نونہالان اسلام کے ساتھ حضورﷺ کا حسن سلوک
اس ترقی یافتہ دور میں ہر چیز دستیاب ہے لیکن اگر کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ حسن سلوک ہے۔اسی فقدان کی وجہ کسی ہمارے دلوں کے درمیان دوریاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔آپسی محبت والفت صرف اور صرف زبانوں تک محدود اور تحریر وتقریر تک محیط ہے۔ اسٹیجوں میں ہم سے بڑا ملنسار اور خوش اخلاق کوئی نہیں۔ لیکن ہماری نجی زندگی کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں تو ہم سے بڑا جھگڑالو, فحش گو اور رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔بڑے افسوس کے ساتھ یہ خامہ فرسائی کی جارہی ہے کہ حسن اخلاق اور خوش طبعی صرف اور صرف کتابوں کے پنوں کی زیب وزینت بن کر رہ گی۔جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش اخلاقی کودین قرار دیا اسی پیغمبر کے ہم بڑے فخر سے امتی اور عاشق بھی کہلاتے ہیں مگر خوش اخلاق کی رمق بھی ہماری زندگیوں میں دور دور تک نظر نہ آتی۔حسن سلوک اور خوش اخلاقی کے گوناگوں جہتیں ہیں آج ہم آپ کے سامنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن وتابناک زندگی کی ان پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرینگے جو بچوں سے متعلق ہے۔بچوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک کیسا تھا؟؟ نونہالان اسلام کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے برتاؤ کیا کرتے تھے۔آئیے احادیث کے جھروکوں سے ان بہترین مثالوں کو ڈھونڈنکالیں جو ہماری زندگی کیلئے مشعل راہ اور لائحہ عمل ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضور سرور کونیں ﷺ کے ساتھ نمازظہر ادا کی۔پھر آپ ﷺ اپنے گھر جانے کو نکلے اور میں بھی آپ کے ساتھ نکلا۔اچانک سامنے کچھ بچے آئے تو آپ ﷺ نے ہر ایک بچے کے رخسار(گال) پر ہاتھ پھیرا اور میرے رخسار پر بھی دست کرم پھیرا۔ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں وہ ٹھنڈک اور وہ مشام جان کو معطر کرنے والی دلآویز خوشبو پائی جیسے حضورامام الانبیاء ﷺ نے عطر فروش کے ڈبہ میں سے ہاتھ نکالا ہو (مسلم شریف)حضرت انس بن مالک خادم رسول ﷺ بیان کرتے ہیں کہ حضور تاجدار حرم ہم میں گھل مل جاتے تھے۔ یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے اے ابو عمیر تیری نغیر نامی چڑیا نے کیا کیا؟؟(بخاری) آپ نے دیکھا کس انداز سے حضور تاجدار حرم نوبہار کرم ﷺ بچوں سے خوش طبعی کررہے ہیں۔ حضرت سیدنا ابو عمیر رضی اللہ عنہ سے حضور دلگی کرتے ہوئے ان سے چڑیا کا حال چال پوچھ رہے ہیں۔ آج ہماری حالت زار یہ ہوگی کہ ہم پرندوں یا چڑیوں کا حال تو دور اپنوں کا حال تک پوچھنا گوارانہیں کرتے۔
حضرت یوسف بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور سلطان مدینہ ﷺ نے اپنی گود مبارک میں بٹھایا اور میرے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور میرا نام یوسف رکھا۔(مسند احمد)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور سرور کونینﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بچوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔مزید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور پرنور ﷺ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا اس وقت آپ کی خدمت اقدس میں حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بھی حاضر خدمت تھے وہ بولے یا رسول اللہﷺ میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی ان میں سے کسی کو نہیں چوما اس پر آپ ﷺنے ان کی طرف متوجہ ہوکر جلال میں ارشاد فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری)مذکورہ دونوں روایت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بچوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس دلفریب انداز میں محبت کیا کرتے۔اور اس محبت کا اظہار کا انداز بھی کافی نرالا ہوا کرتا تھا۔جو آپ حکم فرمایا کرتے تھے عملی زندگی میں کر دکھاتے تھے جیسے کہ حضرت اقرع بن حابس کے اس واقعہ سے واشگاف ہے آج ہماری نحوست کی حد اس درجہ تک پہنچ چکی کہ ہم اپنے بچوں کو چومنا اور بوسہ دینا تو دور اس سے محبت وپیار سے بات چیت کرنے کیلئے بھی ہمارے پاس وقت نہیں پھر جب بچہ بڑا ہوکر والد کی قدر نہیں کرتا تو والدین کو بچوں کے بارے میں کافی گلہ وشکوہ رہتا ہے کہ بچے نافرمان ہوگئے۔ ہماری قدر نہیں کرتے۔ ایسا ہے ویسا ہے وغیرہ وغیرہ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم بچوں کو پیار دینگے تبھی تو ہم سے وہ پیار کرینگے جوچیز دی جاتی ہے وہی چیز واپس ملتی ہے۔
یہ حدیث بھی سن لیجئے حضرت انس بن مالک فرماتے میں نے دس سال حضور تاجدار کائنات ﷺ کی خدمت کی آپ ﷺ نے مجھے کبھی اف تک نہ کہا کسی کام کے کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا, اور نہ کرنے پر یہ نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا۔(بخاری)یہ بچوں کی تعلیم وتربیت کا انوکھا انداز پیغمبر اسلام کے علاوہ کہیں ہمیں نظر نہیں آئیگا۔اگر یہی انداز ہم بھی اپنا لیں تو ہمارے گھروں کے اندر جھگڑے اور فساد کے بدلے محبت والفت کی حسین فضا قائم ہوگی۔بالخصوص سرکار مدینہ ﷺ بچیوں سے بے حد محبت کیا کرتے تھے اسی محبت کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور سرور کائنات مدینہ منورہ کی گلیوں سے خرام ناز فرمارہے تھے تو چند بچیاں دف بحارہی تھیں اور گا کر کہہ رہی تھیں ہم بنو نجار کی لڑکیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ حضور تاجدار مدینہ جیسی عظیم ہستی نور کے پیکر ہمارے پڑوسی ہیں تو آپ ﷺ نے ان کی نعت سن کر خوش ہوئے اور فرمایا میرا اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت کرتا ہوں۔(ابن ماجہ)ان روایات کی روشنی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بچوں کے ساتھ اتنے نہایت مشفقانہ انداز میں سلوک وبرتاؤ کرنا پیغمبر اسلام ہی کا حصہ ونصیب ہے اور ہماری لئے یہ تمام مثالیں نمونہء حیات ہیں۔ان واقعات کی مطالعہ کے بعد ہم اپنا محاسبہ کریں کہ اپنے بچوں یا دیگر بچوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے؟؟ کیا ہم ان کے ساتھ محبت وشفقت کے ساتھ برتاؤ کرتے یا نہیں؟؟ اگر جواب نفی ہو تو ضروری ہے کہ ہم اپنے رویہ کو بدلیں اور پیغمبرانہ روش کو اپنائے اور حسن سلوک کے پیکرومرقع بننے کی کوشش کریں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور اظہار محبت وشفقت بھی سیرت رسول ﷺ کا اہم گوشہ ہے رب قدیر سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا سلوک اور برتاؤ کو خوش مزاج بنانے کی توفیق رفیق عنابت فرمائے۔