جو احادیث میں نقل کرنے جارہا ہوں ان احادیث کر یمہ کو صرف اہل عشق ، اہل وفا ، اہل محبت اور اہل ایمان پڑھیں وہ لوگ ہر گز نہ پڑ ھیں جو احادیث میں ضعف کا معنیٰ نکال کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کا پہلو ڈھو نڈ تے ہیں جب کہ محدثین کے نز دیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ رواۃ میں ضعف ممکن ہے لیکن متن احادیث میں اگر شرعا خلاف اسلا م باتیں یا حکم وارد نہیں تو معنا فضائل کے باب میں وہ احادیث قابل قبول ہیں ۔
سلفیوں کاایک بڑا گر وہ اس بات پر مصر ہے کہ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ نے سب سے پہلے ’’قلم ‘‘ کی تخلیق فرمائی ہے اور اس پر وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں کہ تخلیق محمدی کا جو مرحلہ ہے وہ قلم کے بعد ہے ۔
الحمد للہ ! ہم اہل سنت ، اہل جنت اور اہل محبت متفقہ اس با ت کے قائل ہیں کہ تخلیق خلق میں تخلیق محمدی کو اولیت حاصل ہے ۔ سب سے پہلے جس چیز کی تخلیق عمل میں آئی وہ نور محمدی ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے محبوب دانائے غیوب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق فرمائی اس کے بعد ہی لوح ، قلم ، عر ش و کرسی ،فرشتے ، جن و انس ، زمین و آسمان ، آب و ہوا و دیگر مخلوقات کو پیدا فرمایا اب مسرت و شادمانی میں غوطہ زن ہو کر وہ حدیثیں پڑ ھیں جن میں آپ کی تخلیق کو اولیت حاصل ہے ۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فر ما ئی :یا عیسیٰ آمن بمحمد وأمر من ادرکہ من امتک ان یؤمنو ا بہ فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولاالنا ر ۔ یعنی اے عیسیٰ ! محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایما ن لاؤ اور اپنی امت میں سے ان کا زمانہ پا نے والو ں کو بھی ان پر ایمان لا نے کا حکم دو ۔اگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہیں جنت و دوزخ بناتا ۔ (مواھب لدنیہ، ۲ ؍۲۷۱، سیر ت حلبیہ ، ۳؍۴۲۲)
حضرت امام بوصیری ر حمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی روشنی میں عشق محبت میں ڈوب کر یوں درودو سلام کا ہد یہ پیش کرتے ہیں :
مو لای صل وسلم دآئما ابدا
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلھم
سید نا ومولا نا قد ما یا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یعنی ہما رے سر دار اور ہما رے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے اول ہیں ۔
عاشق رسول ڈاکٹر اقبال عشق کی بولی میں یوں نغمہ سرا ہیں ۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فر قاں وہی یاسیں و ہی طہٰ
اہل سنت کے جلیل القدر عالم و مصنف محمد نعیم نگوروی اس حد یث کی نفیس ترجمانی کر تے ہو ئے یو ں رقم طراز ہیں :
ظہور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کا ئنا ت میں کچھ نہ تھا ، نہ زمیں نہ ز ماں ، نہ مکیں نہ مکاں ، نہ چنیں نہ چناں، نہ عیاں نہ نہاں، نہ ایں نہ آں ، نہ زباں نہ بیاں ، نہ منزل نہ نشاں ، نہ بہار نہ خزاں ، نہ یہاں نہ وہاں ، نہ جدھر نہ کدھر ، نہ ادھر نہ ادھر ، نہ شجر نہ ثمر ، نہ ناز نہ گلزار ، نہ انکار نہ اقرار، نہ قافلہ نہ سالار ،نہ رنگ نہ روپ ، نہ سایہ نہ دھوپ ، نہ سوز نہ ساز ، نہ نشیب نہ فراز ، نہ گلشن نہ صحرا ، نہ ہوا نہ فضا ،نہ آہ نہ بکا ، نہ بلبل نہ چہک ، نہ پھو ل نہ مہک ، نہ غنچے نہ چٹک ، نہ پتے نہ کھڑک ، نہ عرش نہ فرش ، نہ کرسی نہ تخت ، نہ لو ح نہ قلم ۔
(رسول پا ک کے اسما ئے گرامی مع تشریح ، ص ۳۴۶)
امام عشق و محبت مجد د دین و ملت اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلوی ر حمتہ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہو ں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
امام محمد بن یو سف صالحی شامی رحمتہ علیہ اپنی مایۂ ناز کتاب ’’سبل الھدیٰ والرشاد فی سیر ۃ خیر العبا د ‘‘میں جو سیر ت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مو ضوع پر نہا یت جامع ہے اس کتاب میں آپ ایک باب کا نام ہی یہ رکھا ہے ۔’’خلق آدم وجمیع المخلوقات لا جلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور ساری مخلوق کا تخلیق کیا جا نا یہ سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے ۔یہ وہ باب ہے جس میں مذکورہ بالاروایت نقل کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام جمال ا لدین محمود بن جملہ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فر ما یا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور نبی یا کسی فر شتے کو یہ فضیلت حا صل نہیں ہو ئی ۔
