کیرالامیں عہداول کےکالجوں اورمدارس ومساجدمیں اردوکی تعلیم وترویج وترقی سےوابستہ علماء ونثرنگاراورشعراء۔
کیرالاکےعہداول میں اردوکی تعلیم وترویج سےوابستہ علماءونثرنگاروشعراءاوراس عہدکےکالجوں اورمدارس و مساجد۔ اس عنوان کےتحت میں نےمنتخب علماءاساتذہ اورسیاسی لیڈران جیسےمفکرین ومجاہدین آزادی کے ان واقعات کو زیب قرطاس لایاہے جہاں ان کی جانب سے اردوکی ترویج وتشہیروترقی کے انمٹ نقوش ملتےہیں وہیں ان کی زندگی میں آزادی ہندکاجذبہ بھی نظرآتاہے۔ یادرہےکہ میرے عنوان کے دوحصے ہيں ایک کیرالاکےعہداول یعنی قبل آزادی اوراس سے متصل مابعدآزادی میں اردوکی تعلیم وتدریس وترویج میں منہمک علماءاساتذہ اورسیاسی لیڈران ومفکرین،جواس زمانے کے کالجوں اورمدارس ومساجدکے پروردہ یااس سےمتعلق تھے اوردوسراحصہ اسی عہد کے اردواساس پرقائم شدہ ادارے وانجمنیں ہیں۔ اس مضمون میں ہم نےصرف حصہ اول کوپیش کیاہے اوردوسرا حصہ ان شاء اللہ اس کے بعد۔
کیرالامیں اردوکی ترویج واشاعت میں یوں توبیشمارحضرات نے اہم کرداراداکیےہیں جن کاکلی طورپراحاطہ ناممکن ہےالبتہ ان میں سےچیدہ چیدہ چندافرادسے اختصارا روشناس کرایاجارہاہے۔جنہوں نے مختلف جہتوں سے اردوکی ترویج واشاعت میں اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔
1920ءمیں انگریزوں سے”عدم تعاون،،اور”خلافت،، تحریک کےجھنڈےتلےہندوستان کےمسلمان یکجٹ ہوکر “انقلاب زندہ آباد”اور”انگریزوبھارت چھوڑو”کےنعرےبلندکررہےتھےہندوستان کےگوشےگوشےسےانگریزوں کےخلاف علم بغاوت بلندکرنےوالےسرفروشان اسلام جُھنڈکی شکل میں سامنےآرہےتھے۔اس میں شمال وجنوب یعنی دہلی اورمدراس وکیرالا کابعداورفرق مٹ چکاتھاجس طرح علماء واساتذہ دہلی نے”عدم تعاون،، خلافت تحریک میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاتھابالکل اسی طرح دہلی وممبئی اوررام پورسے ہزاروں کیلومیٹردورمدراس وکیرالامیں بھی مجاہدین اسلام نےانگریزوں کےناک میں دم کر رکھاتھا،ویسےتوکیرالامیں بیشمارایسی بڑی بڑی ہستیاں تھیں جنہوں نےفضل حق خیرآبادی کے “فتوی جہاد افرنگ،،پرمن و عن عمل پیراہوئے ہیں۔ ان ہی سرفروشان اسلام اورمجاہدین آزادی ہندمیں ”علی مسلیار،،کانام سنہرے حرفوں سےلکھےجانےکےقابل ہےجو اپنےوقت کےنامورعالم وفاضل ہونےکےساتھ اسوقت کیرالا ضلع ملاپورم کےقصبہ ترورنگاڑی کی مسجدکےپیش امام بھی تھے،ان کواپنی مادری زبان ملیالم اورعربی کےعلاوہ اردو زبان سےبھی کافی اچھی واقفیت تھی اردوسےان کے لگاؤوتعلق کایہ عالم تھاکہ وہ اپنے یہاں ممبئی اوردہلی وغیرہ سے اردو اخبارات منگوایاکرتےتھے۔ مورخین کاکہناہےکہ اگروہ آنیوالاانگریزی یاملیالم پیپرہوتاتو دہلی وممبئی سےمنگوانے کی ضرو رت ہی نہ پڑتی چونکہ انگریزی اخبارتویہیں مدراس وکیرالامیں ہی دستیا ب ہوجاتااوررہی بات ملیالم اخبارات کی توبلاشبہ وہ تو یہیں کی زبان ہے۔ لہذابیرون کیرالاسے اخبارات منگوانےکامطلب ہےکہ وہ اردواخبارات ہی ہوں گےاورجب اردواخبارکے خریدارہیں تویقیناانہیں اردوبھی آتی ہوگی ورنہ منگوانےکاکیافائدہ؟۔اس لئے تاریخ داں اس نتیجےپرپہنچے ہیں کہ علی مسلیار جوانگریزوں کےخلاف صف آراتھے آزادی کےمتوالےتھے وہ شایددہلی وممبئی میں عدم تعاون وخلافت تحریک سے متعلق ہونے والے واقعات سے بہ ذریعہ اردواخبارباخبرہوکرکیرالامیں اپنی مادری زبان میں لوگوں كوآگاہ کرتےہوں گے۔گویااس عہدمیں بھی علی مسلیاراپنی مسجدسےاردوکے علمبردارتھے۔
علی مسلیارہی کےشاگردوں میں”وارین کنتھ کنجی احمدحاجی،، ہیں یہ بھی عظیم مجاہدین آزادی میں سےہیں احمد حاجی بھی انگریزوں کے خلاف زبردست متحرک وفعال تھےاورشمع آزادی کوروشن کرنے کے ساتھ اردوزبان کابھی چراغ جلائےہوئےتھے۔ ہم یہ کہہ سکتےہیں کہ اول توان کواردوزبان کاتھوڑابہت علم اپنے استادسے ورثےمیں ملاہوگاپھراحمدحا جی صاحب ممبئی تشریف لےگئے اوریہاں چندسال رہ کراردوسےواقف ہوئےاورممبئی سے حجاز گئے جہاں دوران سفربھی اردووالوں سے تعلق رہااورمزے کی بات یہ کہ حجازمیں چھ سال قیام کے دوران بھی کسی عالم سے اردو سیکھنے کاموقع ملا خلاصہ یہ کہ احمدحاجی صاحب کواردوکااچھاخاصاعلم تھا.بہرحال جب حجازسے اپنےعلاقہ ملبارپہنچےتویہاں انگریزوں کےخلاف زبردست تحریک چل رہی تھی اوراحمدحاجی صاحب اس تحریک کے روح روان بنے، انگریزوں کےخلاف صدائے احتجاج بلندکیا،غالبا یہ 1918ءکےبعداور1922ءکے قبل کا دورتھاجب احمد حاجی انگریزوں سے زبان وبیان کے ساتھ آلہ واسلحہ سےنبردآزماہوئے،اورخودکوخلیفہ ملبارہونےکااعلان کردیاتھا۔ چنانچہ اسی پاداش میں انہیں جنوری 1922ء کوگرفتار کرکےان پربغاوت کامقدمہ چلاگیاجہاں دوران جرح انگریزوکیلوں نےاردومیں سوالات پوچھے تواحمد حاجی نے ان سب کا اردومیں ہی جواب دیااور18جنوری1922ءکوبھری عدالت میں20/جنوری کوپھانسی دینے کی سزاسنائی گئی اور20جنوری 1922ءکوملاپورم کوٹاکُن کےپہاڑی پرلیجاکربھارت کےاس عظیم سپوت پرظالموں نےاندھادھندگولیاں برسائیں جس سےجسم چھلنی ہوگیااوراسی طرح اسلام کا داعی.اردوکاساتھی جام شہادت نوش فرماکراس دنیا کوہمیشہ کےلئےالوداع کہہ گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا چالی لکت کنجی احمدحاجی ملابار کےقدآورمشہورومعروف عالم دین میں سےتھےمولاناکئی علوم وفنون کے ماہرتھےان میں سے ایک اردوزبان بھی ہے جس پرکنجی احمدحاجی کی اچھی خاصی گرفت تھی اردورسائل واخبارات کو پسندکرتےاوران کومنگواتےجن رسائل سے آپ کوزیادہ لگاؤتھاوہ مولاناآزادکی ادارت میں شائع ہونیوالااپنے وقت کا انقلاب برپاکرنیوالارسالہ”الہلال،،تھا1912يا13ءمیں جب مولاناچالی لکت وازے کاڈکے دارالعلوم کے صدرمدرس بنےتو دارالعلوم میں عربی وفارسی زبان کےعلاوہ اردوزبان کی تعلیم بھی شامل نصاب کیا،اردوکی تعلیم سے بچوں کوآراستہ کرنے کے لئے انہوں نےعربی ملیالم زبان میں اردوکےحروف کی پہچان کرانے کے لئے”تصویرالحروف،،نامی کتاب بھی شامل درس کیاتا کہ بچےاردوکواچھی طرح اپنی زبان میں سمجھ سکیں اوربہ آسانی اردوسیکھ سکیں۔ گویامولاناکےذریعہ ایسےمقام میں اردو کوفروغ دینےکی یہ کوشش جہاں کی مادری زبان ملیالم ہےناقابل فراموش عمل ہے۔ مولاناکےخاص شاگردوں میں ”کے،ایم مولوی،،بھی ہیں جوآگےچل کرخلافت تحریک سےجڑگئےتھےکہاجاتاہے ان کوبھی اردوزبان سےاچھی واقفیت تھی۔
”عبدالرحمن صاحب،،اس زمانےکے مسلم طبقہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنیوالوں میں سےایک تھے”آئی،سی،ایس،، کی تعلیم پائی دوران تعلیم ہی تحریک آزادی اورتحریک خلافت میں اس طرح کودپڑےتھےکہ پڑھائی تک ترک کردی،بعدمیں 1921ءکےدرمیان ملابارمیں تحریک خلافت اورکانگریس کےسکریٹری مقررہوئےاوراس زورشورسےتحریک میں حصہ لیاکہ ان کو”شیرملابار”کا لقب دیاگیایہ وہی شخص ہیں جن کوانگریزی کےساتھ اردوبھی آتی تھی جس بناءپربیرون کیرالایعنی ملابار،مثلاممبئی،دہلی،آندھرا،کرناٹکا،وغیرہ کےبڑےرہنماؤں سےقریبی لگاؤتھے بایں وجہ ملابارکی شورش میں مسلمانوں کی ابتری حالات سےدیگرعلاقائی وصوبائی رہنماؤں کوانہیں کی زبان یعنی اردومیں باخبرکرتےرہتےتھے۔
ایم این ستھیارتھی۔ایک مجاہدآزادی ہونےکےساتھ اردوکےماہرین میں گنےجاتے ہیں ان کی تعلیم پاکستان میں ہوئی بعدہ انڈین آرمی میں نوکری کی۔کئی سال کلکتہ میں رہنےکےبعداپنے وطن مالوف کارنتورکالیکٹ کیرالامیں آئےاورپھریہیں کےہوکررہ گئےان کواردوزبان کےساتھ بنگالی زبان بھی آتی تھی انکے بہت سے مضامین”زمین دار،،اخبارمیں شائع ہواکرتےتھے وہیں انہوں نےکئی اردوکتابوں کاترجمہ ملیالم زبان میں بھی کیاہے۔
پی عبیداللہ مولوی۔ یہ اس دورکےشہرت یافتہ عالم تھےجوملبارضلع ملاپورم کےعلاقہ ترورنگاڑی کی مسجدمیں درس وتدر یس کاامورانجام دیتے چونکہ اس وقت یہاں کی مساجد ہی تعلیم کامرکزہواکرتی تھیں حالانکہ وہ ابھی بھی ہے،پھر1938ءمیں قائم شدہ”نورالاسلام مدرسہ،،کے”پی پی عبیداللہ مولوی،،مدرس اول بنے جہاں اس مدرسہ میں ابتدائی ہی سے عربی کےساتھ اردوکی تعلیم کاانتظام تھاوہیں اردوکی تعلیم کی ذمہ داری انہیں کےسرتھی،اردومیں پی پی عبیداللہ مولوی کو اسقدرانسیت تھی کہ انہوں اردو،ملیالم،،لغت بھی تیارکی تھی،یہ اوربات ہےکہ کسی حالات کی بناءپرمنظرعام پرنہ آسکی البتہ اس کاقلمی نسخہ کیرالاکی لائبریری میں موجودہے۔
پی ایچ ڈی اسکالراردواروینٹل کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد۔
فون نمبر۔faizyma@gmail.com\6282254230