سانحہ کربلا سے پہلے بھی بہت سارے جنگی حادثات و واقعات رونما ہوئے۔بڑی بڑی جنگیں ہوئیں ،غلبہ دین اور اعلائے کلمۃ الحق کے لئے جلیل القدر صحابہ کرام نے اپنی جانیں نچھاور کیں لیکن افسوس!قوم مسلم کے لئے بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ تاریخ اسلام سے بالکل نا آشنا ہے،اگر یہ پوچھا جائے کہ سب سے پہلی اسلامی جنگ کونسی ہے؟تو اس کا جواب نہیں ملتا،رسول اعظم ﷺ کے چہیتے چچا حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ نے اس طرح جان نچھاور کی کہ آپ کے کلیجہ کو چبایا گیا،اگر یہ سوال کیا جائے کہ ان کا یوم شہادت اور تاریخ شہادت کیا ہے؟تو قوم لا علمی کا اظہار کرتی ہے، بلکہ حد تو یہ ہے کہ جن جنگوں میں حضور رحمت عالم ﷺ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ان کے نام تک معلوم نہیں۔بہر حال عرض یہ کرنا ہے کہ شہادتیں پہلے بھی ہوئی ہیں،جنگیں پہلے بھی لڑی گئی ہیں لیکن شہدائے بدر واحد کی بارگاہ میں ایسا خراج نہیں پیش کیا جاتا۔جیسا کہ تاجدار کربلا کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ دوسری شہادتوں کی بہ نسبت شہادت نواسئہ مصطفیٰ ﷺ کو زندہ رکھا گیا ہے؟دوسرے ایام کی بہ نسبت یوم شہادت حسین کو پوری دنیا میں اس قدر جوش و خروش کے ساتھ کیوں یاد کیا جاتا ہے؟وجہ یہ ہے کہ امام حسین کی قربانی طلب جاہ و دولت کے لئے نہ تھی،بلکہ آپ کی جنگ اپنے نانا جان کے عظیم مشن کو زندہ رکھنے کے لئے تھی،آپ کا معرکہ نظام اسلامی کے تحفظ کے لئے تھا،اسی لئے جب تک یہ مشن زندہ رہے گا آپ کی یادیں زندہ رہیں گی،جب تک یہ نظام محفوظ ہوگا آپ کی شہادت زندہ رہے گی،جس طرح سے حضور تاجدار مدینہ کا یہ مشن کبھی مردہ نہیں ہو سکتا اسی طرح دنیا کبھی بھی آپ کی شہادت اور قربانی کو فراموش نہیں کر سکتی۔یہی وجہ ہے کہ دنیا نے بہت کچھ بھلا دیا لیکن شہادت حسین کو نہ بھلا سکی،لہٰذا!یوم شہادت حسین اس وقت تک منایا جاتا رہے گا جب جب تک کہ اسلام دنیا میں زندہ رہے گا۔اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ امام حسین آج بھی زندہ ہیں اور تاقیامت زندہ رہیں گے۔
ایک بہت ہی اہم فرق جو غزوات صحابہ اور معرکہ کربلا میں ہے وہ یہ ہے کہ ان معرکوں میں اسلام اور کفر کا تصادم تھا جبکہ میدانِ کربلا میں تاجدار کربلا کے مقابل کافر،مشرک اور بت پرست نہ تھے بلکہ وہ تھے جو نمازیں بھی پڑھتے تھے،روزے بھی رکھتے تھے،تاجدار کربلا کے نانا کا کلمہ بھی پڑھتے تھے،لیکن حرص جاہ و دولت نے انہیں اندھا کر دیا تھا اور ایک فاسق و فاجر کے پرچم تلے جمع ہوکر نواسئہ رسول سے برسر پیکار تھے۔صرف نماز،روزہ وغیرہ اعمال صالحہ کی پابندی اہل حق ہونے کے لئے کافی ہوتی تو کبھی یہ معرکہ نہ رونما ہوتا،اس معرکہ نے یہ واضح کر دیا کہ نماز،روزے کا لبادہ اوڑھنے والے بھی اسلام دشمن ہو سکتے ہیں اور صرف اہل کفر ہی نہیں بلکہ نماز،روزہ ،حج،زکوۃ ادا کرنے والے بھی اسلامی روپ اختیار کر کے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر سکتے ہیں۔لہٰذا!مسلمانوں کو چاہئے کہ اصلی اسلام کو سمجھیں اور حقیقی مسلمانوں کو پہچانیں کیوں کہ تاجدار کربلا نے یہ واضح کر دیا کہ ہر نمازی وعبادت گزار قابل اطاعت و تقلید نہیں ہو سکتا،اسی لئے ہم پر لازم ہے کہ دور حاضر کے ان نام نہاد مسلمانوں اور اسلام بہروپ اختیار کرنے والوں سے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کریں،جو در پردہ اسلام دشمنی میں لگے ہوئے ہیں۔صحیح اسلام وہی ہے جس کا تحفظ میدانِ کربلا میں تاجدار کربلا نے کیا اور اسے نئی زندگی بخشی اور آج صحیح اسلام وہی ہے جسے تیرہویں صدی میں تاجدار کر بلا کے شیدا امام احمد رضا نے آیات قرآنی اور ارشادات و فرموداتِ رسول ﷺ کے ذریعہ جلا بخشی اور اس کی تجدید کی، مسلک اعلیٰ حضرت نہ تیرہویں صدی کا کوئی نیا مذہب ہے اور نہ ہی کوئی نیا فرقہ بلکہ تاجدار کربلا حضرت امام حسین رضی الله عنہ نے جس مشن کے تحفظ کے لئے اپنی پیاری جان قربان کی،چودہویں صدی میں اسی مشن کی ترجمانی اور سنتِ نبوی کا احیا محدث بریلوی رضی الله عنہ نے کیا جسے مسلک اعلیٰ حضرت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت مسلک اہل سنت ہی کا دوسرا نام ہے اور مسلک تاجدار کر بلا کا حقیقی ترجمان ہے۔
مقصد شہادت
یہ سوال حاشیہ ذہن پر گردش کرتا ہے کہ آخر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے امام حسین رضی الله عنہ،آپ کے اہل بیت اور اسلامی جاں شاروں کو جان تک قربان کرنے پر آمادہ کیا؟کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اتنی قربانیاں دینے کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے ایسا کر دکھایا؟اسے سمجھنے کے لیے پہلے بعثتِ مصطفیٰ ﷺ کا مقصد جاننا ہوگا، حضور سرور کائنات ﷺ کس مشن کو کامیاب بنانے کی پوری زندگی کوشش کرتے رہے اور اس کے لئے بے شمار قربانیاں پیش کیں،پہلے اسے جاننا ہوگا۔الله عز وجل کا ارشاد ہے:“وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور کچھے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور الله کافی ہے گواہ،،۔(الفتح:28)اس آیتِ کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاجدار مدینہ ﷺ کی بعثت کا مقصد دین اسلام کا تمام مذاہب باطلہ پر غلبہ ہے۔دین اسلام کی سر بلندی ہی آقائے کریم ﷺ کی تشریف آوری کا مقصد اور ساری حیات آپ کا یہی مشن رہا۔اسی مشن کی کامیابی کے لئے آپ کو دندان مبارک شہید کرانے پڑے،اسی کی خاطر آپ کا جسم اقدس زخمی ہوا،اسی کی خاطر بلال حبشی کو تپتی ہوئی ریت پر کھینچا گیا،اس مقصد کے حصول کے لئے صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کو بدر و حنین اور ان کے علاوہ کئی معرکوں میں اپنی گردنیں کٹانی پڑیں حتی کہ اپنی ساری مکی و مدنی زندگی میں آقائے دو جہاں ﷺ اسی مشن کی کامیابی کے لئے جسمانی اذیتیں اور دلی تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔پھر آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اس مشن کی بقاء کا کام اپنے ذمہ لیا۔آپ کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ نے اس مشن کو زندہ رکھا۔پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ،پھر مولائے کائنات اسلام کی سربلندی کے مشن کو عام کرتے رہے۔یہ مشن تمام تر کامیابیوں کے ساتھ زندہ رہا لیکن ۶۰ھ کے بعد صورت حال بدلنے والی تھی کیوں کہ اب امارت کا دعویٰ ایک ایسے شخص نے کر دیا تھا جس کی زندگی میں اسلام کے اثرات بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ایک ڈکٹیٹر جو تارک صلوٰۃ بھی تھا اور فاسق و ظالم بھی،وہ بدعملی کا مجسمہ تھا،اس نے خلافت سنبھالنے کا دعویٰ کر دیا، اس مقام پر امام عالی مقام نے سوچا کہ اگر یزید تخت خلافت پر بیٹھ گیا تو سارے معاشرے میں بد عملی پھیل جائے گی۔رسول الله ﷺ کا مشن رک جائے گا۔جس کے لئے آپ نے اور آپ کے جانثار صحابہ نے بے شمار قربانیاں پیش کیں۔امام حسین نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ چاہے جو ہو جائے لیکن یزید کی بیعت قبول نہ کروں گا۔اپنے پیارے نانا جان کے مشن کو زندہ رکھنے کے لئے ایک باوفا اور امین نواسے کی حیثیت سے امام حسین نے اپنی جان اور اپنا گھر بار لٹا کر پرچم اسلام کو بھی سر بلند کیا اور اس کی معاشرتی قدروں کو بھی بحال کیا۔اگر یزید کے ہاتھ پر امام عالی مقام بیعت کر لیتے تو معاشرے میں گناہوں کا رواج ہو جاتا،شراب نوشی،ترک صلوۃ وغیرھا گناہوں کو جرم نہ سمجھا جاتا۔کیونکہ یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ باد شاہ جیسے ہوتے ہیں رعایا ویسی بن جاتی ہے۔حکمرانوں کی بد عملی عوام کو بدکردار بنا دیتی ہے اور امام حسین یہ بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ ان کے نانا جان کے امتی ان کے تشکیل کردہ نظام اور ان کے بنائے ہوئے قانون حیات سے دست بردار ہو جائیں۔اس لئے امام عالی مقام نے اپنی گردن تو کٹا دی لیکن اپنا ہاتھ یزید پلید کے ہاتھ میں نہ دیا اور قیامت تک آنے والے سارے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اسلام کا پرچم سر بلند رہے۔اس کا نظام زندہ رہے تو پھر ہر لمحہ اسلام کے راستہ میں قربانیاں دینے کے لئے تیار رہو اور جان دینا پڑے تو جان دیدو لیکن اپنے آپ کو کبھی بھی باطل کے حوالہ مت کرو۔