(سبل الھدیٰ والر شاد ،۱؍ ۷۴)
اس با ب میں میں آپ کو ایک ایسی حد یث پیش کر نے جا رہا ہوں جسے علما حد یث جبر ئل بھی کہتے ہیں ایک مر تبہ حضرت سید نا جبر ئل امین علیہ السلام با رگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حا ضری کا شر ف حا صل کیا اور یو ں عر ض گزار ہو ئے :آپ کا رب ارشاد فر ما تا ہے : ولقد خلقت الدینا واھلھا لا عر فھم کرامتک ومنزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدینا ۔یعنی بے شک میں نے دنیااور اہل دنیا کو اس لئے پیدا فر ما یا ہے کہ اے محبوب ! آپ کی قدرو منزلت جو میرے نز دیک ہے وہ انہیں بتا ئو ں اور اگر آ پ نہ ہو تے تو میں دنیا کو پیدا نہ فر ما تا ۔
(خصائص کبریٰ ،ج۲،۳۳۰)
عاشق رسول امام اہل سنت قاطع شر ک و بد عت اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلوی ر حمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی اپنے ایک شعر میں یو ں وضا حت کر تے ہیں کہ :
ہو تے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ
لو لاک والے صاحبی سب تیرے در کی ہے
مواھب لدنیہ میں ہے کہ جب اللہ پا ک نے حضرت سید نا آدم علیہ السلام کو پید ا فر ما یا تو آپ نے عر ش پر نو ر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملا حظہ فر ما کر با رگا ہ خداوندی میں عر ض کی :اے میرے رب ! یہ نو ر کیسا ہے ؟اللہ پا ک نے ارشاد فر ما یا :ھذا نور نبی من ذریتک اسمہ فی السماء احمد فی الارض محمد لولاہ ما خلقتک ولاخلقت سما ء ولا ارضا ۔یعنی یہ آپ کی اولاد میں سے ایک نبی کا نو ر ہے جن کا آسمان میں مشہو ر نا م احمد ہے جب کہ زمین میں محمد ہے اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آپ کو پیدا کر تا اور نہ نہیں آسمان و زمین کو بنا تا ۔
(مواھب لدنیہ ، ج۱، ۳۵؍ زرقانی علی المواھب ، ج ۱ ، ص ۸۵)
نعت مقدس کی مشہور کتاب ’’شما ئم بخشش ‘‘کا ایک عشق سے معمور شعر ہے جو اس حدیث کی ترجمانی کرتا نظر آرہا ہے ہزار سلام ہے ایسے عاشق رسول پر جو حضور کی تعریف و تو صیف میں یو ں رطب اللسان ہیں :
زمیں آسماں کچھ بھی پیدا نہ ہو تا
نہ ہو تی جو منظور خلقت تمہا ری
کتاب ’’جواہر البحار ‘‘میں ایک حد یث قد سی نقل ہے کہ :لو لا ک ما خلقت سما ء ولا ارضا ولا جنا ولا ملکا ۔یعنی اے محبوب ! اگر آپ نہ ہو تے تو میں آسمان و زمین اور جنات و فر شتو ں کو پیدا نہ فر ما تا ۔گو زمین و آسمان جن و ملک سب کی تخلیق آپ کی تخلیق کا صد قہ ہے سب میں آپ ہی کا نو ر ہے ،آپ ہیں تو سب ہیں اور آپ نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا ۔اسی لئے امام اہل سنت قاطع شر ک و بد عت مجد د دین و ملت امام احمدر ضا خاں فر ما تے ہیں :
زمیں و زماں تمہارے لئے مکین و مکا ں تمہارے لئے
چنین و چنا ں تمہا رے لئے بنے دو جہا ں تمہا رے لئے
دہن میں زباں تمہا رے لئے بدن میں ہے جاں تمہارے لئے
ہم آئے یہاں تمہارے لئے اٹھیں گے وہا ں تمہارے لئے
فرشتے خدم رسول حشم تمام امم غلام کرم
وجو دو عدم حدوث و قدم جہا ں میں عیاں تمہارے لئے
مذکورہ بالا تما م احا دیث سے یہ علم ہو چلا کہ اگر آپ تشر یف نہ لا تے تو کا ئنا ت کی کوئی شئی وجو د میں نہ آتی ۔اگر آ پ نہ ہو تے تو گلو ں کی مہک نہ ہوتی ، نہ چا ند کی چا ندنی ہوتی ، نہ غنچوں کا تبسم ہوتا ، نہ بلبل کا ترنم ہو تا ،نہ سور ج کا جلال ہو تا نہ چا ند کا جمال ہوتا ۔اسی مضمون کو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے ۔
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ چراغ بریں یہ قمر یہ ستارے
سمندر کی طغیانیاں یہ کنارے
یہ دریا کے بہتے ہوئے صاف دھارے
یہ آتش کی سوزش یہ اڑتے شرارے
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہوتا
عنادل کی نغمہ سرائی نہ ہوتی
ہنسی گل کے ہو نٹوں پہ آئی نہ ہوتی
کبھی سطوت قیصرائی نہ ہوتی
خدا ہو تا لیکن خدائی نہ ہوتی
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ راتوں کے منظر یہ تاروں کے سائے
خراماں خراماں قمر اس میں آئے
میرے قلب مخزوں کو آکر لبھا ئے
لٹا تا ہو ا دولت نور جائے
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہوتا
نہ بطن صدف میں در خشندہ ہوتی
نہ سبزی قبا ئو ں میں ملبو س گیتی
فلک پہ حسیں کہکشاں بھی نہ ہو تی
زمیں کی یہ پر کیف سو تا نہ سوتی
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا