اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ چودہویں صدی کے مجدد اور امام تھے۔ ۱۰/ شوال ۱۲۷۲ھ /۱/ جون 1856ء کو بریلی (یوپی) میں پیدا ہوئے اور 25/ صفر 1340ھ /1921ء کو اس دنیائے فانی سے عالم ِجاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ اڑسٹھ (68) سالہ مختصر عمر میں آپ نے احیاو تجدید دین کے جو کارہائے نمایاں انجا م دیے، دنیائے علم وادب انگشت بدنداں ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے اپنے دور میں پائی جانے والی تمام خلاف سنت روایات کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔ اور تمام بدعات و خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا،اعلیٰ حضرت امام احمدر ضا محدث بریلوی قدس سرہ نے اپنے عہد میں جن اصلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہنایا ہے ان کو اختصار کے ساتھ ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
شریعت وطریقت: بعض جھوٹے صوفی شریعت و طریقت میں تفریق کرتے ہیں تاکہ ان کو کھل کر بدعملی بلکہ بے عملی کا موقع مل جائے۔ ان کا رد کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:”شریعت تمام احکام جسم و جان و روح وقلب اور جملہ علوم الہٰیہ و معارف نا متنا ہیہ کو جامع ہے جن میں سے ایک ٹکڑے کا نام طریقت و معرفت ہے …… و لہٰذا با جماع قطعی جملہ اولیائے کرام تمام حقائق کو شریعت مطہرہ پر عرض (پیش) کرنا فرض ہے، اگر شریعت کے مطابق ہوں حق و مقبول ہیں ورنہ مردو دو مخذول۔(تفصیل کے لیے ”مقال عرفا باعزازِ شرع و علما“ کا مطالعہ کریں، مذکورہ قول اسی کتاب سے ماخوذ ہے)۔
بے ثبوت کافرکہنا سخت گناہ:بعض لوگ معمولی معمولی بات پرکفرو شرک کا حکم لگادیتے ہیں، ایسوں کے بارے میں فرماتے ہیں، بجز ثبوت وجہِ کفر کے مسلمانوں کو کا فر کہنا سخت گناہ ِ عظیم ہے بلکہ حدیث میں فرمایا کہ وہ اسی کہنے والے پر پلٹ آتا ہے،…… (احکام شریعت حصہ سوم) ۔
کفار کے میلوں میں جانا:ہندو ؤںکے میلوں جیسےدسہرہ وغیرہ میں جانے کی بابت فرمایا …… ان کا میلہ دیکھنے کے لیے جانا مطلقاً نا جائز ہے، …… اور اگر تجارت کے لیے جائے اگر میلہ ان کے کفر وشرک کا ہے جانا، نا جائز و ممنوع ہے کہ اب وہ جگہ ان کا معبد (مندر) ہے اور معبد کفار میں جانا گناہ۔ اور اگر (میلہ) لہوولعب کا ہے تو خود اس سے بچے نہ اس میں شریک ہونہ اسے دیکھے نہ وہ چیزیں جو ان کے لہو و لعبِ ممنوع کی ہوں بیچے توجائز ہے پھر بھی مناسب نہیں کہ ان کا مجمع ہے، ہر وقت محلِ لعنت ہے تو اس سے دوری ہی میں خیر، اور اگرخود شریک ہو یاتما شا دیکھے یا ان کے لہوممنوع، کی چیزیں بیچے تو آپ ہی گناہ و نا جائز ہے۔ (عرفان شریعت اول، ص 27-28)
شرافت قوم پر منحصر نہیں:بہت لوگ اپنی قوم اور برادری پر فخر کرتے ہیں اور اس شرافت ِعرفی کو بنیاد بناکر دوسرے مسلمان بھائیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں، اعلیٰ حضرت قدس سرہ اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں:”شرع شریف میں شرافت قوم پر منحصر نہیں، اللہ عزوجل فرماتاہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتٰقاکُمْ تم میں زیادہ مرتبے والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ رکھتا ہے …… ہاں! دربارہ ء نکاح اس کا ضرور اعتبار رکھا ہے“ ۔ (فتاویٰ رضویہ پنجم، ص 295)
