر واسلاف؛ اولیا و علماے حق ہیں- نوجوانوں کو پیغمبر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ رحمت میں پناہ لینی چاہیے، تا کہ استعماری عزائم خاک میں مل جائیں- دنیا سے ظلم وجور اور تشدد کی فکرِ غلط کے خاتمہ کے لیے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سوغات تقسیم کرنی ہوگی، اسی کی آج ضرورت ہے۔