اللہ تعالیٰ نے کائنات انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام مبعوث فرمائے جنہوں نے دنیا کے کونے کونے میں اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ اللہ رب العا لمین کی معرفت کى شمعیں روشن کیں آخر میں نبی آخر زماں محبوب رب دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے جن پر نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: “اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا”( المائدة :3) “آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا”۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اسلام کی تکمیل پر مہر تصدیق ثبت فرما دی اور واضح فرمادیا کہ کسی شارع کی مزیدضرورت نہیں مگر کار نبوت اب بھی باقی ہے کیونکہ سعادت و شقاوت نور و ظلمت اطاعت و عصیان انسانی فطرت میں بطور جبلت ودیعت کی گئی ہیں۔ اس لیے جب دنیاوی راحتیں و آسائشیں نفوس انسانی کو سیدھے راستے سے ہٹا کر گمراہی کی طرف موڑ دیتی ہیں تو احیاء دین کے لیے صلحا ء ،عرفاء ا،قطاب و ابدال اور مجددکو پیدا کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے پاکیزہ نفوس اور علم و حکمت سے ان خرابیوں، فتنہ سازیوں کا قلع قمع کرتے رہیں ان نفوس قدسیہ میں حضرت سیدنا الشیخ الامام ابو محمد محی الدین عبد القادر الگیلانی کا نام مبارک تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں جگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔
ولادت با سعادت
آ پ کی پیدائش یکم رمضان 470 ھ بمطابق 17 مارچ 1078 عیسوی میں ایران میں شمال فارس بحیرہ خزر شہر گیلان میں ہوئی جس کو کیلان بھی کہا جاتاہے اسی لئے آپ کو شیخ عبدالقادر کیلانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ صدی ہے جس میں کئی جہات سے عالم اسلام پر حملے ہوئے اور مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں لیکن ہمارے لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے نکلی ہوئی بات سب سے بڑھ کر اہمیت رکھتی ہے۔ بخاری شریف میں روایت ہے:
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانچویں صدی ہجری کے قریب میری امت پر آفت کے پہاڑ توڑے جائیں گے جو کوئی اس سے بچ نکلے گا تو اسے استقامت نصیب ہوجائے گی‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں ان سیاہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک ایسے روشن مہتاب کی ضرورت تھی جس کی ضیاء پاشیوں کا فیض دائمی ہو ۔ لہذا اس دائمی فیض کا مہتاب سرزمین جیلاں سے طلوع ہوا جسے ساری دنیا غوث الا عظم شیخ عبدالقادر الگیلانی کے نام سےپہچانتی ہے۔
تعلیم وتربیت
آپ بچپن میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے تھے۔ آپ کے نانا جان حضرت سیّد عبداللہؒ نے آپ کو آغوش کفالت میں لیا ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آ پ کی والدہ ماجدہ اور آپ کے نانا جان نے کی۔ آپ کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ جب میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا قصد کرتا تو ہاطف غیب سے آواز آتی۔ اے مبارک ہماری طرف آ! میں یہ آواز سن کر ڈر جا تا اور دوڑ کر سیدھا اپنی والدہ کی گود میں آجاتا۔ آپ کے آغازِ تعلیم کا تو صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکا مگر اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ آپ اپنے شہر کے مکتب میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔
اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے حضرت غوث الاعظم نے اپنی والدہ ماجدہ سے اجازت مرحمت فرمائی اور انہوں نے بغداد شریف جانے کی اجازت اس شرط پر دی کہ آپ ہمیشہ صدق پر قائم رہیں گے۔ اور آپ کی والدہ ماجدہ سیدنا غوث اعظم کو الوداع کہتے ہوئے زار و قطار رو پڑیں اور فرمانے لگیں ۔ “اے نورچشم تمہاری جدائی خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں “آپ جیسے ہی گھر سے نکلے ایک مختصر سا قافلہ گیلان سے روانہ ہو کر مرکز علوم فنون بغداد شریف کی طرف جا رہا تھا جب یہ قافلہ عراق کے ایک علاقہ ہمدان کے قریب پہنچا ہی تھا کہ ڈاکوؤں نے اس قافلے کو بڑی بے دردی سے لوٹ لیا ۔تقریباً 60 کے قریب ڈاکوؤں کی تعداد تھی قافلے والے مارے دہشت کے دم بخود تھے ان میں ایک نو عمر بچہ جس کے چہرے پر بلا کا اطمنان تھا۔ ایک ڈاکو نے سرسری طور پر پوچھ لیا کہ آپ کے پاس بھی کچھ ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں! میرے پاس 40 دینار ہیں مگر ڈاکوؤں نے آپ کی تلاشی لی تو انہیں وہ نظر نہیں آئے۔ آپ نے بتایا کہ وہ دینار میری صدری (بغل کے نیچے سِلے ہوئے ہیں) وہ ڈاکو آپ کو اپنے سردار کے پاس لے گئے جو لوٹا ہوا مال تقسیم کر رہا تھا یہ خبرسن کر وہ چونک اٹھا ۔جب اس نے سرکار غوث اعظم سے گفتگو کی۔ آپ کے حسن شاہانہ، وقار تمکنت اور اطمنان، پر اعتماد لہجے سے بہت متاثر ہوا۔ سردار نے حیران ہو کر سوال کیا کہ اگر آپ یہ چالیس دینار خود سے نہ بتاتے تو ہماری ادھر توجہ ہی نہ جاتی۔ آپ نے سچ بتانے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ تو اس رو شن جبین بچے کا جواب سن کر اس کی دنیا ہی بدل گئی ۔جہالت کے اندھیروں میں نور صداقت کی قندیل روشن ہوگئی۔ ڈاکو نے معصوم نگاہوں میں نگالیں ڈال کر دوبارہ سوال کیا۔ آپ کو سچ بولنے پر کس نے مجبور کیا؟ آپ نے فرمایا: میری والدہ ماجدہ نے مجھے رخصت کرتے ہوئے مجھ سے سچ بولنے کا وعدہ لیا تھا۔ یہ سن کر اس ڈاکو سردار کے لہجے میں ادب اور آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
جب اس ڈاکو کی کچھ حالت سنبھلی تواس نے کہا آپ کس قدر مقدس ہستی ہیں اس چھوٹی سی عمر میں اپنی ماں سے کیا وعدہ نہیں توڑا اور میں اتنا بد نصیب کہ زندگی بھر اپنے رب کے وعدے کو توڑتا رہا۔ آپ کے عمل و کردار سے متاثر ہو کر وہ تائب ہوگیا اور آپ سے وعدہ کیا کہ بقیہ ساری زندگی خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام، فرامین پر عمل کرتے ہوئے گزاروں گا ۔اس کے ساتھی بھی اس انقلاب کو دیکھتے ہوئے سب کے سب تائب ہوئے اور لوٹا ہوا سارا مال واپس کردیا یہ پہلی کھیپ تھی جو والدہ کی تعلیم وتربیت، نصیحت کے نتیجے میں آ پ کے دست اقدس پر تائب ہو کر واصلین بااللہ ہوگئیں۔
488ھ میں بغداد پہنچے جو اس وقت علم وفضل کا گہوارہ، علماء مشائخ کامسکن اور علمی وسیاسی اعتبارسے مسلمانوں کا دارالسلطنت تھا یہاں آپ نے اپنے زمانہ کے معروف اساتذہ اور ائمہ فن سے اکتساب فیض کیا۔
تحصیل علم میں مشکلات و مصائب اور آپ کا صبر و استقامت
زمانہ طالب علمی میں آپ نے بڑی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آپ نے بڑی استقامت کے ساتھ ان مصائب کا سامنا کیا ۔ گھر سے چلتے ہوئے والدہ محترمہ نے چالیس دینار دئیے تھے وہ دینار ختم ہوگئے اور نوبت فاقوں تک آپہنچی اور یہیں سے آپ کی آزمائش شروع ہوگئی ۔ یہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ وہ عظیم ہستی تھی جسے آگے چل کر غوث الاعظم بننا تھا۔ مخلوق خدا کو فیض پہنچانا تھا، احیائے اسلام و تجدید دین کاکام سنبھالنا تھا اور ان کے در سے لوگوں کو علم کی خیرات ملنی تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ خود رزق کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے یہاں تو کیفیت یہ تھی کہ خدا کی رضا وہ ہماری رضا۔ آپ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور کسی سے کچھ طلب نہیں کیا- ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلسل کئی روز کھانے کو کچھ میسر نہ ہوا اور آپ ایک مسجد میں جا کر لیٹ گئے جو بغداد کے سوق الریحانین میں واقع تھی۔ آپ فرماتے ہیں شدت فاقہ سے یوں محسوس ہوا کہ اب موت آنے والی ہے اس دوران مسجد میں ایک نوجوان لڑکا کھانا لے کر داخل ہوا کھانا کھانے لگا تو مجھے بھی دعوت دی میں نے انکار کردیا اس نے قسم دے کر کھانے کے لئے کہا تو میں مجبور ہوگیا۔ میں نے چند لقمے لئے کھانے کے دوران اس نے پوچھا یہ بتائیں یہاں عبدالقادر نامی نوجوان تعلیم کے لیے آیا ہوا ہے اسے آپ جانتے ہیں؟ میں نے کہا وہ میں ہی ہوں یہ سن کر اس کا رنگ متغیر ہوگیا، پشیمانی کے ساتھ معذرت خواہ ہوا کہ آپ کی والدہ نے آپ کے لیے آٹھ دینار بھیجے تھے تین دن سے آپ کی تلاش میں ہوں مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا تو میں نے اس میں سے کچھ پیسے خرچ کرکے یہ کھانا خریدا ہے اور اب میں آپ کا مہمان ہوں چنانچہ آپ نے بقیہ کھانا اور کچھ دینار اسے عنایت کرکے رخصت کردیا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ رزق کی تلاش میں آپ نکلے اور جب کسی مقام پر پہنچے تو وہاں پہلے سے حاجت مندوں کو موجود پایا ۔چنانچہ ان کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے واپس لوٹ آئے کیونکہ آپ ایثار وقربانی کا پیکر تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ قیام بغداد کے ابتدائی ایام میں بیس دن ایسے گزرے کہ کھانے کو کچھ میسر نہ ہوا ،میں ایوان کسریٰ کے کھنڈرات کی طرف نکل گیا وہاں میں نے دیکھا کہ 70 (ستر) اولیاء اللہ بھی میری طرح قوت لایموت کی تلاش میں ہیں ،میں واپس چلا آیا یہاں آبائی وطن کا ایک شخص ملا اس نے مجھے کچھ دینار دیے اور کہا کہ یہ آپ کی والدہ نے بھیجے ہیں ایک دینار اپنے پاس رکھ لیا اور باقی کھنڈرات کی طرف جا کر ستر افراد میں تقسیم کردیئے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے بتایا میری والدہ ماجدہ نے بھیجے ہیں میرے دل نے گوارہ نہ کیا تنہا کھاؤں واپس آکر ایک دینارکا کھانا خرید کر غریبوں اور محتاجوں کو جمع کرکے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھایا یوں رات تک ان دینار میں سے کچھ نہ بچا۔
خطابات کا آغاز
حضور غوث پاک کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ وعظ و تلقین کیوں نہیں کرتے۔ اس پر آپ نے بصد احترام عرض کیا میں عجمی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو وعظ و تلقین کی اجازت عطا فرمائی۔ فیضان گنبد خضرا سے فیض یاب ہو کر جب آپ خطاب فرماتے ۔آپ کو سننے کے لیے ہر طبقہ خیال، و مکتبہ فکر کے لوگ، اصفیائ، فقہائ، مشائخ کے علاوہ خواص و عوام کی بڑی تعداد شامل ہوتی۔ بعض اوقات وزراء حکمران، غیر مسلم بھی سامعین ہوتے اور خطاب کے اختتام پر بیعت کرنے والوں کی طویل صف ہوتی۔ آپ کے مجمع میں 80 ہزار سے زائد لوگ شریک ہوتے اور چار چار سو کے قریب آپ کے مرید ان خطابات کو قلمبند کرتے۔ آپ ہفتے میں تین روز خطاب فرماتے۔ جب گفتگو فرماتے مجمع پر سناٹا چھا جاتا۔ سامعین کی عجیب کیفیت ہوتی کوئی آہ و بکا کررہا ہوتا، کوئی مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہوتا، کسی پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی، محبت و خشیت الہی کا ایسا غلبہ طاری ہوتا کہ بعض اوقات کئی کئی جنازے اٹھتے۔ آپ کی آواز دوران خطاب دور و نزدیک کے سامعین برابر سنتے اور کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ آپ نے دور پرفتن میں بغداد میں صدائے حق بلند کی آپ کسی خلیفہ کے دربار سے وابستہ نہیں تھے جیسا کہ اس دور کے اہل علم کا وطیرہ تھا۔ آپ کا موقف و استدلال قرآن و حدیث پر تھا آپ کا مقصد لوگوں میں اسلام کے لئے علم و عمل اور جذبہ و ایثار پیدا کرنا تھا۔
