سلطان صلاح الدین ایوبی: ایک عہد ساز شخصیت
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی شخصیت اسلامی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش مقام رکھتی ہے- آپ کی زندگی کا ہر لمحہ جہاد مسلسل سے عبارت تھا- آپ نے دین مبین کی سربلندی، کفر سے جہاد اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے انتھک جد وجہد کی اور الله رب العزت نے آپ کو آپ کے ارادے میں کامیاب فرمایا- حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کا تعلق ،،کرد،، قوم سے تھا جو ملک شام عراق اور ترکی کی جنوبی سرحدوں میں پائی جاتی ہے- آپ کے والد ماجد حضرت نجم الدین ایوب مشرقی آذربائجان کے ایک گاؤں ،،ودین،، کے رہنے والے تھے- بعد میں وہ ملک شام آکر عماد الدین زنگی کی فوج میں شامل ہوگیے- ان کے بھائی اسد الدین شیر کوہ بھی ان کے ساتھ تھے دونوں حضرات نے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر نمایاں ترقی کی- نجم الدین ایوبی کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے بھی ترقی کے راستے ہموار ہو گئے- سلطان نور الدین زنگی نے ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے مصر کی فتح کے لیے انہیں اسد الدین شیر کوہ کا دست راست بنا کر روانہ کیا- مصر پر قبضہ کے کچھ عرصہ بعد جب شیر کوہ نے وفات پائی تو نور الدین زنگی کے نائب کی حیثیت سے حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر کی حکومت سنبھالی 559/ ہجری میں سلطان نور الدین زنگی کی وفات کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی مصر کے خود مختار حاکم بن گئے۔بعد ازاں حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے دمشق اور شام کی چند دیگر چھوٹی چھوٹی کمزور مسلم ریاستوں کو بھی اپنی تحویل میں لے کر ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی جو صلیبی حکمرانوں کی متحدہ طاقت کا مقابلہ کرنے اور انہیں اسلامی مقبوضات سے نکالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی-
اس سے قبل سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی زندگی ایک عام سپاہی کی سی تھی مگر حکمران بنتے ہی ان کی طبیعت میں عجیب تبدیلی پیدا ہوگئی- سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے راحت و آرام سے منہ موڑ لیا اور محنت ومشقت کو اپنے اوپر لازم کرلیا- آپ کے دل میں یہ خیال جم گیا کہ الله رب العزت کو ان سے کوئی بڑا کام لینا ہے جس کے ساتھ عیش و آرام کا کوئی جوڑ نہیں- آپ اسلام کی نصرت وحمایت اور جہاد فی سبیل الله کے لیے کمر بستہ ہو گئے- ارض مقدس کو صلیبی جنگجووں کے وجود سے پاک کرنا انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا-
مؤرخین لکھتے ہیں: حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ ایک ایسے عظیم حکمران تھے جو میدان جنگ میں قہر برپا کرنے والے اور ایک بہادر جنگجو تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ وہ ایک رحم دل انسان بھی تھے- آپ نمازِ پنجگانہ کے پابند اور نفلی عبادت گزار، آپ نے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی اور نہ قضا کی- آپ کے ساتھ ہمیشہ ایک امام موجود ہوتے اور اگر کوئی امام نہ ہوتا آپ کسی عالم دین کے پیچھے نماز ادا فرما لیا کرتے تھے جو وہاں موجود ہوتے تھے-
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے ساری زندگی جو کچھ کمایا اس کا بیشتر حصہ صدقہ وخیرات میں خرچ کر دیا آپ کبھی اتنی دولت جمع نہیں کر پائے کہ زکوٰۃ ادا کرتے- حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کی ایک خواہش تھی کہ وہ حج ادا کریں لیکن وہ جہاد میں اس قدر مصروف رہے کہ ان کے پاس اتنی رقم ہی جمع نہیں ہوسکی، نہ وہ حج ادا کرسکے آپ حج کئے بغیر ہی انتقال فرما گئے- آپ ہر پیر اور جمعرات کو ایک مجلس منعقد کیا کرتے تھے جس میں بیٹھ کر عوام کی فریاد اور تکالیف کو سنا کرتے تھے- آپ کی اس مجلس میں قانون داں، قاضی صاحبان اور عالم دین بھی شرکت کرتے تھے- سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کی مدد کرنے میں کوتاہی نہیں برتی، آپ نے کبھی کسی سے بد کلامی نہیں کی اور نہ ہی اپنی موجودگی میں کسی اور کو کرنے دی، اپنی پوری زندگی میں آپ نے کبھی کوئی تلخ بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی مسلمان کے خلاف اپنے قلم اور تلوار کو استعمال کیا- جب بھی کوئی یتیم سلطان کے دروازے پر آیا آپ نے بہت ہی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اور ان کو اپنے مال سے حصہ بھی دیا کرتے تھے- حضرت نور الدین زنگی علیہ الرحمہ کی طرح آپ کی زندگی بھی بڑی سادہ تھی، ریشمی اور قیمتی لباس آپ نے کبھی استعمال نہیں کیے اور رہنے کے لیے محل کی جگہ معمولی سا مکان ہوتا تھا-
