اے میرے وطن کے لوگو!
ذرا آنکھ میں بھر لو پانی!
جو شہید ہوئے ہیں ان کی
ذرا یاد کرو قربانی!
1757ء سے ہی مسلم حکمراں انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی میں سرگرم عمل تھے. لیکن یہ جنگیں صوبائی سطح پر رونما ہوئیں. لیکن ہندو مسلم کے کچھ عیار و مکار و حریص و وظیفہ خوار افراد کے سبب شکست پر شکست ہوتی گئی یہاں تک کہ انگریزی حکومت کا اثر و رسوخ تمام صوبہ جات میں قائم ہو گیا. اب ضرورت تھی کہ ملکی سطح پر انگریزوں کے خلاف ہمہ گیر جنگ کی جائے. اس کے لیے ہمیشہ کی طرح علماے اسلام نے جہاد کا علم بلند کر دیا اور جمعہ کے دن جامع مسجد سے ایک شیر دل چیتا جگر عظیم مجاہد آزادی نے اعلان جہاد کر دیا کہ اب مسلمانوں پر انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہے۔ پھر کیا ہوا صرف ایک آواز پر نوے ہزار سپاہ انگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے سینہ سپر ہو گئے. وہ مظلوم مجاہد تحریک آزادی کے علم بردار علامہ فضل حق خیر آبادی ہیں جن کی عظیم قربانیوں کو آج خود مسلمان ہی بھلا بیٹھے ہیں غیروں کی سازشوں کا کیا شکوہ! خدارا اپنی تاریخ کی حفاظت کرو اور اپنی نئی نسل کو تحریک آزادی کے علم بردار علامہ فضل حق کی قربانیوں سے آگاہ کرو! انہیں بتاؤ!
انگریزوں کے خلاف فتوی جہاد جاری کرنے کے جرم میں، ظالم حکمرانوں نے تحریک آزادی کے علم بردار علامہ فضل حق خیرآبادی کو گرفتار کر کے کالا پانی کی سزا کے طور پر جزیرۂ انڈومان بھیج دیا گیا-
جزیرۂ انڈومان کالا پانی کے اسیران و محبوسین کو جن غم اندوہ سزاؤوں کا سامنا کرنا پڑا انہیں پڑھتے ہوئے قلب و جگر کانپ اٹھتا ہے. ظلم وستم کی اس لرزہ خیز داستان کو علامہ فضل حق خود ہی تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’دشمن کے ظلم وستم نے مجھے دریائے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، نا موافق ہوا والے پہاڑ پر پہنچادیا، جہاں سورج ہمیشہ سر پر رہتا تھا۔ اس میں دشوار گزار راہیں اور گھاٹیاں تھیں، جنھیں دریائے شور کی نہریں ڈھانپ لیتی تھیں، اس کی نسیمِ صبح بھی گرم و تیز ہوا سے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلاہل سے زیادہ مضر تھی۔اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں، ہوا بدبودار اور بیماریوں کا مخزن تھی۔ مرض سستا اور دواگراں ۔ بیماریاں بے شمار،خارش وقوبا (وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے) عام تھی- یہاں کی معمولی بیماری بھی خطرناک ہے۔ بخار موت کا پیغام، مرض سرسام اور برسام (دماغ کے پردوں کا ورم) ہلاکت کی علت تام ہے۔ بہت مرض ایسے ہیں جن کا کتب طب میں نام ونشان نہیں۔ نصرانی ماہر طبیب مریضوں کی آنتوں کو تنور کی طرح جلاتا اور مریض کی حفاظت نہ کرتے ہوئے آگ کا قبہ اس کے اوپر بناتا ہے۔مرض نہ پہچانتے ہوئے دوا پلا کر موت کے منھ کے قریب پہونچادیتا ہے۔ جب کوئی ان میں سے مرجاتا ہے تو نجس وناپاک خاکروب جو درحقیقت شیطانِ خناس یا دیو ہوتا ہے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہوا غسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریت کے تودے میں دبا دیتا ہے۔ نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے، نہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اگر مسلمان کی خود کشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب و عتاب کو باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی یہاں قید و مجبور بناکر تکلیف ما لا یطاق نہ دیا جا سکتا اور مصیبت سے نجات پالینا بڑا آسان ہوتا۔
(باغی ہندوستان، ص۷۹ )
(علامہ فضل حق نے قید تنہائی میں رہتے ہوئے ’’الثورۃ الہندیہ‘‘ تحریر کی- جو انقلاب آزادی کا ایک مستند ترین ماخذ ہے- اس کتاب پر مولانا ابوالکلام آزاد نے تعارف لکھا- مختلف لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا- المجمع الاسلامی مبارک پور سے ’’باغی ہندوستان‘‘ کے نام سے شائع ہوا)
لہٰذا 1857ء کی اس کرب انگیز حالات میں مجاہد جنگِ آزادی علامہ فضل حق نے جس بے باکی اور حق گوئی کا مظاہرہ کیا اسے فراموش کرنا عدل و انصاف کے گلے پر چھری چلانا ہے- آپ کی جرآت آمیز جذبے کا اظہار کرتے ہوئے مولانا انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی لکھتے ہیں:
“1859ء میں سلطنت مغلیہ سے وفاداری یا فتواے جہاد کی پاداش یا جرم بغاوت میں مولانا ماخوذ ہوکر سیتاپور سے لکھنؤ لائے گئے- مقدمہ چلا، مولانا موصوف کے فیصلے کے لیے جیوری بیٹھی ایک اسیر نے واقعات سن کر بالکل چھوڑنے کا فیصلہ کیا- سرکاری وکیل کے مقابل خود مولانا بحث کرتے تھے- بلکہ لطف یہ تھا کہ چند الزام اپنے اوپر خود قائم کیے اور پھر خود ہی مثل تار عنکبوت عقلی و قانونی ادلّہ سے توڑ دیے۔ جج یہ رنگ دیکھ کر پریشان تھا اور ان سے ہمدردی بھی بھی، کرے تو کیا کرے! ظاہر یہ ہو رہا تھا کہ مولانا بری ہو جائیں گے سرکاری وکیل لاجواب تھے…… دوسرا دن آخری دن تھا۔ آپ نے اپنے اوپر جس قدر الزام عائد کیے تھے ان کو ایک ایک کر کے رد کیا اور جسم مُخبر نے فتویٰ کی خبر دی اس کے بیان کی توثیق و تصدیق کی اور فرمایا: پہلے اس گواہ نے سچ کہا تھا اور رپورٹ بلکل صحیح لکھوائی تھی۔ اب عدالت میں میری صورت دیکھ کر مرعوب ہو گیا اور جھوٹ بولا- وہ فتوی صحیح ہے- میرا لکھا ہوا ہے۔ اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے- چنانچہ اس کے بعد بے حد رنج کے ساتھ عدالت نے حبسِ دوام کا حکم سنایا۔ آپ نے مسرت سے منظور کیا یہ جج آپ سے کچھ کام سیکھ چکا تھا۔
( غدر کے چند علما ص37-38 مطبوعہ دہلی)۔
کچھ دنوں کے بعد بعض با اثر افراد نے اپنی کوشش سے آپ کے لیے نامۂ نجات حاصل کر لیا- ادھر آپ کے فرزند نے بھی قید و بند کی صعوبتوں سے آزادی کا پروانہ لے لیا تھا- لیکن صد ہزار افسوس کہ جس دن آپ کے صاحبزادے اور معتقدین رہائی کا پروانہ لے کر کالا پانی پہنچے تو ایک جنازہ پر نظر پڑی- معلوم ہوا کہ 12/صفر 1278ھ 1861ء کو حضرت نے وطن کی آزادی میں صعوبتوں کو جھیلتے ہوئے جان، جاں آفریں کے سپرد کر دی۔ لوگ سپرد خاک کر نے جا رہے تھے۔ لہذا آپ حضرات بھی بصد حسرت و یاس تدفین میں شریک ہوئے اور بے نَیلِ مَرام واپس لوٹے-
شیر محمد مصباحی
ڈائریکٹر: البرکات ویلفیئر ٹرسٹ ٹھاکر گنج.
+91 9905084119