ذکر آمد مصطفیٰ اورجلوس محمدی کو کس طرح مفید بنائیں
دنیا میں شاید ہی کوئی فرد اَیسا ہوجو ذکر آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہو یا اُسے بُرا جانتا ہو۔ البتہ! بعض اَفراد ذِکرمصطفیٰ کے طور-طریقے میں کچھ کلام کرتے ہیں۔ اِسی طرح بعض افراد ذِکرآمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں مروج طور-طریقےکو وجوب کا درجہ دینے لگتے ہیں کہ اگر کوئی اُس مروج طور-طریقے کو اِختیار نہیں کرتا تو وہ اُسے بُرا خیال کرتے ہیں اور اُس کی محبت وعشق رسول میں شک کرنےلگتے ہیں، ہمارے خیال سے اِس طرح کے تمام تر خیالات ونظریات غلوآمیزی اور تشددپسندی کے مظاہر ہیں۔بنیادی طورپر دیکھا جائے تو ذِکرآمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل بس اتنی سی ہے کہ اُس کی محفلیں منعقد کی جائیں اور اُس کے لیے ہر وہ مروج طور-طریقے اختیار کیے جائیں جن سے دین پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اور نہ ہی سماج کے کسی طبقے کو تکلیف پہنچے اور نہ ہی کوئی بدظنی کا شکار ہو۔ یہاں یہ ضرور خیال رہے کہ کوئی بھی طور-طریقہ محض کسی طبقہ اور گروہ کی پسندوناپسند کے سبب جائز وناجائز نہیں ہوتا بلکہ اُس کے لیے لازم ہےکہ اُس کے عدم جواز پر قانونی یا پھرشرعی شواہد موجود ہوں۔ ورنہ محض کسی طبقہ اور گروہ کی پسندوناپسند کا اعتبار کیا جائے تو عام اِنسان کا جینا دوبھر ہوجائےگا اور آزادی جو ایک انسان کا بنیادی حق ہے اُس سے وہ محروم ہوجائےگا۔ پھر یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ذکرآمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلوں کے سلسلے میں جتنے بھی طور-طریقے اختیار کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب مباح و مستحب ہیں، فرض یا واجب نہیں۔ اِس سلسلے میں ایک بات یہ بھی واضح رہے کہ بعض افراد ذکروفکر کی محفلوں پر کثرت سے ہونے والے اخراجات کو اِسراف خیال کرتے ہیں تو اَیسے افراد کو یہ ازبر رکھنا چاہیے کہ ’’خیرکے کاموں میں کوئی اِسراف نہیں،چاہے جتنا خرچ کیا جائے۔ البتہ! خیر کے علاوہ خرچ کیا جانا اِسراف ہےاگرچہ ایک آنہ ہی کیوں نہ خرچ کیا جائے۔ لہٰذا ذِکرآمدمصطفیٰ کی محفلیں سجانا اور اِس سلسلے میں مال ودولت خرچ کرنا اِسراف نہیں بشرطیکہ اُس میں کسی نام ونمود اور بڑکپن کا اظہار مقصود نہ ہو۔ کیوں کہ نام ونمود تو فرائض میں بھی ناپسندیدہ امر ہے۔ پھر اگر کہیں کوئی ذکرآمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلیں کی جاتی ہیں تو اُنھیں ایک نظام کے تحت لایا جائے کہ سیرت کی پاکیزہ محفلوں کو بے ہنگم مقررین کے حوالے نہ کیا جائے اور نہ ہی ان پاک محفلوں کو بازارو اور گویے قسم کے شعرا کے سپرد کیا جائے بلکہ بالخصوص اِس موقع پر سیرت کی محفلوں میں سنجیدہ اور سلجھے ہوئے خطبا و شعرا کو ہی مدعو کیا جائے تاکہ وہ عوام الناس کوسیرت نبوی سے کچھ بہترچیزیں دے سکیں اور اُس کی صلاح وفلاح کے لیے راستے ہموار کرسکیں۔ مزید انعقاد محفل کے سلسلے میں وقت کا لحاظ بھی ضرور رکھیں۔ ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خطبا اچھے ہوتے ہیں لیکن صحیح وقت پر وہ عوام الناس نہیں ہوپاتے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے بیانات بے سود اور رائیگاں ثابت ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بھی کوشش کریں کہ خطبا کو متعین اور اصلاح پسند موضوع دیا جائے اور تاکیدی طور پر متعین موضوع پر بیانات کو ممکن بنایا جائے۔
اس کے علاوہ ذکرآمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر آج کل بالعموم ہرعلاقے اور ہرشہر میں جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے، اچھی بات ہے کہ اظہارِ خوشی کا یہ بھی ایک عمدہ طریقہ ہے لیکن ضرورت اِس بات کی ہے کہ جلوس محمدی کو بہرصورت تمام طرح کے خرافات اور غلط رسومات سے پاک رکھا جائےاور جلوس محمدی کو دنیوی جلوس کے مشابہ بالکل نہ بنایا جائے، یعنی جلوس میں کسی بھی طرح کی اُودھم بازی شامل نہ ہو، نوجوان بالخصوص اشتعال انگیزی سے پرہیز کریں، کسی بھی طرح کا شوروغوغا ہرگزنہ ہونے دیں، کوئی بھی ایسا عمل انجام نہ دیں جس سے دین محمدی کی شبیہ خراب ہو اور زُورآزمائی کے نشے میں نبوی تعلیمات کو کبھی بھی فراموش نہ ہونے دیں، بلکہ ایسے موقع پر فتح مکہ کا وہ دن یاد رکھیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کی پیشانی جھکی ہوئی، تاکہ مفتوح قوم کے دل میں خوف وہراس کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ اس موقع پر کسی ایک صحابی نے جب یہ نعرہ مارا کہ ’’آج انتقام کا دن ہے‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’نہیں! بلکہ آج عام معافی کا دن ہے۔‘‘
چناں چہ موجودہ عہد کا جائزہ لیں اور اَپنی عقل وہوش کے ساتھ شعوراِسلامی کے نور سے اپنے اندرون خانہ کو منور کریں، تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں کہ آج کل جلوس محمدی کو ایک مؤثر تبلیغی آلہ کے طور پر اِستعمال کیا جاسکتا ہے اور جس عظیم ہستی کی یاد میں جلوس کا اہتمام کیا جارہا ہے اُس کی عملی اور معاملاتی تعلیمات واُصول سے انسانی برادری کو بخوبی آگاہ بھی کرایا جاسکتا ہے۔ وہ یوں کہ آغاز جلوس سے پہلے ایک لائق وفائق دیندار اَمیر اور نائب امیر متعین کرلیاجائے اور جلوس کہاں تک جانا ہے اُس کی بھی تعیین کرلی جائے، اِس سلسلے میں حکومتی سطح پر اگر اِجازت کی ضرورت ہو تو وہ بھی حاصل کی جائے، تاکہ قانونی طورپر کوئی دقت نہ ہو اَور قانون کی حمایت حاصل رہے۔ پھر جلوس محمدی کے دوران اَمن و آشتی کے اُصول کی مکمل پابندی کی جائے۔ احتیاطاً جلوس کے چاروں طرف چاق وچوبند نگراں متعین کیے جائیں تاکہ شرپسند عناصر جلوس کے بےداغ شبیہ کو داغدار نہ کرسکیں۔ خرمستوں کو جلوس میں ہرگز ہرگز شامل نہ ہونے دیا جائے اور گانے بجانے کے ساتھ کسی بھی سطح پر شوروغوغاکی قطعی اجازت نہ دی جائےکہ ایک تو یہ شرعاً سخت ممنوع ہے اور دوسرے بدنظمی کےاصل محرک یہی چیزیں ہوتی ہیں۔ نیز دوران جلوس کوئی بھی ایسے اعمال انجام نہ دیے جائیں جو غیراخلاقی اور غیرقانونی ہوںیا وہ تعلیمات نبوی کے سراسر خلاف ہوں۔ لاؤڈ اسپیکر اُسی قدر آواز کے ساتھ اِستعمال کیا جائےکہ سننے والوں پر گراں نہ گزرے اور جس کی آواز اِنسانی دلوں کو چھو جائے۔ ہلکے سُر اور خوش گلو آواز میں بلیغ ومعنی آفریں نعتیہ کلام ہی عوام الناس کو سنایا جائےاور بے ہنگم نعرہ بازی کو ہرگز روا نہ رکھا جائے، بلکہ اگر نعرہ لگایا بھی جائے تو اِس طور پر لگے کہ سننے والے کو اَچھا اور بھلا لگے اور اِسم جلالت و اِسم رسالت کی برکت ورحمت سے راہ گیروں کو بھی ایک خاص حصہ حاصل ہو اَور وہ جہاں بھی جائے ایک سبق اور عبرت لے کر جائے۔ اس کے علاوہ ٹریفک نظام کا خاص خیال رکھا جائے۔ ایڈمنسٹریشن دستہ کا ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ اگر وہ نگرانی پرتعینات ہیں تو اُس کے لیے عمدہ ریفریشمنٹ کا انتظام کیا جائے۔ جن خاص مقامات پر وقفہ کرنا ہو، وہ پہلے ہی سے متعین کرلیے جائیں تاکہ جلوس کسی بھی طرح کی افراتفری کا شکار نہ ہونے پائے اور جہاں پر وقفہ ہو، وہاں دس منٹ انسانی برادری کے افادے کے پیش نظر سیرت سے متعلق کچھ بیان کیا جائے اور بالخصوص ایسے ایسوز پر ہی خطاب وتقریر ہوکہ جس میں یاایہا الناس کے تحت سبق آموز باتیں زیادہ ہوں وغیرہ، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اِن شاءاللہ قدرت کا جو پیغام ہمارے ذمے ہے وہ آسانی سے عوام الناس تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اللہ نے ہمیں کتاب و حکمت عطا فرمائی ہے تو ہمیں اپنے پیغام اورکتابی تعلیمات کو معقول اور جدیدحکمت کے ساتھ ضرور اِستعمال میں لانا چاہیے۔ ورنہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھی سے اچھی اور مفید سے مفید تر باتیں بھی ہوا میں اُڑا دی جاتی ہیں۔