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے ملک قاہرہ پر قبضہ کرنے کے بعد فاطمی حکمرانوں کے محلات کا جائزہ لیا تو وہاں بے شمار جواہرات اور سونے چاندی کے برتن جمع تھے آپ نے یہ ساری چیزیں اپنے قبضے میں لانے کے بجائے بیت المال میں داخل کرا دیں- محلات کو عام استعمال میں لایا گیا اور ایک محل میں عظیم الشان خانقاہ قائم کی گئی- فاطمیوں کے زمانے میں مدارس قائم نہیں کئے گئے تھے ملک شام میں حضرت نور الدین زنگی علیہ الرحمہ کے زمانے میں مدارس اور شفا خانے قائم ہوئے لیکن مصر اب تک ان چیزوں سے محروم تھا حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے یہاں کثرت سے مدارس اور شفا خانے قائم کئے اور ان مدارس میں طلباء کے قیام وطعام کا انتظام سرکار کی طرف سے ہوتا تھا- ( تاریخ اسلام)
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی جہاد سے پرمشقت زندگی اور مسلسل بے آرامی نے سلطان کو مریض بنا دیا تھا- مرض کی شدت میں ماہ رمضان المبارک کے کئی روزے آپ کے قضا ہوگئے مگر آپ نے جہاد کو ترک نہیں کیا اس کے بعد جو موقع ملا تو اس میں قضا روزے ادا کرنا شروع کر دیے- معالج نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی تکلیف کا لحاظ کرتے ہوئے سلطان کو اس سے منع کیا مگر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله علیہ نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے فرمایا: ،،معلوم نہیں آئندہ کیا ہو،، چناچہ آپ مسلسل روزے رکھتے رہے اور اپنی قضا کا پورا کفارہ ادا کردیا- اس قضا میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله علیہ نے شہر پناہ کی مرمت کروائی، خندق کھدوائے، جدید اوقاف قائم کئے اور پھر بیت المقدس کا نظام امیر عزالدین جزء کے سپرد کر کے دمشق روانہ ہوگئے- تاریخ بتاتی ہے کہ اس سال سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله علیہ نے اپنی کمزوری اور نقاہت کے باوجود دمشق سے باہر آکر حج حرمین الشریفین سے لوٹنے والوں کا گرم جوشی اور پرتپاک انداز سے استقبال کیا- سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله علیہ اگلے سال خود بھی حج کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن وسط صفر المظفر میں مرض شدت اختیار کر گیا اور وصال سے تین روز قبل غشی کی حالت طاری ہو گئی- معلوم ہوتا تھا کہ بیس سال کا تھکا ماندہ مجاہد تکان اتار رہا ہے- 27/ صفر المظفر 589/ ہجری کی صبح کا ستارہ افق نمودار ہوا تو حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله علیہ کی نبض ڈوب رہی تھی- حضرت شیخ ابو جعفر علیہ الرحمہ نے سکرات موت کے آثار محسوس کر کے سورہ حشر کی تلاوت شروع کی جب آیت: ،، هو الله الذى لا اله الا هو عالم، ال، پر پہنچے تو یکا یک سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے آنکھیں کھول دیں، مسکرائے اور تبسم ریز لہجے میں کہا ،،سچ ہے،، یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں-
الله رب العزت ہمیں بھی حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی طرح مظلوم مسلمانوں کی نصرت و مدد کے لیے کھڑا ہونے کی توفیق بخشے۔کہ ہم ایک بار پھر حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی سنت پر چلتے ہوئے دنیا بھر کے صلیبیوں اور یہودیوں سے جنگ کرتے ہوئے ٹکرا جائیں تاکہ دنیا بھر میں الله رب العزت کا کلمہ بلند ہو اور صلیبوں کے ظالم ہاتھ ٹوٹ سکیں، ان کی دہشتگردی ختم ہو اور ان کے ناپاک جسموں سے بیت المقدس سمیت دنیا کے تمام مسلمان خطے پاک اور آزاد ہوں-