شہادت اگر چہ اللہ تبارک و تعالی کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اور یہ نعمت اللہ تبارک و تعالی کے انعام یافتہ بندوں کے حصہ میں آئی ہے۔ اور جب شہید کی روح اللہ کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو پروردگار اس کی روح کو چمک اور تأثیر کی ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ اس کا مقام اعلی علیین میں سے ہو جاتا ہے۔ اور پروردگار مٹی کو حکم دیتا ہے کہ اس کے جسم کو بھی سراپا صحیح سلامت اور تروتازہ رکھے۔ اور یوں اس شہید کا جسم زیرزمین رہ کر بھی پروردگار کے فیضان نور سے تروتازہ اور سلامت رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے ، ” وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ “. “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں” (البقرۃ ، 2 : 154) کہ اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والے کو مردہ مت کہو کیونکہ اس نے اللہ کی راہ میں ایسی موت کو قبول کیا ہے جس سے انسانیت کو جلا ملتی ہے۔ ایک چراغ سے کئی چراغ جلتے ہیں۔ اور وہ شہید پوری قوم کو ایک نئی زندگی عطا کرکے خود ایسی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے جو اس فانی دنیا کی زندگی سے کہیں بہتر ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔
پروردگار عالم کا نظام ہستی کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو کوئی بھی اس دنیا میں ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس نیکیوں کے برابر اجر عطا کیا جائے گا۔ اسی طرح جس نے خدا کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ، پروردگار اس کے بدلے میں دس جانیں عطا فرمائے گا۔ لہذا اسی لیے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ” وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ “۔ “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا” (آل عمران ، 3 : 169) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں؛ “اور قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں” (صحیح بخاری ، کتاب الجہاد)
اللہ تبارک و تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کو ان کے نواسے کی شہادت کی صورت میں پورا کیا۔ اور دراصل یہ شہادت نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنے اس نواسے کی شہادت کے تذکرے کو عام کر دیا تھا۔ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک ایسی شہادت ہے کہ جس کی خبر جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے ہی دے دی تھی۔ جب فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچے کو گود میں لے کر زاروقطار رونے لگے۔ حضرت ام فصیل سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ حضور زاروقطار رو رہے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا؛ اللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ابھی جبرئیل علیہ السلام آئے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ میری امت کی ایک جماعت میرے بیٹے کو عنقریب قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا کیا اس بیٹے کو؟ تو آپ نے فرمایا ہاں؛ یاد رہے مجھے اس زمین کی مٹی میں سے کچھ مٹی دی جو کہ سرخ تھی۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر کے علاوہ جبرئیل علیہ السلام نے مقام سعادت کے نشاندہی بھی فرما دی تھی جیسا کہ یہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا؛ مجھ کو جبرئیل امین علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ میرے بیٹےحسین رضی اللہ عنہ كو میرے بعد زمین طف میں قتل کر دیا جائے گا۔ اور جبرئیل میرے پاس اس زمین کی مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ یہی مٹی حسین کا مدفن ہے۔ اور اس مٹی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمیٰ کے سپرد کر دیا اور فرمایا اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ عنہ قتل ہوگیا ہے۔
تاریخ عالم اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں حق و باطل کے معرکے برپا ہوئے۔ لاتعداد شہادتیں ہوئیں۔ اسلام کا اولین دور بہت سی شہادتوں سے بھرپور دور ہے۔ لیکن آج تک کسی شہادت کا اس قدر شہرت و تدکرہ نہ ہوا جس قدر شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ہوا۔ اور یہ شہرت و بلندی تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے طفیل ہی ہے کہ جہاں قیامت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سیرت جاری و ساری رہے گی اس وقت تک اس شہادت کا تذکرہ زندہ وتابندہ رہے گا۔ اس کی بہت بڑی وجہ صاحب شہادت کی وہ نسبت ہے جو انہیں اپنے نانا نبی خاتم الزماں سے تھی۔ یہ بلندی و عظمت اس وجہ سے ہے کہ جہاں قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فرمایا کہ ورفعنا لک ذکرک۔ تو جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو اللہ نے رہتی دنیا تک کے لئے بلند کردیا وہاں پر آپ کے اس نواسے کی شہادت کے ذکر کو بھی تمام شہادتوں پر بلند فرما دیا ، کیونکہ اسی نواسے کے لئے آپ نے فرمایا تھا کہ “حسین منی وأنا من الحسین”۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی میں تو (حسین منی) تو بہت واضح ہے کہ نواسہ اپنے نانا کی بدولت سے ہے۔ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ (أنا من الحسین) کہ میں حسین سے ہوں سے مراد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فضائل و کمالات کا ظہور حسین رضی اللہ عنہ کی ذات مبارکہ سے ہو گا۔ اور یہ نواسہ میری شریعت کو زندہ رکھنے کی نہ صرف اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے گا بلکہ اپنے اہل بیت و اصحاب کو خدا کى بارگاہ میں پیش کردیا اور یہ ثابت کر دیا کہ شہادت کی روح خدا کے راستے میں جان قربان کردینا ہے۔
تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بے شمار بانیان ادیان انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے۔ لیکن جتنی کامیابی بحیثیت رہبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اس کی نظیر نہیں ملتی اور اسی قدر آپ کی سیرت پر معلومات کا ذخیرہ اور تفصیل موجود ہے۔ ان کی خلوت وجلوت غرض یہ کہ کوئی پہلو بھی نہاں نہیں۔ لہذا جس طرح آپ کی سیرتِ عظمی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اسی طرح دنیا میں ہونے والی شہادتوں میں شہادتِ حسین کو جو مقام حاصل ہوا وہ لازوال اور لافانی ہے۔ کیونکہ پروردگار عالم نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کو بحیثیت خاتم النبیین زندہ وجاوید رکھا اسی طرح آپ کے نواسے کی وہ قربانی جو نانا کی شریعت کی بقا کے لیے دی گئی ، اس شہادت کو شہادت عظمیٰ کا درجہ نصیب ہوا۔ اس کے علاوہ اس شہادت کی ایک منفرد خوبی یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس کی تفصیلات بتا دی تھی اور اہل بیت رسول کے علاوہ اصحابِ رسول بھی قبل از وقت اس سے باخبر تھے۔
واقعہ کربلا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اس واقعہ میں اصل اہمیت اس مقصد کی ہے جس کی خاطر امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ قربانی پیش کی۔ شہادت حسین ہمیں بہت سے پیغام دیتی ہے جیسا کہ دنیوی اقتدار ابدی کامیابی کا ضامن نہیں ہے۔ یزید جو کہ دنیا کی چند روزہ اقتدار میں مست ہوکر تکبر ، گھمنڈ اور طاقت کے نشے میں چور ہو کر اپنی مکارانہ چالوں سے دین الہی سے بغاوت کرکے دنیوی لالچ میں مبتلا ہو کر ایمان کے مقابلے میں اپنی ذاتی خواہشات کا سودا کر بیٹھا تو خانوادہ رسول پر ظلم وجور کی انتہا کر دی کہ نہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے مردوں کو شہید کیا بلکہ ان کی عترت کے ساتھ سر بازار بدسلوکی کی۔ اور آج اگر نام زندہ جاوید ہے تو حسین کا ہے یزید کا نام ظلم و جور اور بربریت کا استعارہ بن گیا۔
اس شہادت سے ایک اور پیغام ملتا ہے جو عملی جدوجہد کا پیغام ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی محبت صرف رسموں کو نبھانے کا نام نہیں بلکہ ان کی سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اور رسم شبیری ادا کرنے کا نام ہے۔ اسی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں۔
‘نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری’
یہ رسم شبیری کیا ہے؟ رسم شبیری باطل کے خلاف سینہ سپر ہونے کا نام ہے۔ ظالم بادشاہ کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کا نام ہے۔ جب نبی کی شریعت میں ردوبدل کیا جانے لگے تو رسم شبیری ادا کرتے ہوئے اپنے خاندان واصحاب کے ساتھ باطل کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ نبی کی شریعت کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا جائے چاہے اپنی لاشیں ہی گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کر دی جائیں۔ نبی کے عترت نے جس طرح بازاروں اور درباروں میں حق کی آواز بلند کی، اسی جذبے سے باطل کے خلاف آواز بلند کر کے یزیدیت کے منہ پر طمانچہ مارنا ہی رسم شبیری ہے۔ اور امام عالی مقام کی شہادت ہم سے یہی تقاضا کرتی ہے کہ میری محبت کے رسمی تقاضے نبھانے کے بجائے میدان عمل میں نکل کر اسلام کا نام سر بلند کرتے ہوئے تن من دھن کی قربانی دو۔
لہذا شہادت حسین رضی اللہ عنہ تمام مسلمانان عالم کے لئے یہی پیغام ہے کہ حسینیت محرم الحرام کی رسوم ورواج کو نبھانے کا نام نہیں بلکہ میدان عمل میں نکل کر یزیدیت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا نام ہے۔ حسینیت ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کا نام نہیں بلکہ شریعت محمدی کی سربلندی کے لئے قربانی دینے کا نام ہے۔ حسینیت منافقانہ رویہ کا نام نہیں بلکہ ببانگ دہل حق کی آواز بلند کرنے کا نام ہے۔
حسینیت کا تقاضا ہے کہ یزیدی کرداروں کے سامنے حسینی سپاہ کے سپاہی بن کر علی کی دلفقار لہرا دی جائے تاکہ یزیدیت کے تمام بت پاش پاش ہو جائیں۔ حسینیت امن کے پیغام کو عام کرنے کا نام ہے نہ كہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کر کے گلے کاٹے جائیں۔ اور نہ کہ معاشرے میں جنگ اور فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا جائے۔ حسینیت ایک ایسا عالمگیر پیغام ہے جس کو مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بھی سنا۔ جبکہ آج کا مسلمان پوری دنیا کے سامنے مذاق بن چکا ہے۔ مسلمان کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں دہشت گرد کا تصور ابھر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمیں بحیثیت مسلمان اس پر تفکر و تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔ عصر حاضر میں پیغام حسین کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی روح کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ، وہ روح شہادت جو عالمگیر ہے اور لافانی و ابدی ہے۔