رفیق احمد کولاری الہدوی
ناظم اعلی شبیریہ عربک کالج ۔ کارکلا اڈپی کرناٹک
سرور دوجہاں ﷺ کی تاریخ ولادت میں کافی اختلاف ہے مگر مشہور ومعتمد قول یہی ہے کہ واقعہ اصحاب فیل سے پچپن دن کے بعد 12 ربیع الاَول بمطابق 20 اپریل 571 ء مکۃ المکرّمہ میں ولادت باسعادت ہوئی ۔ (نطق الہلال باَرخ ولاد الحبیب والوصال)
تاریخ ولادت کا ذکر کرتے ہوئے محدث دہلوی علامہ عبد الحق رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ ” یہ بھی مشہور ہے کہ ماہ ربیع الاول میں ولادت ہوئی ہے اور بعض علماء اسی کو اختیار کرتے ہیں اور بعض بارہ بھی کہتے ہیں لیکن پہلا قول یعنی بارہ ربیع الاول زیادہ مشہور واکثر ہے ۔ اسی پر اہل مکہ کا عمل ہے ولادت شریف کے مقام کی زیارت اسی رات کرتے ہیں اور میلاد شریف پرھتے ہیں ( مدارج النبوۃ 2/30)
تاریخ عالم میں یہ وہ نرالا وانوکھا دن ہے کہ اسی زور عالم ہستی کی تخلیق کا باعث،گردش لیل ونہار کا مقصود ، خلق آدم علیہ السلام کا راز سربستہ ، کشتی نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا ، سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے ذبح سے صیانت کا راز پنہاں،حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کی بشارت عظمی ، یتیموں کا ماَوی ، بیواؤں کا مسیحا ، مظلوم عورتوں کی پکار ، غریبوں ومسکینوں کا والی اور پوری انسانیت کا پرسان حال پیدا ہوا ۔ اس مقدس گھڑی کی عظمت بیان کرتے ہوئے سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ جھوم کر فرماتے ہیں
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش)
سرکار دوعالم ﷺ کے اوصاف حمیدہ وخصائل جمیلہ بیان کرتے ہوئے شاعر الطاف حسین حالی کہتا ہے
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ (مسد س حالی)
ولادت باسعادت کی گھڑیوں کی عظمت وتقدس بیان کرتے ہوئے محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” حق تعالی نے روز دو شنبہ کو جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے عبادت کےلئے خاص نہیں فرمایا جیسا کہ روز جمعہ کو مخصوص فرمایا جو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا دن ۔ اس کی وجہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت اور آپ کی امت پر آپ کے وجود کی عنایت کے سبب سے تخفیف ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین (مدارج النبوۃ 2/30-31)
حضور پر نور آقائے دو جہاں سیاح لا مکاں خسروے خوباں تاجدار مدینہ سرور قلب وسینہ جناب محمد ﷺ اس خاکدان گیتی میں جلوہ افروز ہوئے حالت یہ تھی کہ پاکیزہ بدن ، ناف بریدہ ، ختنہ شدہ ، کستوری وعنبر میں بسے ہوئے ، بحالت سجدہ مکۃ المكرمہ کی مقدس سرزمین میں اپنے والد بزرگوار حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے گھر پیداہوئے ۔ جب آپ کے جد امجد حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو ولادت باسعادت کا مژدہ جانفزا سنايا گيا توآپ اس وقت طواف کعبہ میں مشغول تھے ۔ یہ نوید مسرت سن کر آپ جھوم گئے اور فورا خوش وخرم بیت اللہ سے اپنے گھر کا رخ کیا اور اپنے نوری پیکر پوتے کو اپنے کلیجے سے لگایا پھر کعبہ میں لے جاکر خیر وبرکت کیلئے دعا کی اور آپ کا نام” محمد” ﷺ رکھا ۔ لوگوں نے دریافت کیا آپ کے اجداد واسلاف کے ناموں کو چھوڑ کر اپنے نوری پوتے کیلئے کیوں ” محمد” ﷺ کا انتخاب فرمایا ؟ تو آپ نے فرمایا “اَردت ان یحمدہ من علی الغبراء ” یعنی دونوں جہاں میں اس نوری پیکر کی تعریف وتوصیف بیان کی جاۓ ۔ کیا خوب کہا شاعر نے
محمد ا سموا نبي الهدی وهواَحق الناس بالحمد
صلی علیہ اللہ ما اشرقت شمس الضحی فی ذلک السعد (مولد المنقوص)