یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سرزمین ہند نے علم و فضل کے ایسے بے شمار کوہ فشاں ہستیوں کو جنم دیا ہے جن کے علمی بصیرت و بصارت نے دنیاۓ سنیت میں انقلاب پیدا کردیا ، جن کی اعلی فکر و تدبر اور حکمت و دانائی کا ایک زمانہ قائل ہے، جن کی حکمت و معرفت سے لبریز تقریروں ،تحریروں اور کتابوں نے دنیائے وہابیت کے حصن حصین کو تہہ و تیغ کر دیا۔
پندرہویں صدی ہجری کی انھیں شہرہ آفاق عظیم شخصیات میں ایک شخصیت امام العلماء حضور مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمہ کی ہے، حضور امام العلماء علیہ الرحمہ بلامبالغہ جامع منقولات و منقولات تھے ، آپ نے اپنی زندگی کا تقریبا نصف صدی پر محیط حصہ اشاعت اسلام اور تبلیغ دین متین میں وقف فرما دیا ، آپ ایک سچے عاشق رسول تھے، آپ کی زندگی کا ہر گوشہ محبت رسول کی گوہر بار کرنوں سے روشن و تابناک تھا، آپ کی ہر ادا میں سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ، ساتھ ہی ساتھ آپ مسلک اعلیٰ حضرت کے ایک عظیم سپاہی بھی تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے تعلیمات امام احمد رضا کے فروغ کو اپنی حیات کا مقصد اصلی سمجھ کر ہر ایک جہت سے اس کی نشر و اشاعت کے لیے خوب جدوجہد اور بے انتہا تگ و دو کی اور پوری دنیا میں ایک سچے اور پکے ناشر مسلک اعلی حضرت کے نام سے متعارف ہوئے۔
اس مختصر سے مضمون میں امام العلماء علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کی چند جھلکیاں پیش کرکے آپ کی بارگاہ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ورنہ حضور امام العلماء کی ذات اس قدر بلند و بالا ہے کہ آپ کی حیات کے مختلف گوشوں پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو کئ جلدیں درکار ہوں گی لیکن تب بھی اہل سنت کے اس عظیم شاہسوار کی خدمات کا حق ادا نہ ہو سکے گا ۔
ولادت اور تعلیم و تربیت ۔
حضور امام العلماء علیہ الرحمہ ضلع سنت کبیر نگر کے ایک غیر معروف گاؤں دیوریا لعل میں یکم جولائی 1941ء میں پیدا ہوئے، مکتب کی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے مدرسہ تدریس الاسلام بسڈیلہ میں داخلہ لیا اور وہاں اپنے وقت کی فقیدالمثال اور مایہ ناز ہستیوں کے زیر شفقت و عنایت بنیادی تعلیم حاصل کی، جن میں خصوصیت کے ساتھ جامع معقول و منقول حضرت علامہ اعجاز احمد خان نوری مصباحی، محدث جلیل حضرت علامہ عبدالشکور صاحب قبلہ ،اور صدر الصدور حضرت علامہ نعمان خان اثر قادری علیہ الرحمہ اور دیگر موقر ترین اساتذہ کرام شامل تھے ،
حضور امام العلماء علیہ الرحمہ نے ان عالی بارگاہوں میں رہ کر وافر مقدار میں عربی اور فارسی کی بے شمار کتابیں پڑھیں، بچپن ہی سے آپ کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق و ذوق تھا ، اسی لیے اساتذہ بھی آپ سے بے تحاشہ محبت فرمایا کرتے اور وقتاً فوقتاً دعاؤں سے بھی نوازتے رہتے تھے ، آپ نے وہاں سے دارالعلوم منظرحق ٹانڈہ کارخ فرمایا اور وہاں شمس العلماء ماہر علوم عقلیہ و نقلیہ حضرت علامہ قاضی شمس الدین جعفری علیہ رحمۃ الباری (مصنف قانون شریعت )سے معقولات کی چند کتابیں پڑھی، پھر مزید تعلیم کی حصولیابی کے لیے الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ کے لئے رخت سفر باندھا اور وہاں حضور حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب طئے کرکے ان کے بحر علم میں غوطہ زن ہوۓ اور علم حدیث میں مہارت تامہ حاصل کی، ساتھ ہی علامہ عبد الرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ سے بھی علوم عقلیہ کا درس لیا اور 19 سال کی عمر میں جملہ علوم مروجہ اور فنون متداولہ میں مہارت تامہ اور براعت کاملہ حاصل کرکے 1969 میں الجامعۃ الاشرفیہ ہی سے سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوۓ۔
تدریسی خدمات۔
فراغت کے بعد آپ کے علم کا شہر آفاق میں پھیلنے لگا ، جس کے نتیجے میں متعدد مدارس کبیرہ سے آپ کو تدریس کی دعوت دی گئی، لیکن آپ نے مفتی نانپارہ حضرت علامہ مفتی رجب علی قادری علیہ الرحمہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مدرسہ عزیز العلوم نانپارہ ضلع بہرائچ شریف جانے کا عزم کیا ،اور وہاں صدر المدرسین و مفتی کے مناصب علیا پر فائز ہوئے، بہت ہی کم وقت میں آپ کی صلاحیت و لیاقت، اعلی ظرفی اور تدریس میں خوش اسلوبی، انداز بیان اور مادہ تفہیم کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا ، وہ مدرسہ کل تک جس کی شہرت کالعدم تھی، حضرت کی مسلسل جدوجہد اور سعی پیہم سے وہاں طالبان علوم نبویہ دور دراز سے امڑتے ہوۓ سیلاب کے مانند اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے آنے لگے، آپ نے اپنی اس جفا کش محنت سے مدرسہ عزیز علوم نانپارہ کو اوج ثریا پر پہنچا دیا، اس درمیان آپ رفتہ رفتہ علماء اور دانشوران حضرات کی نگاہوں میں بھی مقبول سے مقبول تر ہونے لگے,
آپ نے سات سال تک نانپارہ میں تدریسی خدمات انجام دی پھر وہاں سے سبکدوش ہوۓ اور 1976ء میں حضرت علامہ نعمان اثر خان قادری علیہ الرحمہ نے حضور امام العلماء علیہ الرحمہ کو الجامعة الاسلامیہ روناہی ضلع فیضاباد تشریف لانے کی دعوت دی ، اس وقت سے حضور مفتی صاحب علیہ الرحمہ 2019 تک الجامعتہ الاسلامیہ روناہی میں اپنا علمی فیضان لٹاتے رہے، اس دوران آپ کی شخصیت ہر جہت سے نمایاں اور ممتاز تھی ، آپ نے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کے امور کو بھی احسن طریقے سے انجام دیا، تدریس کے میدان میں دور دور تک آپ کی نظیر نہیں ملتی، مادہ تفہیم اس قدر ارفع اور اعلی کہ کمزور سے کمزور طلبا بھی بروقت درس کا لب لباب بآسانی سمجھ جایا کرتے تھے ، آپ تمام طلبہ پر حد درجہ شفقت فرماتے حتیٰ کہ جب آپ پر کسی طالب علم کی غربت کا انکشاف ہوتا تو آپ خفیہ طور پر اس کی کفالت بھی فرماتے تھے ، انھیں وجوہات کی بنا پر کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی جامعی برادران کے دلوں میں حضرت کی محبت انگڑائیاں لیتی ہوئی نظر آرہی ہے، اس لمبے وقت میں آپ کی با فیض درسگاہ سے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں تربیت یافتہ پیدا ہوۓ، جو آج دنیا کے کونے کونے میں ہر محاذ پر نمایاں خدمات انجام دے کر حضور امام العلماء علیہ الرحمہ کے مشن کو فروغ دینے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
بے انتہا مصروفیات کے باوجود آپ کے قلم سیال سے ہزاروں فتاویٰ کا صدور بھی ہوا، جس سے آپ کی تبحر علمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بیعت و خلافت ۔
امام العلماء علیہ الرحمہ شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور آپ کی تبحر علمی اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پیش نظر اہل سنت والجماعت کے عبقری شخصیات نے آپ کو اجازت و خلافت سے بھی سرفراز فرمایا ، جن میں تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں ازہری ، مفتی نانپارہ حضرت مفتی رجب علی قادری، گلزار اشرفیت حضرت مولانا سید محمد مثني میاں کچھوچھوی علیہم الرحمہ والرضوان، اور گلزار ملت سید گلزار اسماعیل واسطی دام ظلہ العالی جیسی عظیم شخصیتیں شامل ہیں۔
تصنیفات و تالیفات۔
مذکورہ تمام سرگرمیوں اور کارگزاریاں کے باوجود حضور امام العلماء علیہ الرحمہ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی حظ وافر رکھتے تھے، ویسے تو آپ کی تصنیف کردہ کتابیں بہت زیادہ ہیں، جن سے پورا عالم سیراب ہو رہا ہے، لیکن آپ کی چند اہم تصنیفات قابل ذکر ہیں،
1۔ حاشیہ شرح ہدایت الحکمت۔
2۔ الجوہر المنظم فی شرح مسلم۔
3۔ امام احمد رضا اور علوم عقلیہ۔
4۔ جوامع الحکم ۔ 5۔ توضیحات کبری جیسی ڈھیر ساری کتابیں ہیں جن سے آپ کے علم و حکمت کی قدرومنزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ آپ کے قابل ستائش خدمات کے پیش نظر بڑے بڑے کانفرنسوں اور جلسوں میں آپ کو ڈھیر سارے ایوارڈ اور سپاس ناموں سے بھی نوازا گیا ۔
انتقال اور نماز جنازہ۔
علم و حکمت کا یہ بدر منیر اپنی تمام آبپاشیوں کو سمیٹتا ہوا اور اپنے تمام رفقا اور اولاد و احباب کو روتا ہوا چھوڑ 11 دسمبر 2019 کو کو ہمارے درمیان سے روپوش ہو گیا، آپ کی نماز جنازہ 15 ربیع الثانی 1441ھ مطابق 13 دسمبر 2019ء بعدنمازجمعہ روناہی کی جامع مسجد کے سامنے ممتاز الفقہاء، استاذ الاساتذہ حضور محدث کبیر دام ظلہ العالی کی اقتدا اور ہزاروں عوام و خواص کی موجودگی میں ادا کی گئی اور تدفین جامعہ سے متصل ٹیلے پر واقع مزار شریف کے صحن میں کی گئی یقینی طور پر حضور امام العلماء علیہ الرحمہ کی رحلت پوری امت کے لئے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی ہمیں امام العلماء کا نعم البدل عطا فرمائے، تاہم آپ کے روحانی، علمی فیضان سے مستفیض و مستنیر فرماۓ۔ آمین بجاہ سيد المرسلين صلى الله تعالى عليه وسلم.
ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے