ہجرت کا لفظ آتے ہی ذہن میں سب سے پہلے جو بات اُبھرتی ہے وہ ہے’’ ہجرت نبوی‘‘جو اَحکم الحاکمین کے حکم سےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مقدسہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی تھی اور یہ ہجرت اقامت دین کے لیے تھی، چناں چہ اس کے بعد نہ صرف دین اسلام کی بالا دستی قائم ہوئی بلکہ اسلام نے توحیدورسالت اور تصورِ آخرت کے ساتھ انسانیت کا جو پیغام دیا ہے وہ آج بھی تاریخ انسانی میںایک انمٹ نقوش کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس وقت مہاجرین کے ساتھ انصارنےبڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا کہ اپنی دولت میں شریک کرنے کے علاوہ اگر کسی کے پاس چند بیویاں تھیں تو اپنی ایک بیوی سےعلاحدگی اختیارکرلی اورپھراُسےمہاجر بھائی کے نکاح میں دے دیا۔ اخوت ومحبت والا یہ عمل دیکھ کر بعض صحابۂ کرام جو اَب تک مکہ مقدسہ میں تھے ہجرت کرنے لگے تاکہ اُنھیں بھی وہ چیزیں حاصل ہوں جو اَولین مہاجرین کے حصے میں آئی ہیں، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی حقیقت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے اور ہرشخص کو وہی ملے گا جس کی نیت اُس نے کی، اب جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہے اُسے دنیا ہی ملے گی اور جس کی ہجرت کسی خاتون کے لیے ہے، تواُس کی ہجرت عورت اورنکاح کےلیے ہوگی، کیوں کہ اس کی ہجرت اُسی کے لیے ہے جس کے لیے اُس نے ہجرت کی ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث:54)
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخراِس ہجرت کا اصل مقصد کیا تھا؟ میرے خیال میں اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے دنیا کی ہر چیز سے علاحدگی اختیار کی جائے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجو ہجرت فرمائی تھی وہ بظاہر مکہ مقدسہ سے مدینہ منورہ کا ایک سفر تھا۔ لیکن اس ہجرت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے تمام دنیا اور اُس کی چیزوں سے منھ موڑ لیا اور دعوت وتبلیغ اور اقامت دین کے لیے خود کو وقف کردیا۔
یہ حق ہے کہ فتح مکہ کے بعد فرمان نبوی کے مطابق کوئی ہجرت نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب ہجرت کی کوئی معنویت و اہمیت نہیں رہی۔ بلکہ اصل ہجرت آج بھی عام و تام ہے کہ خالص اللہ کی رضا کے لیے تمام دنیوی چیز وںسے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے اور ہر گناہ سے ہجرت (ترک) کرکے صرف اللہ رب العزت کی طرف توجہ کی جائے۔ یہ ہجرت صحابۂ کرام سے لے کر مشائخ عظام تک جاری وساری ہے اور تاقیامت باقی رہے گی۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صراحت فرما دی ہے کہ ’’فتح مکہ کے بعد ہجرت مدینہ کی معنویت نہیں رہی لیکن جہاد نفس اور ترک گناہ کی نیت سے قیامت تک باقی رہے گی۔ جب بھی دین کی سر بلندی کے لیے ہجرت کی ضرورت پڑے تو تم ضرور ہجرت کرو۔ (سنن ترمذی، حدیث:1590)
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہجرت دو طرح کی ہیں: ایک گناہوں کو ترک کردیا جائے اور دوسرا اللہ ورسول کی طرف ہجرت (توجہ) کی جائے۔ کیوں کہ جب تک توبہ کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اُس وقت تک ہجرت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا اور توبہ اُس وقت تک مقبول ہوتی رہےگی جب تک کہ سورج مغرب سےطلوع نہ ہوجائے۔ (مسند احمد، حدیث:1671)
اِس کے علاوہ بھی ہجرت کی مختلف صورتیں ہیں جیسے:
1۔ اگر کسی مقام پر دعوت دین، تعمیراِنسانیت، اقامت دین، دین پر عمل اور صالح معاشرے کی تشکیل کا موقع نہ مل رہا ہو تو وہاں سے ایسے مقام کی طرف ہجرت کی جائے جہاں ان مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔
2۔ بندہ ان تمام چیزوں سے رک جائے جن سے اﷲ اوراُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےمنع فرمایا ہے ۔
3۔ طلب دین و تزکیہ نفس کے لیے احباب ووطن سے دور مدرسہ و خانقاہ، استاذ و مرشد کی تلاش میں جانا اور مل جائے تو وہاں رہ کر طلب دین و تزکیہ حاصل کرنا۔
4۔ دین میں کامل ومکمل ہوجانے کے بعد شیخ کی اجازت سے عوام وخواص کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کے لیے سفر کرنا اور جہاں جیسی ضرورت ہو وہاں جانا۔
لیکن سردست ہجرت کی آخرالذکرپر گفتگو کریں گے، کیوں کہ دینی تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے صالحین و صادقین کی بارگا میں جانا اور کامل و مکمل ہوجانے کے بعد عوام وخواص کی تربیت وتزکیہ کے لیے احباب واقارب اور وطن محبوب سے دوری اختیارکرلینے پرصرف صحابۂ کرام کا عمل نہیں رہا ہے بلکہ اسلاف صلحا ومشائخ عظام نے بھی اِس پر سختی سے عمل کیا ہے اور دعوت وتبلیغ کی شمعیں ہمیشہ روشن کی ہیں۔
اِن ہی میں ایک اہم نام خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہٗ (ولادت:537ھ/1139ء) کا بھی ہے جنھوں نے پندرہ سال کی عمر سے ہی اِس راہ میں قدم رکھ دیا تھا۔ منقول ہے کہ والدین کریمین کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوجانے کے بعد بطورترکہ صرف ایک پن چکی اور ایک باغ ملا، لیکن حضرت ابراہیم قندوزی قدس اللہ سرہٗ نے جب آپ کے دل میں عشق حقیقی ایسا صور پھونک دیا تو آپ نے نہ صرف اپنا سارا مال واسباب اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ بلکہ تمام دنیا سے کنارہ کش ہوکرتزکیہ نفس کے لیے ایک مرشد برحق کی تلاش میں نکل پڑے اور ایسے نکلے کہ اسی راہ حق میں اپنی تمام عمرتمام کردی۔
سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ جب ’’نیشاپور‘‘ کے ایک قصبہ ’’ہرون‘‘ پہنچے، تو وہاں اُن کی ملاقات شیخ کامل خواجہ عثمانی ہارونی قدس سرہٗ سے ہوئی۔ اُنھوں نے پہلی ہی ملاقات میں بیعت سے نوازا، اورپھر ڈھائی سال بعد اِجازت وخلافت بھی عطا کردی۔ تقریباً بیس سال تک مرشد گرامی خواجہ ہارونی نے مختلف دعوتی وتبلیغی سفر میں اپنے ساتھ رکھا۔ اِس درمیان مرشد گرامی نے حقیقت ومعرفت کی وہ سیر کرائی کہ اپنے وقت کےعظیم مشائخ کرام بھی اُن کی نگاہ کرم کے محتاج نظر آنے لگے۔ پھر شیخ ہارونی کی اجازت سے مختلف مقامات کا سفر کیا اور اپنے وقت کےعظیم مشائخ سے فیضیا ب ہوئے۔
جب مرشد گرامی خواجہ عثمان ہارونی حج کے سفر پر روانہ ہوئے، تو سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کو بھی اپنے ساتھ لیتے گئے اور یکے بعد دیگرے بارگاہِ الٰہی اور بارگاہ نبوی میں اُنھیں پیش کیا، چناں چہ دونوں بارگاہوں سے خواجہ ہند کو شرف قبولیت کا مژدہ سنایا گیا۔ پھر ایک دن بارگاہ نبوی سے ہندوستان کی ولایت کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہدایت کی گئی کہ ہندوستان چلے جاؤ، چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے ہی آپ نے ملک ہندوستان کا رخ کیا اور ہرات، بلخ، افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے اور سال 588ھ /1190ء کو شہرلاہورمیں قدم رکھا۔ وہاں حضرت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش قدس سرہٗ کے مرقد انور پر دوماہ تک عبادت وریاضت میں مشغول رہے۔ پھر جالندھر ہوتے ہوئے دہلی کا رخ کیا اور قطب الدین ایبک کے عہد میں چالیس نفوس قدسیہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے۔ دہلی میں کچھ دن قیام کے بعد اجمیر کے لیے کوچ کیا اور 10؍ محرم سنہ 591ھ /1179ء کو اجمیر قدم رنجہ فرمایا اوراسی مقام پر سال 633-635ھ / 1235ء میں اُن کا وصال ہوا۔
اِس طرح دیکھا جائے تو سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ نے اپنی چھیانوے (96) سالہ زندگی میں سے اکیاسی (81) سال مہاجرانہ زندگی بسر فرمائی، مثلاً: اِنھوں نے اپنا گھربار، دھن دولت، احباب واقارب اور وطن سب کچھ خالص اللہ رب العزت کی محبت میں اور اس کی رضا وخوشنودی کے لیے ترک کردیا۔ اُن کا یہ عمل ہم سب کےلیے قابل عبرت ہےکہ ہم سبھی لوگ خواجہ صاحب سے عقیدت ومحبت کا دم بھرتے ہیں، اُن کے نام پر محفلیں سجاتے ہیں اور اُن کے نام پر غربا ومساکین میں صدقات وخیرات بھی کرتے ہیں لیکن کیا کبھی اِس پہلو پرغورکرتے ہیں کہ اُنھوں نے ہجرت کی اپنے گناہوں سے، اپنی انا نیت سے اوراپنی نفسانی خواہشات سے، لہٰذا ہم بھی اِن تمام باتوں سے ہجرت کریں۔ پھراُنھوں نے ہجرت کی طلب دین، تزکیہ نفس اور دعوت وتبلیغ کے لیے، لہٰذا ہم بھی اِن تمام باتوں کے لیے ہجرت کریں۔ لیکن اگر یہ ہم سے نہ ہوسکے تو کم سے کم اپنے کسی قریبی صالح یا عالم ربانی کی صحبت میں ہی زندگی کا کچھ نہ کچھ لمحہ ضرور گزاریں۔ غرض کہ اِس پہلو پرعوام الناس بالعموم اور خواص الناس ( علما وفضلا اور مشائخ) بالخصوص سنجیدگی سے غور کریں اور حیات خواجہ کو اَپنے لیے آئینہ بنائیں۔ کیوں کہ سلطان الہندخواجہ غریب نواز سے عقیدت و محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سبھی اُن کی مہاجرانہ زندگی کے نور سے اپنی خزاں رسیدہ حیات میں بہارجاوداں پیدا کریں اوراَپنےایمان وایقان کو جلا بخشیں۔