(پہلی قسط از ولادت تا بعثت)
حضور سید عالم ﷺ اصحاب فیل کے واقعہ کے پچپن دنوں کے بعد مکۃ المکرمہ میں قریش کے معزز قبیلہ کی ایک شا خ بنو ہاشم میں پیدا ہوے ابھی اپنی ماں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں تشر یف لائے آپ کے دوہی ماہ ہوئے تھے کہ آپ کے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعا لی عنہ کا اٹھارہ یا پچیس سال کی عمر میں مدینہ شر یف میں انتقال ہو گیا ؛ جہاں پر وہ اپنے والد حضر ت عبد المطلب کے حکم سے کھجور خرید نے گئے تھے۔
آپ ﷺ کی پید ائش سے پہلے ہی یہ خبر مشہور ہو گئی تھی کہ آخری نبی کی ولادت کا زمانہ قریب آگیا ہے پیدائش کے بعد سب سے پہلے آپ کی والدہ حضر ت آمنہ نے آپ کو دودھ پلا یا پھر یہ شر ف ابو لہب کی آزاد کردہ باند ی ثویبہ کو حاصل ہوا پھر مستقل طور سے دودھ پلا نے کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو اپنے گھر لے آئیں جہاں حجاز کا مشہور قبیلہ بنو سعد آ باد تھا یہ علا قہ طائف سے جنوب کی سمت میں واقع ہے یہاں پر آپ کی خو ب خوب بر کتیں ظاہر ہوئیں جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والد ہ حضرت آمنہ آپ کو لے کر آپ کے ماموں بنو عدی بن نجار کے پا س مد ینہ آئیں یہا ں سے واپسی پر وہ مقا م ابوا میں انتقال کر گئیں حضر ت ام ایمن آب کو لے کرمکہ آئیں جو اس سفر میں آپ کے ساتھ ساتھ تھیں یہ آپ کی باندی تھیں جو آپ کو اپنے والد کے ترکہ سے ملی تھیں ابھی آپ آٹھ ہی سال کے ہوئے تھے کہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کا سا یہ بھی سر سے اٹھ گیا والدین کے فو ت ہو جانے کے بعد یہی آپ کی کفالت کر رہے تھے بوقت وفات آپ نے اپنے تما م فرزندوں کو بلا کر آپ کی پرورش کی وصیت کی۔ زبیر بن عبد المطلب اور ابو طالب بن عبد المطلب کے در میان آپ کی کفا لت کے لیے قرعہ اندا زی ہوی حسب خواہش قرعہ ابو طا لب کے نا م نکل آیا لہذا آپ نے اپنے پیا رے اور یتیم بھتیجے کو پرور ش کے لیے اپنے پاس رکھ لیا اور کفا لت کا حق ادا کر دیا کھا نے پینے سے لے کر ہر معا ملے میں آپ کو اپنی حقیقی اولاد پر مقدم رکھتے۔
جب آپ بارہ سال کے ہوئے تو اپنے مہربان چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا پہلا سفر کیا راستے میں جب تجارتی کارواں شام کے شہر بصرہ میں فروکش ہوا تووہاں کے معبد کے راہب بحیرا نے آپ میں نبوت کی نشانیاں دیکھ کر آپ کی شناخت کر لی پھر اس نے ابو طالب کو تنبیہ کی کہ آپ اپنے بھتیجے کو لے کر مکہ لوٹ جائیں اور یہودیوں سے چو کنا رہیں وہ اسے گزند پہنچا سکتے ہیں یہ بچہ سارے جہانوں کا سر دار اور رسول ہے اللہ اسے رحمت اللعالمین بنا کر مبعوث فر مائے گا یہ جان کر ابو طالب وہیں سے یا شام جا کر کار وبار تجارت سے جلد فرا غت حا صل کر مکہ واپس ہوگئے چودہ سال کی عمر میں آپ نے حرب فجار میں شر کت کی جو قریش وکنانہ اور قبیلہ ہوازن کےدر میان ہوئی اس میں آپ نے خود جنگ نہیں کی البتہ جنگ میں اپنے چچاؤں کی اعانت ضرور کی اس لڑائی سے واپسی کے بعد آپ نے حلف الفضول کے معا ہدے میں شر کت کی یہ معاہدہ آپ کے چچا زبیر بن عبد المطلب کی مساعی سے طے پا یا تھا جس کا مقصد ظالموں کے خلاف مظلوموں کی داد رسی کرنا تھی اعلان نبوت کے بعد آپ فر مایا کرتے تھے : آج بھی اگر کوئی ستم رسیدہ مجھے یا آل حلف الفضول کہہ کر بلائے تو میں اس کی اعانت کروں گا جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھ رہی تھی ویسے ویسے آپ کی صداقت و امانت عفت وپارسائی کے چرچے بھی عام ہوتے جا رہے تھے یہاں تک کہ اہل مکہ نے اتفاق رائے سے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے دیا۔
جب آپ کی عمر شریف پچیس سال کی ہو گئی تو مکہ کی ایک پاک دامن اور معزز خاتون خدیجہ نے اپنا مال تجارت فروخت کرنے کے لیے شام کی منڈیوں میں لے جانے کی پیشکش کی یہ وہی خاتون ہیں جنہیں بعد میں ام المؤمنین بننے کا شرف حاصل ہوا آپ نے یہ پیشکش قبول کر لی اور خدیجہ کے غلام میسرہ کے ہمراہ سامان تجارت کے ساتھ آپ نے شام کا دوسرا سفر کیا چند روز کی مسافت طے کرنے کے بعد اہل قافلہ نے شام کے شہر بصرہ میں ایک معبد کے قریب سایہ دار درخت کے نیچے پڑاؤ کیا یہ وہی جگہ تھی جہاں پر تیرہ سال پہلے آپ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کے پہلے سفر میں ٹھہر چکے تھے؛ لیکن اس بار اس معبد میں جو راہب تھا اس کا نام بحیرا کے بجائے نسطورا تھا جو بڑی گہری نظر سے آپ کے سراپا کا جائزہ لے رہا تھا اطمینان کر لینے کے بعد اس نے میسرہ سے آپ کے بارے میں دریافت کیا میسرہ نے اسے بتا یا کہ یہ مکہ کا ایک قریشی نوجوان ہے تو وہ آپ کے قریب ہو گیا اور فرط عقیدت سے آپ کے سر اور قدمان مبارک کا بوسہ لیا اور کہا: میں آپ پر ایمان لے آیا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کا تذکرہ اللہ نے توریت میں کیا ہے پھر اس نے مہر نبوت دیکھی تو اسے چوم لیا اور کہا :میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول اور وہی نبی امی ہیں جس کی آمد کی بشارت حضرت عیسی علیہ السلام نے دی ہے میسرہ، راہب سے یہ سب کچھ سن کر حیرت زدہ ہوگیا جب یہ قافلہ وہاں سے شام کی طرف کوچ کیا تو راستے میں میسرہ نے یہ منظر دیکھا کہ جب دھوپ کی تمازت بڑھ جاتی ہے تو دھوپ سے بچانے کے لیے بادل آپ پر سایہ کر دیتے ہیں یہ دیکھ کر وہ ورطۂ حیرت میں پڑ گیا۔
شام پہنچ کر حضور علیہ السلام نے حضرت خدیجہ کا سارا مال فروخت کر دیا اور صرف فروخت ہی نہیں کر دیا بلکہ پہلے سے دوگنا نفع حاصل کیا اور فروخت کی قیمت سے شام کی مصنوعات اور مغربی ممالک سے در آمد شدہ تجارتی اشیا بھی خریدیں تاکہ انھیں مکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا جائے اور خریدا ہوا سامان اونٹوں پر لدواکر مکہ کے لیے رخت سفر باندھا جب آپ شہر مکہ سے قریب ہوئے تو خدیجہ جو اپنے بالا خانے پر بیٹھ کر تجارتی قافلہ کی راہ تک رہی تھیں انہوں نے بالا خانہ سے بادل کو آپ پر سایہ کرتے ہوئے دیکھا میسرہ نے ( جو پہلے ہی مکہ پہنچ چکا تھا) حضرت خدیجہ کو بتایا کہ پورے راستے میں میں نے اسی طرح کے مناظر دیکھے ہیں ۔ حضرت خدیجہ جو پہلے ہی آپ کی صداقت اور امانت کی معترف تھیں یہ سب دیکھ اور سن کر مزید قائل ہوگئیں۔
ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ کا نکاح
حضرت خدیجہ نے میسرہ سے آپ کے اخلاق و کردار کی بلندی، حسن سلوک اور معاملہ فہمی کا تذکرہ سن کر آپ کی زوجیت میں آنے کا دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا ۔ حضرت خدیجہ مکہ کی ایک متمول تاجرہ ہونے کے ساتھ ہی ساتھ مکارم اخلاق کا ایک پیکر جمیل بھی تھیں اپنی شرافت،عفت اور پاکدامنی کے باعث عہد جاہلیت میں ہی طاہرہ کے لقب سے ملقب تھیں رحم دلی ،غربا پروری اور سخاوت آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں آپ کے والد خویلد کا شمار اشراف قریش میں تھا اور یہ خود بھی بڑی معزز ،عقلمند،بہادر اور شریف خاتون تھیں حضور علیہ السلام سے نکاح کے پہلے ان کا نکاح ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہواتھا ان کے فوت ہونے کے بعد عتیق بن عائذ سے عقد ہوا پھر یہ بھی فوت ہو گئے- دوسرے شوہر کے انتقال کے بعد مکہ کے رؤسا اور شرفا نے حضرت خدیجہ کو نکاح کا پیغام دیا لیکن آپ نے کسی پیغام کی طرف التفات نہیں کیا جب حضور علیہ السلام شام کے سفر سے واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کا ارادہ بنایا لیکن اس سے پہلے اپنی ایک ہمراز سہیلی نفیسہ بنت منیہ کے ذریعہ آپ کا خیال معلوم کیا جب آپ نے رضا مندی ظاہر کردی تو حضرت خدیجہ نے حضور کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ آپ سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا جسے حضور علیہ السلام نے قبول فرما لیا پھر باہمی مشورہ سے باقاعدہ آپ کے چچا ابو طالب نے حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد سے آپ کے لیے حضرت خدیجہ کا رشتہ طلب کیا خاندان کے بزرگوں سے منظوری ملنے کے بعد مقررہ تاریخ میں قبیلہ مضر کے رؤسا اور معززین مکہ کی موجودگی میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ کا نکاح ہوا آپ کے چچا ابو طالب نے فصاحت و بلاغت سے بھر پور خطبۂ نکاح دیا جس کے جواب میں حضرت ورقہ بن نوفل نے بھی ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا یہ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے نکاح کے وقت آپ کی عمر پچیس/25 اور حضرت خدیجہ کی چالیس/40 سال تھی حضور علیہ السلام کو حضرت خدیجہ سے شدید محبت تھی جب تک یہ با حیات رہیں آپ نے دوسرا نکاح نہیں کیا سوائے حضرت ابراہیم کے آپ کی ساری اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے ہوئی جن کے نام یہ ہیں :
دو صاحبزادے حضرت قاسم ،حضرت عبد اللہ یہ دونوں بیٹے بچپن میں ہی فوت ہوگئے – چار صاحبزادیاں:سیدات رقیہ،زینب،ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھن
ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری نے اپنا دل ،اپنی متاع حیات اپنا سارا اثاثہ یہاں تک کہ اپنا سب کچھ حضور علیہ السلام کے قدموں پر نثار کر دیا۔
کعبہ کی از سر نو تعمیر اور حجر اسود کا جھگڑا
حضور علیہ السلام کی عمر شریف ابھی پینتس/35 سال کی ہوئی تھی کہ اہل مکہ نے کعبہ شریف کی تعمیر نو کا منصوبہ بنایا اس وقت کعبہ شریف کی ہیئت یہ تھی کہ ہر چہار جانب سے انسانی قد و قامت کے برابر ایک چہار دیواری تھی جو پتھر جوڑ جوڑ کر بنائی گئی تھی جس میں گارا بھی نہیں لگایا گیا تھا اور اس کے اوپر چھت بھی نہیں تھی جب قریش نے اس کار خیر کا عزم کیا تو ہر قبیلہ نے اس میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا اور تعمیری ساز وسامان کی فراہمی کے ساتھ ایک کار کن کی طرح سب نے مل جل کر کام کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا حضرت عباس کے ساتھ اس کار خیر میں شریک تھے آپ ان کے ہمراہ اپنے کندھے پر پتھر ڈھو ڈھو کر لا رہے تھے جب پتھروں کی رگڑ سے کندھے پر خراش پڑنے لگی تو اپنے چچا کے کہنے سے آپ نے اپنے تہبند میں پتھر ڈھونا شروع کر دیا ہر چند کہ عربوں کی طرح آپ کی قمیص بھی ٹخنوں تک لٹک رہی تھی پھر بھی ستر کے کھلنے کا امکان برقرار تھا اس لیے اللہ کو یہ گوارا نہ ہوا اور آپ پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی جب ہوش آیا تو آپ نے فورا ہی اپنا تہبند باندھ لیا اور حسب سابق اپنے کندھوں پر پتھرڈھونے لگے یہ کام نہایت خوش گوار ماحول میں آگے بڑھ رہا تھا لیکن جب دیوار حجر اسود تک پہنچ گئی تو اسے دیوار میں نصب کرنے کے معاملہ میں قبیلوں میں شدید اختلاف ہو گیا ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ سعادت ہمارے حصے میں آئے معاملہ اس قدر طول پکڑ گیا کہ وہ لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے لیکن ابو امیہ جو عمر رسیدہ اور ایک جہاں دیدہ شخص تھا اس نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح جو شخص بنو شیبہ کے دروازے سے سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو اس کا فیصلہ قبول کر لیا جائے اس رائے کو مان لیا گیا دوسرے دن صبح کو جو ہستی اس دروازے سے سب سے پہلے داخل ہوئی وہ حضور علیہ السلام تھے یہ دیکھ کر سب نے راحت کی سانس لی آپ نے اس نازک مسئلہ کا ایسا حل پیش کیا جس سے تمام قبائل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی آپ نے فرمایا ہر قبیلہ کے لوگ اپنے اپنے قبیلے سے ایک ایک سردار کا انتخاب کر لیں جب سرداروں کا انتخاب ہو گیا تو آپ نے ایک چادر منگائی اور اسے زمین پر بچھا دیا پھر اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کے بیچ میں رکھ دیا پھر ہر قبیلے کے سرداروں سے چادر اٹھانے کے لیے کہا سب لوگوں نے مل جل کر چادر اٹھائی اور جب اس مقام پر پہونچے جہاں پتھر نصب کرنا تھا تو حضور نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پتھر اٹھا کر مقررہ مقام پر رکھ دیا اس طرح حضور علیہ السلام کی پیغمبرانہ بصیرت اور سیاسی تدبر سے جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے بجھ گئے پھر تعمیر کعبہ کا جو کام تعطل کی نذر ہو گیا تھا وہ آپ کی حکمت عملی سے بحسن وخوبی پائے تکمیل تک پہنچ گیا۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ قریش نے کعبہ کی اس تعمیر میں اپنا وہی سرمایہ لگایا جو انہوں نے کسب حلال سے حاصل کیا تھا اس لیے جب تعمیری ساز وسامان کی قلت ہو گئی تو قریش کے لیے سواے اس کے اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ کعبہ کی اصل بنیادوں سے کچھ حصہ نکال دیا جائے اور نکالے گئے حصہ کی ایک جھوٹی دیوار سے حد بندی کر دی جائے تاکہ طواف کرنے والے پورے کعبہ کا طواف کر سکیں اسی نکالے گئے حصہ کو حطیم کہا جاتا ہے جو شمال کی طرف رکن عراقی اور شامی کے درمیان واقع ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