نہ تو ظلم کو دوام حاصل ہے اور نہ احسان فراموش کو قرار
فلسطینی اقدام کے سلسلے میں بہار کے سابق وزیراعلی مسٹر جتن رام مانجھی نےبڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’’ویسے تو میں کسی طرح کے تشدد کا حمایتی نہیں، لیکن جب عزرائیل نے بےگناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا تو اُس وقت پوری دنیا خاموش تھی اور اَب جب فلسطینیوں نے متحد ہوکر عزرائیل پر رد عمل کے طورپر حملہ کیا تو کچھ خودساختہ امن پرستوں کی نیند کھل گئی۔ مجھے لگتا ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔‘‘ ممکن ہوکہ مسٹر مانجھی کے اِس بیان کو بعض افراد خانہ پُری کی حد تک رکھتے ہوئے اِسے نظرانداز کردے لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہےکہ مسٹر مانجھی نے جو کچھ کہا ہے وہ انسانیت کے ناطے بروقت کہا ہے اور صد فیصد درست کہا ہےکہ جس طرح عزرائیل پر حملےکے خلاف بعض خودساختہ امن پرست ممالک نیند سےبیدار ہواُٹھے ہیں، اگر واقعی وہ انسانیت کے دوست ہوتے تو جیسے عزرائیل، نہتے فلسطینیوں پر تابڑتوڑ حملہ کرتا رہا ہے اُس کے خلاف بھی آواز بلند ضرور بلند کرتےمگر ایسا نہیں ہوا۔ اِس سے واضح طورپر اشارہ ملتا ہےکہ عزرائیل کے حملے کے بعد جن خود ساختہ امن پرستوں نے انسانیت کے پردے میں آوازاُٹھائی ہے دراصل وہ لوگ بذات خود اِنسانیت کے دشمن ہیں۔لکہ حق تو یہ ہے کہ چور-چور موسیرے بھائی کی طرح وہ سبھی لوگ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں اورمددگار ہیں ،اُنھیں انسانیت کی بھلائی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ خواب خرگوش سے اُسی وقت بیدار ہوتے ہیں جب اُنھیں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔
اِن تمام باتوں سے قطع نظر جب ہم 1943میں جرمن کے احوال کا جائزہ لیتے ہیں اور اُس احوال کے پیش نظر فلسطین کے ساتھ عزرائیل کے رویے کو دیکھتے ہیں تو عزرائیل کی احسان فراموشی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ بات 1943 کی ہے جب جرمنی حکمران ہٹلر نے موجودہ عزرائلیوں/یہودیوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا تھا اور اُنھیں جرمن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حالاں کہ اُس وقت بھی دنیا میں بڑے بڑے خود ساختہ امن پرست ممالک موجودتھےلیکن کوئی بھی ملک یہودیوں کو اَپنےیہاں پناہ نہیں دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ آج کے خود ساختہ انسانیت کے محافظ امریکہ، فرانس، کیوبا، کنیڈا جیسے دیگر ممالک نے بھی اُس وقت دربدری کے شکاراپنے یہودی برادران سے بھرے جہازوں کو واپس کردیا تھا اور اپنے ساحل پر اُترنے سے یکسر منع کردیا تھا۔ ایسے عالم میں یہ یہودی اپنے جہازوں پر تحریرThe German destroyed our families & homes don’t you destroy our hopesکے ساتھ بحیثیت پناہ گزیں فلسطین سے مدد مانگنے پہنچے تو فلسطینیوںنے عزرائلیوں کودھتکارنے کی بجائے انسانیت کے ناطےاپنے یہاں پناہ دی۔ اُنھیں ایک نئی زندگی بخشی اور اُنھیں زندہ رکھنے کے لیے اپنے گھربار اور اپنی زمینیں تک وقف کردیں۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ اِس موقع پر ایک تہائی آبادی تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کرنے کے بعد جرمن تاناشاہ ہٹلر نے ایک تاریخی جملہ کہا تھاکہ’’میں اِن کو زندہ اس لیے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا دیکھے کہ میں نے انھیں کیوں مارا تھا۔‘‘لیکن حیف صدحیف کہ وہی یہودی جو کل فلسطین کے ٹکڑوں پر پلے بڑھے اورفلسطین کے سبب اپنی زندگی کی نئی بہاریں دیکھیں آج اپنےاُسی محسن کو فراموش کربیٹھے ہیں اور آج اپنے اُسی محسن فلسطین کا قتل عام کررہے ہیں اور اُنھیں خون کے آنسو رلاہے ہیںاور اُن کے احسان فراموشی کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔
آج ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عزرائیل، اپنے محسن فلسطین کے احسان کابدلہ چکاتا مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔پھر بھی ہمیں اِس پر حیرت نہیں ہورہی ہے۔ کیوں کہ احسان فراموش سے کچھ امید رکھنا غیردانشمندی ہے۔ البتہ! اس کے برعکس ہمیں انتہائی تعجب اِس بات پر ہورہی ہے کہ آج کے وہ خودساختہ امن پرست ممالک جو عزرائیل کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیںکہ فلسطینیوں نے رد عمل کے بطور عزرائیل پر حملہ کردیا۔ فلسطینیوں نے عزرائیل پرحملہ کیا کردیا مانو پہاڑ ٹوٹ گیا۔اُنھیں عزرائیل پر حملہ نظر آگیا اور عزرائیل جوبرسوں سے آئے دن فلسطینیوں پر حملہ کرتا رہتا ہے اور فلسطینیوں کی جان، مال، عزت وآبرو پر آئے دن ڈاکہ ڈالتا رہتا ہے، یہ ساری باتیں اُن خود ساختہ امن پرستوں کو نظر نہیں آتیں؟ کیا اُن کے نزدیک فلسطینی، انسان کی صف میں شامل نہیں؟آخر انسانیت کا یہ دوہرا رویہ کب تک؟ ہمارے خیال سے دراَصل انسانیت کا سخت دشمن یہی دوہرا رویہ ہے۔
القصہ! عالمی سطح پر دیکھاجائے تو یہی وہ دوہرارویہ اور پیمانہ ہےجس کے سبب پوری دنیا سے امن وامان کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔ عالمی ممالک کے اندرجب تک یہ ہمت مجتمع نہیں ہوگی کہ ظالم کو ظالم کہاجائے اور مظلوم کو مظلوم،تو اُس وقت امن وامان کے قیام کا دعوی کرنا اور اِنسان دوستی باتیں کرنا محض ایک چھلاوہ ہے، اس کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہے۔ کہیں دورجانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فلسطین اور عزرائیل کو ہی دیکھ لیجیے کہ عزرائیل، فلسطینی باشندوں پر حملہ کرے تو کوئی ظلم نہیں، لیکن فلسطین ردعمل کے بطورعزرائیل کے خلاف اقدام کرے تو ظلم؟عزرائیلی ظلم اور اُس کی احسان فراموشی کے باجود اُس کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہونے والوں کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نہ تو ظلم کو دوام حاصل ہے اور نہ ہی احسان فراموش کو قرار، اور عزرائیل تو ظلم کا مجسمہ بھی ہے اور اِحسان فراموش بھی۔ پھر یہ کہ عالمی سربراہان مملکت جب تک اپنے دوہرے رویے میں تبدیلی نہیں لائیں گے اُور جب تک عالمی پیمانے پرمظلوموں کی مدد نہیں کریں گےاُس وقت تک دنیا کی کوئی طاقت امن وامان بحال نہیںکرسکتی ہے۔