آہ سر سے آسمانی سائباں جاتا رہا!!!- سانحہ ارتحال شیخ محمود آفندی
اللہ تبارک تعالی کا کروڑوں احسان ہے جس نے امت محمدیہ کیلئے اوراس کی نجات کے خاطر،ہر دور میں انبیاء، رسل، اولیاء، اقطاب، علماء اور صوفیوں کے وسیلہ سے اس امت کی نگہبانی فرمائی ہے۔ حق وباطل کی تمیز کیلئے قرآن وحدیث سے بھی روشناس کرایا ۔ اسی طرح ہر دور میں کوئی موسی تو کوئی فرعون، کوئی ابراہیم تو کوئی نمرود جیسے انسان اس دار فانی میں آتے رہیں لیکن فتح ہمیشہ اسلام کے جانباز اور اس پر مر مٹنے والی کی ہوتی رہی۔
آج کے اس پر فتن دور میں جب اسلام ہی سب کا نشانہ بن چکا ہو اور کیوں نا بنے جس درخت کے پھل سب سے زیادہ اچھے ہوتے ہیں انہیں ہی تو پتھر مارا جاتا ہے۔ اسی قول کے مصداق پر آج اسلام سب کا ہدف بنا ہوا ہے۔ تو ایسے ہی نازک وقت میں ترک کے پاک سرزمین پر اسلام کو پامال ہونے سے روکنے کیلئے اللہ تعالی نے ایک ایسے صوفی صفت ولی کو مبعوث فرمایا۔ جس کو آج دنیا شیخ محمود آفندی کے نام سے جانتی اور مانتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آگئے تو سار ی بہاروں پہ چھا گئے
شیخ محمود آفندی رحمہ اللہ جن کا اصل نام’’ محمود استی عثمان اوغلو‘‘ جن کی پیدائش ١٠٢٩ء کو ترابزون کے اوف نامی گاؤں کے ایک دیندار گھرانے میں ہوئی۔ شیخ محمود آفندی نے صرف ٤ سال کی قلیل عمر میں قرآن مجید کا حفظ کرلیا اور انہیں بچپن سے ہی عالم دین اور شریعت اسلام کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ تھا ۔
آپ نے شیخ تسجی زادہ سے علم نحو اور علم صرف اور دیگر علوم عربیہ حاصل کئے۔ اورشیخ دورسون فوزی آفندی سے علم دینیات، تفسیر، حدیث، فقہ، علوم کلام اور دیگر قانونی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ شیخ محمود آفندی اپنی روحانی سلسلہ نقشبندیہ کے اجازت اپنے شیخ صوفئے ترک شیخ احمد آفندی سے حاصل کی۔ یہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ ترکی میں مدارس کے طلباء کو تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس وقت شیخ محمود آفندی نے ایک ترکیب لگائی اور تمام طلباء کو ایک وسیع وعریض کھیت کی طرف لے جاتے تھے اور وہاں پر ان کو قرآن وحدیث اور دیگر علوم سے روشناس کراتے تھے۔ اگر کوئی فوجی دیکھتا تو کھیت کے کام میں مشغول ہو جاتے گویا وہ کھیت کا کام کر رہے ہوں۔ جس کو اسلام سے اور اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہو وہ اپنے دین کے پاسبانی اور اس کی اشاعت کے خاطر کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتا ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دباوَ گے
یہ ٢٠٠٥ء کی بات ہے کہ مسجد حرام کی تاریخ میں عجیب واقعہ ہوا۔ ایک شیخ عمرہ کا طواف کرنے مطاف میں داخل ہوئے۔ تقریبا ٣٠ ہزار سے زائد مریدین ان کے ساتھ تھے۔ سب ایک ہی انداز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے اور ایک ہی انداز میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ ٣٠ ہزار پروانوں کے جھرمٹ میں مطاف کو بھر دینے والی یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ شیخ محمود آفندی تھے۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدلنے والے مرشد کامل کوئی اور نہیں بلکہ شیخ محمود آفندی ہی تھے۔ اسی طرح ١٩٤٠ ء میں ترکی میں جو بغاوت اور ملک میں ہنگامی حالت واقع ہوئی تھی اس میں بھی شیخ محمود آفندی اپنے ملک کی خاطر صف اول میں کھڑے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس فوجی انتظامیہ نے انہیں غلط سمجھ کر جلا وطنی کی سزا سنا دی۔ لیکن آپ کے جان نثار اس راہ میں ڈٹ گئے اور بالآخر عدالت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرناہی پڑا اور عدالت نے ان سزا کو منسوخ کردیا۔ آپ کے دشمن نے آپ پر استنبول کے ایک علاقہ میں فائرنگ بھی کی لیکن پھر بھی شیخ محمود آفندی خدا کے فضل وکرم سے بچ گئے۔
مدّعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے، جو منظور خدا ہوتا ہے
بالآخر دین کا یہ چراغ ، اسلام کی شان، ہزاروں کے مرشد کامل، جن میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی شامل ہیں۔ جس کو دنیا شیخ محمود آفندی کو’’ ترک کا مجدد‘‘ بھی کہا کرتی تھی۔ جس امت محمدیہ کو بہت سے مایاناز تصانیف سے بھی نوازا ہے جس میں مختلف علوم شامل ہیں۔ لیکن ۲۲ جون ٢٠٢٢ء کو استنبول کے ایک اسپتال میں گردہ کے بیماری کی وجہ سے آپ نے نوائے حق کو لبیک بول کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اور اسی طرح سب کی آنکھوں سے سمندر کا سیلاب امڈ پڑا۔ اور امت محمدیہ کا ایک جانباز انسان اس عارضی دنیا کو خیرآباد کہ دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے محب اعلحضرت، اے نقیب اہلسنت تری اعلی شخصیت پر، ہیں فدا جگر ہمارے ۔ ۔ ۔ ۔
سینکڑوں، لاکھوں، کروڑوں دل کی ہے واحد پکار فیض ورحمت کاوہ بحر بیکراں جاتا رہا۔۔