لفظ غوث کی وجہ تسمیہ
سیدنا الشیخ عبدالقادرکو غوث کیوں کہتے ہیں؟
دراصل “غوثیت” بزرگی کا ایک خاص درجہ ہے۔ لفظِ غوث کے لغوی معنی ہیں ”فریادرس”۔ یعنی فریاد کو پہنچنے والا۔ چونکہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غریبوں، بے کسوں اورحاجت مندوں کے مددگار ہیں، اسی لئے آپ کو “غوث ِاعظم” کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اور ”پیران پیر دستگیر” کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
نظامِ کائنات روز اول سے دو اقسام پر چل رہا ہے ایک تشریعی نظام اور دوسرا تکوینی نظام، تشریعی نظام کی سربراہی حضرت جبرائیل علیہ السلام جبکہ تکوینی نظام کی جس میں ساری دنیا کے نام، موت، زندگی، رزق، حوادث، الام و مصائب، اولاد، خوشی، موت، غم، دکھ، الغرض وہ تمام امور جو کائنات میں پیش آتے ہیں ان کی انجام دہی حضرت میکائیل اور حضرت عزرائیل کے ساتھ دو دو عبادالصالحین شریک ہوتے ہیں جنہیں قطب الاقطاب کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی کو سپرد ہوا جنہیں شاہ ولایت کہتے ہیں ان سے امام حسن حسین سے بارہ ائمہ تک پہنچا اور پھر سیدنا الشیخ عبدالقادر کو عطا ہوا۔
فکری و اصلاحی تنظیم کا قیام
حضور سیدی الشیخ غوث اعظم نے اپنی ایک علمی، فکری، روحانی، اصلاحی تنظیم ’’نظام اولیاء الدین‘‘ بنائی۔ اس تنظیم میں شامل ہونے کے لیے ان افراد کی اصلاح، تربیت، قیام وطعام کا انتظام و انصرام چلانے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا گیا جو خانقاہ القادریہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے کچھ اصول وضع کئے ،کیونکہ پورے عالم اسلام میں دین مبین کو زندہ کرنا آپ کا مشن تھا اس کے لئے آپ نے ایک نظام ترتیب دیا جس میں آپ خود قطب الاقطاب اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ کثیر تعداد میں اقطاب، اوتاد، ابدال تیار کئے اور انہیں عہدے دیئے اور یوں دنیا کے کئی ممالک میں آپ نے اقطاب مقرر کئے۔ آپ نے فقط وعظ نصیحت، خطابت نہیں فرمائی۔ عملی جدوجہد کے ذریعے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا عملی فریضہ انجام دیا اور معاشرے کے غرباء مساكين اور کمزور پسے ہوئے طبقے کی فریاد رسی کیلئے واضح نظام دیا اور ادارے بھی قائم کئے۔
تجدیدی خدمات
عراق اور عرب دنیا میں یونانی فلسفے کے اثرات سے مسلمان بڑے متاثر ہو چکے تھے۔ ذہنوں میں تشکیک پیدا ہو چکی تھی۔ عقائد کی عمارت میں شگاف پڑ گیا تھا۔ چاروں طرف سے متعدد فتنوں کی یلغار ہو رہی تھی۔ عام مجالس میں بھی معتزلہ اور باطنیہ جیسے فرقے خلق قرآن، رویت باری تعالیٰ اور امتناع نظیر جیسے موضوع پر بحث ہوتی تھی اس دور فتن میں عہد ساز شخصیت ناگزیر تھی جو اپنے نور باطن سے ظاہری، باطنی فتنوں کا خاتمہ کرے اور اپنے عمل و کردار سے فرسودہ عقلوں پر ضرب کلیمی لگاتی۔ دین کی نبض شناس بن کر عوام کو قرآن و سنت کے تابع بنادیتی اس وقت ذات باری نے آپ کو تجدید و احیائے دین کے لئے غوث اعظم بنا کر بھیجا جس نے مسلمانوں کو اپنے عقائد پر ثابت قدم رکھا۔ آپ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ انسانی قلب اگر زندہ ہوجائے تو اسلام کی روح گمراہی و ضلالت، فسق وفجور، کفر و شرک کی دسترس سے محفوظ رہتی ہے اور پھر بتدریج خیر و اصلاح کی راہیں ازخود نکلنے لگتی ہیں۔
انہی اغراض و مقاصد کے تحت آپ نے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر نئے سرے سے دینی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے ذریعے کئی ممالک پر محیط تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کی بڑی موثر تحریک پیدا کی جس کا مقصد اسلام سے حبی قلبی تعلق کو مستحکم کرنا اور عوام سے ربط و ضبط قائم کرنا تاکہ دینی، ایمانی، اعتقادی وابستگی کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔ بالآخر آپ کی تحریک نے از سر نو لوگوں کو تعلق بااللہ ربط رسالت قرآن و حدیث کی طرف مائل کیا۔
حکمرانوں اور امراء کی اصلاح
آپ بڑی جرات اور قوت ایمانی سے حکام و امراء کی غیر منصفانہ طرزعمل پر تنقید فرماتے، اس وقت تک خطابات کا سلسلہ جاری رکھتے جب تک ریاست اور حکومتی ارکان منصفانہ نظام وضع نہ کر لیتے اور مظلوموں اور حق داروں کا حق ان تک پہنچا نہ دیتے۔ آپ نے کسی جابر حکمران کی طرح دماغوں پر حکومت نہیں کی اور جسموں کو پابند سلاسل نہیں کیا۔ زبانوں پر سفاکی و تشدد کے پہرے نہیں لگائے بلکہ آپ نے کمزور کمتر حقیر انسانوں کو بھی آزادی رائے کا حق دیا۔ چور ڈاکو فاسق و فاجر گناہ گاروں کے لیے بھی محبت و امن کا دروازہ کھلا رکھا۔ آپ نے اپنے خطابات سے ان کمزوریوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی جو اس دور کے علماء اور امراء میں موجود تھیں یہی وجہ تھی کہ سیاہ کار آپ کے قدموں میں گر کر ہدایت یافتہ ہوگئے۔ یہ وہ انقلاب تھا جس نے بھٹکے ہوئے انسانوں کے مضطرب دلوں کو اسیر کر لیا تھا ہزاروں عیسائیوں، یہودیوں، اور دیگر اقوام کے تعصب زدہ ذہنوں کو شرک و کفر کی دلدل سے نکال کر توحید و رسالت کے جام پلائے۔ آپ کا دور مسلمانوں کے سیاسی نشیب و فراز، مذہبی کشمکش، مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا ان حالات میں آپ ؓنے علم کی ترویج، اقامت دین اور امت کی روحانی تربیت کے ساتھ ایک خاموش انقلاب برپا کیا۔ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فريضہ اداکرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کو عیاں کیا اور فکر آخرت کو اجاگر کیا۔ آپ کے فکر انگیز خطابات کاہی اثر تھا کہ سلطنت کے امور میں بھی انقلابی تبدیلی آئی۔ عوام پر عائد کیے گئے ٹیکسوں میں کمی کی گئی اور معا شرے میں خوشحالی نظر آنے لگی نیم مردہ معاشرے میں نئی جان پڑ گئی۔
عصر حاضر میں بڑھتی ہوئی بے حیائی، بے راہ روی، عریانی، فحاشی، دین سے دوری اطاعت و عبادت سے لاتعلقی کی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو اور اپنی نسلوں کو اسلاف کاملین کے ساتھ وابستہ رکھیں اور مولانا جلال الدین عارف رومی نے فرمایا: یعنی لوگوں تم نے اللہ والوں کے ساتھ تعلق و صحبت کم کر دیا ہے اسی وجہ سے بہت زیادہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں‘‘۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اس دور میں صالحین کی صحبت، تعلق، سنگت اتنی ضروری تھی تو اس وقت تو ہماری قلبی، روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے کاملین اور صالحین کی تعلیمات اور صحبت و سنگت ناگزیر ہے۔ معزز قارئین! اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ ہمیں آج کے دور میں ولی ء کامل غوث وقت اور مجدد وقت کا زمانہ ملا، ان کی صحبت و سنگت ملی۔ دعا ہے کہ اپنے محبوب علیہ السلام کے تصدق اس عظیم رہنما کی رفاقت، صحبت اور سنگت ہمیشہ قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین