الفقیہ الا عظم الشیخ الامام احمد زین الدین بن محمد الغزالی المخدوم الصغیر
امام زین الدین مخدوم کبیر کے وصال کے چند سالوں کے بعد آپ کی دوسری نسل میں مخدومی خاندان کے ایک اور نئے چشم و چراغ نے آنکھیں کھولی ،جس نے اپنے فضل و کمال علم و حکمت سے دنیا شافعیت میں انقلاب سا برپا کردیا جن کی متعدد علوم و فنون میں تصنیفات اور تالیفات کو دیکھنے کے بعد کیرلا کے کبار علمائے شوافع نے انہیں الإمام الشافعی فی دیار الملیبار جیسے القابات سے ملقب کیا جن کے علم کی روشنی سے صرف اہل ملیبار ہی نے نہیں بلکہ علمائے حرمین طیبین وغیرہ پوری دنیا کے علماۓ شوافع نے اکتساب فیض کیا ،آپ کی حیات مبارکہ کا معمولی سا نمونہ بالاختصار مندرجہ ذیل ہے۔
حسب و نسب اور تاریخ پیدائش
آپ کے والد محترم الشیخ العلامہ محمد الغزالی بن زین الدین المخدوم الکبیر اپنے زمانے کے ایک گراں قدر عظیم شخصیت تھے آپ شمال ملیبار میں منصب قضاء اور افتاء پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مبلغ بھی تھے ،اپنے والدین کی اجازت سے تشومبال میں مقیم ولیا کت کراکتی خاندان کی ایک متقیہ پارسا پاک سیرت اور پاک طینت خاتون سے نکاح فرمایا ،پھر آپ دونوں سے 938ھ مطابق 1534ء کو عمدةالمتفقہین الشیخ زین الدین المخدوم الصغیر کی ولادت ہوئی۔
علم دین کا حصول
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین کریمین سے حاصل کی پھر آپ کے والد ماجد نے مزید تعلیم کے لیے آپ کو اپنے چھوٹے بھائی الشیخ عبدالعزیز کی سرپرستی میں اپنے خاندانی ادارہ الجامع الکبیر میں بھیجا جہاں آپ نے قرآن کریم مکمل حفظ کیا اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوئے ،بعدازاں آپ نے زیادتی علم کے لئے والدین کے مشورے سے مکۃالمکرمہ کے لئے رخت سفر باندھا اور وہاں کئ ایک آفتاب علم و فن کی بارگاہ عالیہ میں رہ کر شرف تلمذی سے مشرف ہوئے ،جن میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں:
1۔العلامہ لكبير الفقیہ الشهير شيخ الاسلام مفتي الحرمين الامام بن حجر الهيتمي المالكي رحمة الله تعالی ۔
2۔مفتي الحجاز واليمن وجیہ الدين عبدالرحمن بن زياد۔
3۔شیخ الاسلام مفتی الاسلام السید عبد الرحمن الصفوی۔
آپ کی علمی خدمات اور دین اسلام کی دعوت۔
عربی ممالک سے لوٹنے کے بعد الشیخ زین الدین علیہ الرحمہ نے اپنے دادا جان المخدوم الکبیر کی طرح پونان کے الجامع الکبیر میں ایک مدرس کی حیثیت سے رونق افروز ہوئے اور آپ علم فقہ تفسیر اور علم الکلام علم الحدیث جیسے مختلف علوم میں ید بیضاء اور براعت تامہ رکھتے تھے، جس کی بنیاد پر پونان کی طرف طلبہ کی رغبت اور بڑھ گئی ،رفتہ رفتہ بڑے بڑے علماء اس جامعہ سے علم کے زیور میں ملبوس ہو نے لگے اور اپنے علم و ہنر سے کیرلا کے پسماندہ علاقوں میں جا کر وہاں کے لوگوں کی علمی پیاس بجھانے لگے ،دیکھتے ہی دیکھتے پونان کیرلا کے پہاڑوں سے نکل کر افق عالم پر چھا گیا ،یہاں تک کہ آپ سے ملاقات کے لیے بیرونی ممالک سے لوگوں کی آمدورفت بھی شروع ہو گئی اور آپ نے اس جامعہ کو اپنی زندگی کے میٹھے لمحات سے33 یا 34 سال فراہم کئے ،اس دوران آپ نے علمائے شوافع کی نظر میں ایک بلند مقام حاصل کیا کہ اس دور سے لے کر اب تک کیرلا میں کوئی ایسا فقیہ نہیں ملتا جو حضرت کی مدح و ثنا میں رطب اللسان نہ رہتا ہو۔
تصانیف و تالیفات:
آپ نے اپنے علم و فضل کی روشنی میں مختلف فنون بالخصوص علم فقہ میں ایسی نادر و نایاب معتبر کتابیں تصنیف فرمائیں، جن میں دلائل و براہین کے انبار کے پیش نظر ،علمائے کیرلا ہی نہیں بلکہ علمائے حرمین طیبین اور دیگر بلاد عرب کے علما بھی ان کتابوں کو نہ صرف ادب کی نگاہوں سے دیکھتے بلکہ مآخذ اور مراجع تصور کرتے ہیں،جن میں بعض معروف کتابیں سپرد قرطاس ہیں:
1۔قرةالعين بمهمات الدين متن في الفقة الشافعي
2۔فتح المعين بشرح قرةالعين
3۔إحكام أحكام النكاح
4۔مختصر شرح الصدور في احوال الموتی و القبور
5۔ الأجوبة العجيبة عن الأسئلة الغريبة
آپ کی کتاب فتح المعین علمائے شوافع کے نزدیک حد درجہ قبولیت کے اعلی درجے پر فائز ہوئی ، آپ کی اس کتاب نے قبولیت کے جتنے مراحل طے کیے، سرزمین ملیبار میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے آپ نے قرۃالعین بمهمات الدين کے نام سے بالاختصار فقہ شافعی میں دلائل وبرھاہین سے لبریز ایک کتاب تیار کی ،اس کے شائع ہونے کے بعد علمائے کرام کا معمولی طبقہ ہی کماحقہ اسے سمجھ سکا، عبارات کی پیچیدگی اور اسرار و رموز کی وجہ سے نوخیز طلبہ پر اس کا سمجھنا حددرجہ دشوار تھا ،عوام کے اصرار پر آپ نے بذات خود فتح المعین کے نام سے عربی زبان میں اس کی شرح کی، رفتہ رفتہ اس کتاب کی شہرت و مقبولیت نے تمام حدوں کو پار کر دیا ،یہاں تک کی سات سمندر پار حرمین شریفین اور مصر وغیرہ کی دروس کے حلقات میں اس کا باضابطہ درس ہونے لگا اور پھر اسے مصر بغداد اور شام ،انڈونیشیا ،ملیشیا سری لنکا اوردیگر ممالک کےجامعات و کلیات کے نصاب میں شامل کر لیا گیا اور الحمدللہ آج بھی شامل نصاب ہے، اس کتاب کی مقبولیت کی اس سے بڑھ کر اور دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ متعدد علمائے عرب و عجم نے اس پر حواشی چڑھائےاور شروحات بھی لکھیں:
- العلامہ الشهير محمد نووي الجاوي ثم الملكي۔ نها یة الزين علی قرة العين
- العلامه الشهير علي بن احمد بن سعيد بن ناصرین ۔ اعانة المستعين شرح علی فتح المعين۔
- الفقيه الاعظم المفتي في اربعة مذاهب امام شهاب الدين احمد كو يا شا لياتي مليباري ۔ حا شية علی فتح المعين ۔
سفر آخرت:
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کی تاریخ میں اختلاف ہے سب سے معتبر قول وہ ہے جسے مورخ الہند الکبیر الشیخ محمدعلی مسلیار نے اپنی کتاب تحفۃ الاخیار فی تاریخ علماء ملیبار میں بیان فرمایا ہے، شاید تاریخ و دن کے بارے میں کسی معتبر ذرائع سے پتہ نہیں چلا سکا ،اسی لیے صرف سنہ پر اکتفا کیاگیاہے، آپ رقم طراز ہیں کہ امام المخدوم الصغیر رحمة الله تعالى عليه 1028 ھ مطابق 1583ءمیں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔۔ إنا لله وإنا إليه راجعون