عورتوں کا مزارات پر جانا:عورتوں کے مزارات اولیا اور عام قبروں پر جانے کے بارے میں سوالات کے جواب میں ارقام فرمایا:”عورتوں کے مزارات اولیا، مقابر عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے“۔ (احکام شریعت دوم، ص 18)اَصَح (زیادہ صحیح) یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ج۴، ص165)
طاقوں پر شہید مرد:بعض لوگ کہتے ہیں فلاں درخت پر شہید مرد ہیں، فلاں طاق میں شہید مرد رہتے ہیں اور اس درخت اور اس طاق کے پاس جاکر ہر جمعرات کو چاول شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلاتے ہیں ہار لٹکاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں،…… اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:یہ سب واہیات خرافات اور جاہلانہ حماقات و بطالات ہیں، ان کا ازالہ، لازم الخ (احکام شریعت اول، ص 13)
محرم و صفر میں نکاح:عرض کیا گیا۔ کیا محرم و صفر میں نکاح کرنا منع ہے؟ …… تو ارشاد فرمایا: نکاح کسی مہینہ میں منع نہیں۔ یہ غلط مشہور ہے۔ (الملفوظ اول، ص 36)
قرآن خوانی پر اجرت:ثواب رسانی کی نیت سے قرآن مجید پڑھ کر اس پر اجرت لینا اور دینا جائز ہے یا نہیں؟۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:ثواب رسانی کیلئے قرآن عظیم پڑھنے پر اجرت لینا اور دینا دونوں ناجائز۔(فتاویٰ رضویہ، ج۴،ص 218)
درود میں اختصار:متعدد فتاوے میں درود شریف صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وغیرہ صیغوں کی جگہ ۔ صلعم۔ ع وغیرہ لکھنے کو نا جائز و بدعت فرمایا۔ایک سائل نے سوال میں ایسا اختصار لکھا تو اس کو تنبیہ فرمائی کہ:سائل کو جوابِ مسئلہ سے زیادہ نا فع یہ بات ہے کہ: درود شریف کی جگہ جو عوام و جُہّال صلعم، یا ع یام یا ص یا صللم لکھا کرتے ہیں محض مہمل و جہالت ہے۔ اَلْقَلَمُ اِحْدی اللسانین (قلم بھی ایک زبان ہے)جیسے زبان سے درود شریف کے عوض مہمل کلمات کہنا درود کو ادانہ کرے گا یوں ہی ان مہملات کا لکھنا درود لکھنے کا کام نہ دے گا ایسی کو تاہ قلمی سخت محرومی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،۴/54)
بزرگوں کی تصویریں:تصویریں جاندار کی ناجائزہیں اگر بزرگوں کی تصویر یں بنائی اور لگائی جائیں اور زیادہ نا جائز اور گناہ، جہالت سے بعض لوگ بزرگوں کی تصاویر تعظیم کے طور پر آویزاں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا، حالاں کہ حکم ایسا نہیں اس قسم کے سوالات کے جواب میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے متعدد رسائل تحریر فرمائے، مثلاً: (۱) عطا یا القدیر فی حکم التصویر (۲) شفاء الوالہ فی صورالحبیب و مزارہ ونعالہ، (۳) بدرالانوار فی آداب الآثار۔
مقابر مسلمین کے آداب:آج کل مسلم قبرستانوں کی بے حرمتی عام ہے، اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے مقابر مسلمین سے متعلق سوالات ہوے تو ارشاد فرمایا:قبروں پر چلنے کی ممانعت ہے نہ کہ جوتا پہننا کہ سخت توہین اموات مسلمین ہے ہاں جو قدیم راستہ قبرستان میں ہو جس میں قبر نہیں اس میں چلنا جائز ہے، اگر چہ جوتا پہنے ہو۔ قبروں پر گھوڑے باندھنا، چار پائی بچھانا، سونا بیٹھنا سب منع ہے،(فتاویٰ رضویہ، ۴/107)
فرضی قبروں کا حکم:فرضی اور مصنوعی قبر کے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا: قبر بلا مقبور کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال (چادریں چڑھانا وغیرہ) کرانا گناہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،۴/115)
