بلا شبہ دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام علیهم السلام تشریف لائے ، ان سب کو من جانب اللہ ابتلاء و آزمائش کی صعوبتوں كے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑا ، کافی پریشانیاں برداشت کیں، یہاں تک کہ جان و مال کی فکر کیے بغیر رضاۓ الہی کی خاطر اپنی عزیز ترین جانوں کو بھی قربان کرنے میں ذرہ برابر دریغ نہیں کیا ، بالآخر اللہ رب العزت نے ان کی اس قدر جاںفشانی اور جذبہ ایثار کو شرف قبولیت سے نوازا اور ان کے درجات بلند فرمایا اور یقینا ان کی زندگیوں کو نمونہ عمل بنانے میں پوری امت مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہیں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اللہ رب العزت کے حکم کی تعمیل میں اپنی خواہشات کی ایک نہ مانی بلکہ رضاۓ الہی کی خاطر رب کے ہر حکم کی بجا آؤری کو اپنے لیے فرض عین گردانا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقابلہ اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے بادشاہ وقت نمرود سے ہوا، جس کی سفاکیت اور ظلم و استبداد سے ہر شخص واقف تھا، بإذنه تعالى حضرت ابراہیم علیہ السلام نمرود کے پاس آۓ، حسب معمول اس نے آپ کو اپنی جھوٹی ربوبیت کے اعتراف کے لئے مجبور کیا، آپ نے علی الإعلان اس کی اس پیشکش کو لات مارتے ہوئے رب کی وحدانیت کا اعلان کیا اور اسے دین اسلام کی دعوت دی ، پھر اس اجبار و انکار کا معاملہ دراز ہوا حتی کہ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بعد والوں کے لیے درس عبرت بنانا چاہا اور اسی پاداش میں ایک وسیع و عریض گڑھا کھودنے کا حکم دیا، کئی دنوں کی محنت و مشقت کے بعد وہ گڑھا تیار ہوا، اس میں آگ روشن کی گئی اور نمرود کے حکم سے تمام لوگوں کو اس کے حکم کی نافرمانی کرنے والے کا انجام دیکھنے کے لئے بلایا گیا ، منجنیق تیار تھی، آخری بار نمرود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب ہوا، اۓ ابراہیم اب بھی وقت ہے میری ربوبیت کے معترف ہو جاؤ ورنہ اس آگ کی لپٹ تمھارے جسم کو جلا کر خاکستر کر دیگی ، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو یقین کامل تھا کہ میرا رب میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے اس طرح نمرود جیسے ظالم و سفاک کے ہاتھوں آگ میں جلتا نہیں دیکھ سکتا ، پھر یکایک وہ وقت بھی آیا کہ آپ کو اس دہکتے گڑھے میں ڈال دیا گیا، قبل اس کے کہ آپ اس آگ کے قریب ہوں رب کا فرمان صادر ہوا، اۓ آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا، اتنے میں اچانک وہ آگ جو اپنے اوپر سے اڑنے والے پرندہ تک کو جلا کر راکھ کر سکتی تھی لیکن اللہ کے حکم سے خوبصورت پھولوں میں تبدیل ہو گئی، بشمول نمرود کے تمام ناظرین و حاضرین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں کامیاب ہوۓ،نمرود کی ساری اکڑ مٹی میں ملتی ہوئی نظر آئی، اور اس کا غرور پاش پاش ہوکر رہ گیا۔
درس عبرت ۔
اسی اہم واقعہ کی عکاسی کرتے ہوۓ ایک شاعر کہتا ہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا،
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا،
یعنی آج بھی ہمارے لئے کفار و مشرکین کی طرف سے لگائی گئی مکر وفریب اور ظلم و جبر کی آگ گلستاں میں تبدیل ہو سکتی ہے، آج بھی اپنے ایمان کی پختگی سے ہم ان کے جھوٹے غرور کو ملیا میٹ کر سکتے ہیں، لیکن بشرطیکہ ہمیں اپنے سینوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایمان کے چراغ کو روشن کرنا ہوگا، توکل علی اللہ کا اتم مصداق بننا ہوگا، اپنے قلوب سے ہر ایک کا خوف نکال کر اسے محض خوف خدا سے آباد کرنا ہوگا ،تب جاکر وقت کا نمرود بھی ہمارے ایمان کے سامنے سرنگوں اور گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آۓ گا۔
آج ذرا سی ناگہانی آفت آن پڑنے پر ہم جانے کیا کیا اناپ شناپ بکنے لگتے ہیں، کبھی کبھی تو اپنے وجود پر پچھتاوا ہونے لگتا ہے، لیکن ہمیں انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے، تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہماری صعوبتیں اور پریشانیاں ان کی دشواریوں کے سامنے ہیچ ہیں ، لیکن کبھی بھی انھوں نے رب کے حضور کلمہ شکایت زبان پہ نہ لایا بلکہ عبادت وریاضت اور تبلیغ دین میں ساری زندگی وقف کر دی اور رب کے حضور مقبول سے مقبول تر ہوتے رہے ۔
آپ قرآن کا مطالعہ فرمائیں تو ایک دو نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے سیکڑوں انبیاء کرام علیھم السلام کے واقعات کو اشارتا اور کنایتا بیان فرمایا ہے،تاکہ امت محمدیہ انھیں پڑھے اور ان کی زندگیوں کو اپنے لیے نمونہ عمل بناۓ، اور دو جہاں کی ابدی سعادتمندی اور حیات سرمدی سے بہرور ہوں۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں انبیاء کرام علیھم السلام جیسا صبر وتحمل کا پیکر اور پریشانیوں کے وقت جذبہ استحکام و استقلال عطا فرمائے۔ تاہم دشمنوں اور باطل قوتوں سے مقابلہ آرائی اور انھیں دندان شکن جواب دینے کے لئے ہمارے ایمان میں مزید قوت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
محمد احمد حسن امجدی
متعلم جامعة البركات علي گڑھ
مسکن لکھن پوروا، رودھولی بازار ضلع بستی یوپی الہند، 8840061391