ہندوستان وہ پاکیزہ و مقدس دھرتی ہے جہاں پر لاکھوں اولیاء کرام آسودۂ خاک ہیں انہیں نفوس قدسیہ کی مرہونِ منت ہے کہ یہاں اسلام کا شجر ہرا بھرا ہے اور آج بھی اس کے برگ وبار کی شجرکاری وآبیاری کا کام یہی کرتے ہیں ایک انگریز جاتے جاتے یہ کہہ گیا کہ ہمیں ہندوستان کے باشندوں سے ڈر نہیں بلکہ ہندوستان کی زمین میں جو بزرگان دین آسودۂ خاک ہیں ان سے خوف و ہراس ہے وہ بھی جانتے تھے کہ ہندوستان پر کوئی بھی حکومت کرلیں لیکن وہ عارضی ہے ۔حقیقی حکومت وسلطنت کے تاجور یہاں کے اولیاء کرام ہیں بالخصوص سلطان الہند ہند الولی سرکار خواجۂ خواجگان غریب نواز سیدی معین الدین حسنی حسینی سنجری چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ اور آپ کے خلفاء عظام -مشائخین چشت کا ہند وبادشندگان ہند پر بڑا احسان ہے۔ جس سے کبھی کوئی مائی کا لال سبکدوش نہیں ہوسکتا ۔آج کل جو اولیاء کرام کے خلاف بھوکتے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں کہ اگر یہ بزرگانِ دین ہند کو اپنا مسکن نہ بناتے تو یقین ہے۔ یہ دھرتی پہلے کی طرح کفرستان رہتی ۔یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے صنم سائی سے خدا شناسی تک کا سفر طے کرایا اور توحید ورسالت کا شیریں ساغر پلایا اسی جام کی مستی اور کیف و سوز ہمارے ایمان وعقیدہ میں پوست ہے تبلیغ واشاعت دین کے خاطر ان برگزیدہ بندوں نے گوناگوں تکلیفیں ومصیبتیں جھیلیں اور تمام مصائب وآلام کو خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کیا اور اس پر خار راہ میں سینہ سپر ہوکر ڈٹے رہے اور اپنے معتقدین ومتوسلین کو ثابت قدمی کی تعلیم دی۔ انہیں نفوسِ قدسیہ میں شہنشاۂ ہفت اقلیم تاج الملۃ والدین حامل اسرار ولایت شناور زمور قدسیت سیدی و مولائی آقائی سید تاج الدین بابا ناگپوری رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی قابل ذکر ہے جن کا روضۂ پرنور مرجع خلائق بنا ہوا ہے جہاں یک زمانہ فیض پارہا ہے۔
ولادت باسعادت:سرکار تاج الاولیاء کی پیدائش سے پہلے آپ کی والدہ محترمہ رضی اللہ عنہا ایک حسین نہایت دلکش خواب دیکھا آپ نے دیکھا کہ آسمان اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ چگمگارہا تھا چاند اپنی چاندنی پر ناز ونخرے کے ساتھ فرشی مخلوق کو خیرہ کر رہی تھی۔ اچانک وہ تابندہ مہر آپ کے گود مبارک میں آسمان سے گر پڑا اور اس ماہتاب کی روشنی سے پوری فرشی دنیا منور ومجلی ہوگئی۔ اسی حسین خواب کی تعبیر کے طور پر بابا تاج الاولیاء حضور قدوۃ الواصلین سید حسن مہدی بدر الدین اور سیدہ مریم بی علیہما الرحمہ کے گھر بتاریخ ۵ رجب المرجب ۱۲۸۳ھ بمطابق 27جنوری 1861ء بمقام گورابازا کامٹی میں پیدا ہوئے ۔سرکار تاج الاولیاء کا سلسلۂ نسب امام حسن عسکری سے جاملتا ہے۔ الحمدللہ آپ کے خانوادے میں ایک سے ایک اللہ والے وعارفین پیدا ہوئے ۔جن میں حضور شہنشاہ پیگنڈہ شریف حضرت سید فخر الدین حسینی قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار تاج الاولیاء کا دادھیال شہر کولار میں سکونت پذیر تھا آج بھی شہر کولار اور شہر محبت ناگپور کا گھرا تعلق ہے شہر کولار سے آپ کا تعلق خاص تھا یہ بات اہلیان کولار کے لئے خوش آئند ہے کہ سرکار تاج الاولیاء کے خانوادے کے بعض بزرگان دین کولار میں آسودۂ خاک ہیں اللہ ان بزرگان دین کے علمی وروحانی فیضان سے ہم گنہگاروں کو مالامال فرمائے اور یہ میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہوں کہ فقیر کولاری قادری عفی عنہ الباری کو دو بار سرکار نے اپنے قدموں میں بلایا اس موقع پر میں قائد اہل سنت جانشین مفتی اعظم مہاراشٹر فاضل بغداد مفتی مجتبی شریف اشہری مصباحی دام ظلہ العالی کا شکر گزار ہوں کہ فقیر کولاری قادری کو آپ انٹرنیشنل سنی اجتماع میں بحیثیت مہمان کے شرکت کرنے کا حسین موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالی قائد اہل سنت کے گراں قدر خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین
تعلیم وتربیت:آپ کی ولادت باسعادت کے ایک ہی سال کے بعد والد بزرگوار سید بدرالدین علیہ الرحمہ کا انتقال ہوگیا ۔والد ماجد کی رحلت کے بعد آپ کی پرورش وپرداخت کی ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ سیدہ مریم بی بی صاحبہ ودیگر خویش و اقارب نے بحسن وخوبی نبھائی ۔والدہ نے بڑی محبت وعقیدت کے ساتھ آپ کی پرروش فرمائیں اور چھ سال کی عمر شریف میں آپ کو مدرسے میں داخل کروایا آپ نے اس زمانے کے اجلہ علمائے کرام سے مروجہ علوم وفنون میں کامل دسترس حاصل کی۔
آپ جب ۹ سال کے ہوئے تو قضائے الہی سے آپ کی والدہ محترمہ بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملیں۔ والدہ کے وصال کے بعد آپ کی پرورش آپ کے ننھیالی رشتہ داروں نے سنبھالی جب آپ کے استاذ نے آپ کو رسم بسم اللہ خوانی کرارہے تھے تو آپ آگے بڑھ کر سورہ فاتحہ تک پڑھ گئے۔
ایک دن حسب روایت آپ مکتب میں پڑھ رہے تھے اس وقت اچانک اس زمانے کے مشہور مجذوب عارف باللہ حضرت عبداللہ شاہ قادری علیہ الرحمہ آپ کے استاذ سے مخاطب ہوکر کیا اس کو کیا پڑھاتے ہو یہ بچہ تو پڑھا پڑھایا ہوا ہے اسے پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں بچپن ہی سے آپ کھیل کود سے کافی دور ونفور تھے پڑھائی کے علاوہ آپ کو تنہائی کافی پسند تھی اور تنہائی میں معرفت وعرفان کی باتیں حاصل کرنے کی تلاش وجستجو میں سرگرداں رہتے تھے -پندرہ سال میں آپ نے اپنی تعلیم سفر مکمل کرلیا اور تمام ظاہری علوم وفنون اور لسانیات کے زیور سے لیس ہوکر خدمت خلق میں لگ گئے۔
روحانی سفر اور فیضان کرم: اس بات کا کوئی حقیقی ومضبوط سراغ نہیں ملتا کہ آپ کس بزرگ کے حلقۂ بیعت وارادت میں داخل تھے لیکن اتنی بات یقینی و حتمی ہے کہ آپ کو دو عظیم بزرگوں سے نسبت فیضان ملا اور آپ نے ولایت و روحانیت کا سفر بآسانی طے کیا۔ ان میں ایک سلسلہ قادریہ کے عظیم مرد قلندر حضرت عبداللہ شاہ قادری اور دوسرے سلسلہ چشتیہ بہشتیہ کے روح رواں سیدنا شمس الدین ترکمانی کے خلیفہ حضرت داؤد مکی رضی الله عن کلہم اجمعین ۔
حضرت عبداللہ شاہ قادری رحمۃاللہ علیہ نے وصال سے پہلے اپنا جھوٹا شربت پلاکر اپنا جانشین مقرر فرمایا اور روحانیت کے مدارج طے کروائے اسی طرح جب آپ فوجی ملازمت کے سلسلے میں جب ساگر آئے تو آپ نے دو سال تک حضرت داؤد مکی رحمۃاللہ علیہ کے مزار پر انوار پر طویل ریاضت و مراقبہ فرمایا ۔جس کے بدولت آپ کو سلسلہ چشتیہ اویسیہ کی خلافت و خرقہ حاصل ہوا روایت کے مطابق سلسلہ اویسیہ اس نسبت یا اس روحانی رابطہ کو کہتے ہیں جو سالک کو کسی بزرگ کی روح مبارک سے حاصل ہو۔
کشف و کرامات:سرکار تاج الاولیاء مادر زاد ولی تھے اسی وجہ سے کرامتوں کا صدور بچپن ہی سے ہوتا رہا اور ایسے ایسے کرامتوں کا صدور ہوا جس سے انسانی عقلیں دنگ ہیں ۔بے شمار کرامتوں کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر عام وخاص میں ہونے لگی آپ کی کرامتیں سن کر دور دور سے لوگ آپ کے بارگاہِ محبت میں جوق در جوق آنے لگے اور پوری دنیا کو اپنے فیض لازوال مالا مال کیا اور یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کرامات ولایت کا دار ومدار نہیں جیسے کہ عوام الناس کا مغالطہ ہے ۔کرامت ولی کی بنسبت ثانوی حیثیت رکھتی ہے اولی واولوی حیثیت استقامت علی الشریعت کی ہے۔ آئیے بابا تاج الاولیاء کی دو تین کرامات بطور تبرک پیش کرتےہیں ۔ایک شخص نے عرض کی حضور کھانا ختم ہوگیا آپ نے ارشاد فرمایا میاں کھانا تو صندوق میں رکھا ہوا ہے اس شخص نے فورا صندوق کھول کر دیکھا تو کھانا لبالب بھرا ہوا تھا اس نے فورا پیش کیا اور حیرت وششدر ہوکر سرکار کا متوالا بن گیا اور زندگی بھر قدموں میں رہا۔
روایت میں ہے کہ کامٹی میں جب آپ مقیم تھے آپ سے اس وقت آپ ایک زرگر کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے کہا فورا سامان نکال اور گھر خالی کر جیسے ہی آپ کے زبان فیض ترجمان سے یہ نکلا تو فورا وہ گھر خالی کرکے چلا گیا جیسے وہ نکل گیا وہ گھر نذر آتش ہوگیا یہی آپ کی بظاہر پہلی کرامت تھی اس کے علاوہ آپ کے بے شمار کرامتیں ہیں ان سب کے ذکر کے لئے مجلدات درکار ہیں میں انہیں کرامات سے اکتفاء کرتا ہوں۔
آپ کی پیشگوئیاں:غیب کا علم اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے الله تعالی اپنے محبوب بندوں کو اس غیب پر مطلع کرتا ہے اسی کو حدیث نبوی کی روشنی فراست مؤمن بھی کہا جاتا ہے جیسے آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ یعنی مؤمن کی فراست سے ڈرو اس لئے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے الحمدللہ سرکار بابا تاج الاولیاء کو اس کا نصیب وافر حاصل ہوا آپ نے ۱۹۲۱ء جب ہندوستان انگریزوں کے چنگل میں تھا اور سودیشی تحریک کافی زوروں پر تھی اس وقت آپ سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو برجستہ کہا انگریز چلے جائینگے۔ یہ آزادی کے کافی سال پہلے کی پیشگوئی ہے اس کے علاوہ اور بھی آپ کی بے شمار پیش گوئیاں ہیں جس کا اس مختصر مضمون ذکر مناسب نہیں۔
وفات آیات پر حسرات:یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موت ہر ایک کو آنی ہے یہ فطرت کا بھی تقاضا ہے اسی فطرت کے پکار کو لبیک کہتے ہوئے محرم الحرام بروز پیر بتاریخ ۲۶، ۱۳۴۴ ھ بمطابق 17 اگست 1925 ء سرکار بابا تاج الدین علیہ الرحمۃ نے اپنے روح پر فتوح کو خلاق کائنات کے سپرد کردیا انا للہ وانا الیہ راجعون آج اس عظیم بارگاہ سے لاکھوں گم گشتہ گان راہ حق ہدایت کا سامان فراہم کیا جارہا ہے اللہ تعالی ہم سب کو اس عظیم بارگاہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔آمین بجاہ السید الامین ﷺ