قبر کا طواف اور بوسہ:بلا شبہہ غیر کعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے، اور بوسہئ قبر میں علما کو اختلاف ہے، احوط (زیادہ احتیاط) منع ہے، (احکام شریعت، ۳/۳ وفتاویٰ رضویہ، ۴/۸)
دعوتِ میت:کسی کے مرنے کے بعد سوم چہلم وغیرہ میں جو عام دعوت ہوتی ہے، اس پر سخت نکیر کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے مستقل ایک رسالہ تصنیف فرمایا، ”جلیُّ الصوت لنھی الدعوۃ اَمامَ الموت“ جو دعوتِ میت، کے نام سے شائع ہے، اس میں اور دیگر فتاوے میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اس کی ممانعت کی ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں۔”مردہ کا کھانا صرف فقرا کے لیے ہے، عام دعوت کے طور پر جو کرتے ہیں یہ منع ہے، غنی (مالدار) نہ کھائے۔ (احکام شریعت دوم، ص 16)
سیاہ خضاب:سوال ہو اکہ سیاہ خضاب لگانا جائز ہے یا نہیں۔ تو ارشاد فرمایا:سرخ یازرد خضاب اچھا ہے اور زرد بہتر، اور سیاہ خضاب کو حدیث میں فرمایا: ”کافر کا خضاب ہے۔“ دوسری حدیث میں ہے۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کا منہ کالا کرے گا یہ حرام ہے۔ جواز کا فتویٰ باطل و مردود ہے، (احکام شریعت،۱/72)
آخری چہار شنبہ:ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کی نسبت جویہ مشہور ہے کہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس میں غسل صحت فرمایا اسی بناپر تمام ہندوستان کے مسلمان اس دن کو روز عید سمجھتے اور غسل و اظہار فرح و سرور کرتے ہیں، شرع مطہر میں اس کی اصل ہے یا نہیں؟، اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:یہ محض بے اصل ہے، (عرفان شریعت،۲/ 37)
پیر سے پردہ:بہت سے پیر مریدہ عورتوں سے پردہ نہیں کرتے، اس سلسلے میں امام احمد رضا قدس سرہ سے سوال ہوا تو جواب دیا:بیشک ہر غیر محرم سے پردہ فرض ہے، جس کا اللہ و رسول نے حکم دیا ہے جَلّ جلا لُہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم،بیشک پیر مریدہ کا محرم نہیں ہو جاتا نبی علیہ الصلاۃ و السلام سے بڑھ کر امت کا پیر کون ہوگا؟ اگرپیر ہونے سے آدمی محرم ہوجاتا تو چاہیے تھا کہ نبی سے اس کی امت سے کسی عورت کا نکاح نہ ہوسکتا۔ (مسائل سماع، مطبوعہ لاہور، ص 24)
ضروریاتِ دین کے منکر کا حکم:فی الواقع جو بدعتی (بد مذہب) ضروریاتِ دین میں سے کسی شئے کا منکر ہو با جماعِ مسلمین قطعاً کا فر ہے اگر چہ کروڑ بار کلمہ پڑھے، پیشانی اس کی سجدے میں ایک ورق ہوجائے بدن اس کا روزوں میں ایک خاکہ رہ جائے، عمر میں ہزار حج کرے لاکھ پہاڑ سونے کے راہ خدا میں دے…… لاواللہ، ہرگز ہرگز کچھ قبول نہیں، جب تک حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تمام ضروری باتوں میں جو وہ اپنے رب کے پاس سے لائے تصدیق نہ کرے، (اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام،مطبوعہ بریلی 1345ھ، ص 15)
انگریزی پڑھنا:آپ سے سوال ہوا۔ انگریزی پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔ جواباً ارشاد فرمایا:”ذی علم مسلمان اگر بہ نیت رد نصاریٰ انگریزی پڑھے اجرپائے گا اور دنیا کے لیے صرف زبان سیکھنے یا حساب اقلیدس جغرافیہ جائز علم پڑھنے میں حرج نہیں بشرطے کہ ہمہ تن اس میں مصروف ہو کر اپنے دین و علم سے غافل نہ ہوجائے ورنہ جو چیز اپنا دین و علم بقدر فرض سیکھنے میں مانع آئے حرام ہے، اسی طرح وہ کتابیں جن میں نصاریٰ کے عقائد باطلہ مثل انکار و جود آسمان وغیرہ درج ہیں اُن کا پڑھنا بھی روا نہیں“ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم اول، ص۹۹، مطبوعہ بیسل پور)