اساتذہ:
سری سقطی کو حدیث سے خاص لگاوتھا ایک مرتبہ فرمایا کہ ”جو صوفی حدیث نہ پڑھے وہ ناقص ہے“۔ (31)ان کا ذوقِ حدیث در اصل ان کے اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ تھا، جن میں کئی ایک مشہور محدث تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: فضیل بن عیاض“ (187ھ/ 802ئ) ہشیم بن بشر العجلیؒ (183ھ/ 798ئ) محمد بن معن غفاریؒ، ابوبکر بن عیاش، علی بن غرابؒ، یزید بن ہارونؒ (32) سفیان بن عیینہؒ، مروان بن معاویہؒ، محمدبن فضیل بن خزانؒ، عبداللہ بن میمونؒ (33)۔ ان کے علاوہ دو استاد تصوف میں ہیں: معروف کرخیؒ (200ھ/816ئ) اور حبیب عجمیؒ۔ عبداللہ بن مطرفؒ کا شمار بھی ان کے اساتذہ تصوف میں ہوتا ہے۔
تلامذہ اور مریدین:
سری سقطی کے فیض یافتگان کی تعداد کافی ہے، اگرچہ وہ باضابطہ نہ استاد رہے ہیں اور نہ ان کا کوئی حلقہ درس تھا۔ اس کے باوجود ان کی صحبت میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے باضابطہ تلمّذ اختیار کیا۔ ان کے تلامذہ میں سیدالطائفہ شیخ جنید بغدادیؒ بڑی غیر معمولی اور عظیم المرتبت شخصیت کے مالک ہیں، ان کے علاوہ حسب ذیل تلامذہ کے نام تصوف کی کتابوں میں ملتے ہیں:
ابوالحسن علی بن عبدالحمید بن عبداللہ بن سلیمان الفضائرؒ (متوفی 313ھ/ 926ئ) اسماعیل بن عبداللہ الشامیؒ، ابوحامدؒ، قاسم بن عبداللہ البزازؒ، ابراہیم بن سری السقطیؒ، محمد بن اسحاق الاسلمیؒ، علی بن حسین بن حرب القاضیؒ، عبدالقدوس بن قاسمؒ، عبداللہ بن میمونؒ (سری سقطی نے ان سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے)، محمد یا فضل بن جابر السقطیؒ، سعید ابن عثمانؒ، ابوعثمان الخیاطؒ، ابوبکر النساجؒ، احمد بن خلف، ابوعبداللہ المقریؒ، ابوعبداللہ محمد ابن عبید حسن بن علی بن شہریارؒ ۴۳ ابوالعباس احمد بن محمد مسروق الطوسیؒ (م299ھ) ابوالحسین نوری (م 295ھ/ 908ئ) ابراہیم بن عبداللہ المغربیؒ، عبداللہ بن شاکر، ابوبکر الحربیؒ، العباس بن یوسف الشکلیؒ (م 314ھ/926ئ)۔ (35) حسن بن علی ابوعلی المسوحیؒ، (م313ھ/ 913ئ)، سعید بن عبدالعزیزؒ، ابوعثمان الحلبی نزیل دمشق (م 312ھ/ 912ئ)، ابوالحسین احمد بن محمد المعروف بابن البغویؒ (36) سمنون المحب، ابوسعید الحزاز، محمد اور احمد ابنا ابی الوردؒ، ابوحمزہ البغدادیؒ (م 283ھ/896ئ) خیر النساجؒ (متوفی 322ھ/ 934ئ) ابوحمزہ محمد بن ابراہیم البغدادیؒ (37)۔
سری سقطیؒ اور شیخ جنید بغدادیؒ:
سری سقطی شیخ جنید بغدادی کے ماموں اور مربّی تھے۔ بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ شیخ جنید مکتب سے آئے تو اپنے والد کو روتا ہوا دیکھا، پوچھا: کیا بات ہے ؟ والد نے جواب دیا کہ آج میں سری سقطی کے پاس کچھ زکوٰة کا مال لے کر گیا تھا، لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس لےے رورہا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی دس پانچ درہم کے پھیر میں ختم کردی اور یہ بھی خدا کے ولیوں کے یہاں مقبول نہیں۔ شیخ جنید نے کہا کہ مجھے دیجےے، میں دے آتا ہوں۔ شیخ جنید سری سقطی کے گھر گئے ، اجازت طلب کی، پوچھا: کون؟ شیخ جنید نے جواب دیا : میں جنید ہوں، آپ زکوٰة کی یہ رقم قبول کرلیجےے، سری نے انکار کیا تو شیخ جنید نے فرمایا: جس خدا نے آپ کو یہ فضیلت بخشی اور میرے باپ کے ساتھ یہ عدل کیا اس کے لےے قبول کرلیجےے۔ سری نے دریافت کیا: اے جنید، خدا نے مجھے کیا فضیلت دی اور تیرے باپ کے ساتھ کیا عدل کیا؟ شیخ نے جواب دیا : اس نے آپ کو درویشی بخشی، یہ آپ کی فضیلت ہے اور میرے والد کو دنیا میں مشغول کیا، اگر آپ چاہیں تو اس کو قبول کریں، چاہیں تو رد کردیں۔ لیکن میرے باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس رقم کو مستحق تک پہنچائے۔ سری سقطی کو یہ جواب پسند آیا اور انھوں نے کہا : ”میں نے اس کو بھی قبول کیا اور تجھ کو بھی“۔ (38)
اس کے بعد شیخ جنید مستقل سری کی صحبت میں رہنے لگے۔ انھوں نے ان کی پوری تعلیم و تربیت کی نگرانی کی۔ شیخ جنید درس حدیث سے فارغ ہونے کے بعد حارث محاسبی کی مجلس میں جانے لگے، سری نے ان کو تنبیہ کی کہ حارث محاسبی سے علم و ادب سیکھنا اور ان کی کلامی موشگافیوں سے دور رہنا اور دعا دی کہ ”اللہ تعالیٰ تجھے صاحب حدیث صوفی بنائے، نہ کہ صوفی صاحب حدیث“۔ (39)
شیخ جنید نے بیان کیا ہے کہ سری سقطی جب مجھے کوئی علمی فائدہ پہنچانا چاہتے تو سوال کا انداز اختیار کرتے ۔ ایک دفعہ پوچھا: شکر کے کیا معنی ہیں؟ میں نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے کسی بھی نعمت میں اس کی نافرمانی نہ کی جائے ۔ (40)
سری سقطی اور شیخ جنید بغدادی کے تعلق سے اور بھی واقعات تصوف کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔ سری سقطی کے مرض الموت میں شیخ جنید نے ان کی خدمت میں زیادہ حاضری شروع کردی تھی۔ ایک دن گئے تو دیکھا کہ وہ ہوش میں نہیں ہیں، ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور رونے لگے۔ آنسو سری کے رخساروں پر گرے تو ان کو ہوش آیا۔ (41)
افکار
سری سقطی کا شمار کبارِ صوفیہ میں ہوتا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ بغداد میں تصوف کی داغ بیل انھوں نے ڈالی تھی۔ ابوعبدالرحمن سلمی نے لکھا ہے ”بغداد میں سب سے پہلے انھوں نے توحید اور حقائق پر گفتگو کی“۔ (42)
سری سقطی کی تحریریں اور تفصیلی کلام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے افکار سے مکمل واقفیت مشکل ہے، لیکن ان کے شاگرد شیخ جنید سے ان کی جو روایات منقول ہیں اور ان کے دیگر شاگردوں سے جو روایات ملتی ہیں وہ یقیناً ان کی فکر کا خلاصہ ہیں۔ ذیل میں ان کے ملفوظات کی روشنی میں ان کے تصوف کو سمجھنے اور ان کے افکار سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
تصوف:
سری سقطی کے لےے تصوف کوئی علمی مسئلہ نہیں تھا۔ انھوںنے باضابطہ تصوف کی تعلیم حاصل کی تھی نہ معروف معنوں میں ارادت و سلوک کی راہ اختیار کی تھی۔ ان کے لےے تو یہ راہ بس ایک اتفاقی اور حادثاتی واقعہ تھا، جس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی زندگی زہد و عبادت میں لگادی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں لفظ تصوف یا صوفی کا کوئی قابلِ ذکر استعمال نہیں ہے۔ وہ بالعموم عبادت ، عمل، اخلاص، نیت، للہیت اور خوف و رجا کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے ملفوظات میں صوفی کا واحد استعمال الرسالة القشیریة کے حوالے سے ہوا ہے۔ انھوں نے ایک مرتبہ صوفی کی خصوصیات بتاتے ہوئے فرمایا: ”تصوف تین چیزوں کا نام ہے اور صوفی وہ ہے جس میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں: 1- صوفی کا نورِ معرفت اس کی پرہیزگاری کے نور کو نہ بجھادے۔ 2- صوفی اپنے باطن میں بھی کوئی ایسی بات نہ کہے جو نصِّ قرآنی کے خلاف ہو۔ 3- کرامات دکھانے کی خاطر کوئی حرام کام نہ کرے۔ (43)
وہ لفظ ’تصوف‘ کی جگہ لفظ ورع کا استعمال زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مثلاً حذیفہ مرعشی، ابراہیم بن ادھم، یوسف بن اسباط اور سلیمان الخواص کے بارے میں فرمایا کہ ”یہ چاروں اہل ورع میں سے تھے“۔ (44)
آدابِ مرید:
انھوں نے مرید کے دس آداب بتائے ہیں: ۱-نفل نمازوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب، ۲-امت کے ساتھ خیرخواہی کے ذریعے تزین ، ۳-کلام اللہ کے ذریعہ انس، ۴-اللہ تعالیٰ کے احکام پر ثابت قدمی، ۵- اس کے احکام کی فرماںبرداری، ۶- اس کی نظر سے حیا، ۷- اس کے پسندیدہ کاموں کو انجام دینے کی کوشش، ۸- کم پر راضی ہونا، ۹-گم نامی پر قناعت (راوی سے کوئی ایک بات چھوٹ گئی)۔ (45)
ان کے نزدیک یہ سلوک کی ابتداء ہے۔ اس کی انتہاء کے بارے میں وہ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص کسی باغ میں داخل ہو، اس میں ہر قسم کے درخت ہوں، ان درختوں پر ہر قسم کے پرندے ہوں اور ہر پرندہ اس آدمی کی زبان میں اس سے گفتگو کرے اور کہے ”السلام علیک یا ولی اللہ“ تو اگر سالک نے اس کو منزل سمجھ لیا تو ابھی وہ انہی کے ہاتھوں میں قید ہے۔ (46) اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک پر کسی طرح کے مغیبات و اسرار منکشف ہوں، تب بھی وہ سلوک کی روش پر گامزن رہے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے تب ہی وہ حقیقی معنوں میں سالک ہوگا۔
ذوقِ عبادت:
ان کی زندگی میں عبادت و ریاضت کا پہلو غالب تھا۔ شیخ جنید بغدادی نے فرمایا کہ ”میں نے ان سے زیادہ عبادت گذار کسی کو نہیں دیکھا“۔ (74) شیخ جنید نے ان کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ جب رات چھاجاتی تو وہ عبادت میں لگ جاتے۔ پہلے حصہ میں نیند کو دفع کرتے ، پھر دفع کرتے رہتے یہاں تک کہ جب ان پر نیند کا غلبہ ناقابل برداشت ہوجاتا تو رونا شروع کردیتے۔ (48)
ان کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ رات میں اپنے اوراد و وظائف کی انجام دہی میں مصروف رہتے، اس پر بھی ان کو احساس رہتا تھا کہ میں ابھی کما حقہ عبادت نہیں کرپارہا ہوں۔ آخرِ عمر میں بھی ان کے معمولات میں فرق نہیں آیا، بلکہ ان کا یہ احساس مزید بڑھ گیا تھا کہ میں حقیقی معنوں میں عبادت نہیں کرپارہا ہوں، اس لےے نو جوانوں کو کثرت سے عبادت کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ سری نوجوانوں کو نصیحت کرتے تھے کہ ”اے نوجوانو، عمل کرو، اس لےے کہ عمل جوانی میں ہی ہوسکتا ہے، مجھ سے عبرت حاصل کرو“۔ حالانکہ اس وقت بھی سری نوجوانوں سے زیادہ عبادت کرتے تھے۔(49) وہ رات میں عبادات کا بڑا اہتمام کرتے تھے، فرماتے تھے کہ فوائد رات کی تاریکی میں نازل ہوتے ہیں۔ (50)
عبادات میں ان کی ترجیح فرائض و نوافل میں انہماک سے عبارت تھی۔ سماجی زندگی سے وابستہ فرائض اور زندگی کی دیگر ضروریات میں اطاعت بھی عبادت ہے، لیکن دین کے اس وسیع تصور کی روشنی میں سری سقطی کی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ ایک طرفہ نظر آئے گی، لیکن ہر زمانے کی اپنی ترجیحات اور اپنے امتیازات ہوتے ہیں جن سے کوئی شخص آزاد نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں ان کی زندگی کی زیادہ تفصیلات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ ان کے جو ملفوظات دستیاب ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں تعبّدی امور کے علاوہ سماجی واجبات، رزقِ حلال، محرمات سے اجتناب کا گہرا شعور و ادراک بہرحال تھا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ تین چیزیں ابرار کی صفات ہیں: ۱- فرائض کی انجام دہی، ۲- محارم سے اجتناب، ۳- غفلت سے احتراز ۔ (51)
خشیتِ الٰہی:
ان پر ہمیشہ خشیت الٰہی کا غلبہ رہتا تھا۔ موت کا خوف اور آخرت کی جواب دہی، اپنے اعمال پر گرفت کا ڈر ان کے لےے ہمیشہ مہمیز کا کام کرتا تھا۔ وہ لوگوں کو اس کی تلقین بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا : آدمی کو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنا چاہےے۔ (52) ان کو یہ احساس رہتا تھا کہ میں بہت گناہ گار ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے گناہوں کی پاداش میں مجھے دنیا میں ہی کوئی سزا نہ ہوجائے۔ دن میں کئی کئی دفعہ اپنی ناک کو دیکھتے کہ کہیں گناہوں کی وجہ سے سیاہ تو نہیں ہوگئی ہے۔ (53)آخر عمر میں فرماتے تھے : میں چاہتا ہوں کہ میری موت بغداد میں نہ ہو۔ لوگوں نے پوچھا: کیوں؟ جواب دیا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری قبر مجھے قبول نہ کرے، اس طرح میری دنیا میں بھی رسوائی ہوگی۔(54)
خوف و خشیت کا تعلق قلبی کیفیات سے ہے۔ کسی چیز سے ایک شخص خوف محسوس کرتا ہے دوسرا نہیں ۔ ایک کو فکر ہوتی ہے دوسرا فکر سے بے نیاز ہوتا ہے۔ سری سقطی نے قلب کی ان کیفیات کی روشنی میں اس کی تین قسمیں قرار دی ہیں: ا- ایک تو پہاڑ کی مانند ہوتا ہے جو اپنی جگہ قائم رہتا ہے ۲-دوسرا کھجور کے درخت کی مانند ہوتا ہے، اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، لیکن ہوا کی گردش کا اس پر اثر ہوتا ہے۔ ۳- تیسرا ریشہ کی طرح ہوتا ہے، ہوائیں اس کو اڑاتی پھرتی ہیں۔ (55)
اکلِ حلال:
ان کو اکل حلال کا بہت احساس رہتا تھا۔ وہ دوسروں کو اس کی تلقین کیا کرتے تھے اور خود بھی سختی سے اس پر کاربند تھے۔ یہ واقعہ گذر چکا ہے کہ اپنی بہن کے کاتے ہوئے سوت میں شک کی خبر ملی تو ان کی کفالت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ (56) ابونعیم اصفہانی نے لکھا ہے: وہ رزق طیب کے سلسلے میں بہت مشہور تھے، حتی کہ امام احمد ان کو اسی امتیازی صفت سے پہچانتے تھے۔ (57) ایک مرتبہ سری سقطی کو کھانسی ہوگئی، حسین بن حرب سے دوا منگوائی، وہ اتفاق سے ان کا عقیدت مند تھا۔ اس نے اپنے بیٹے علی کے ہاتھوں دوا بھیجی، انھوں نے پوچھا : اس کی قیمت کیا ہے؟ علی نے جواب دیا: ابو نے قیمت لینے سے منع کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اپنے والد کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ ہم ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنھوں نے پچاس سال اپنی دینی زندگی کی بنیاد پر کوئی چیز (مفت) نہیں کھائی اور تم ہو کہ آج ہی ہم کو ہمارے دین کے عوض کھلانا چاہتے ہو۔ (58)
طلب رزق کے سلسلے میں فرماتے تھے کہ بہترین رزق وہ ہے جس میں پانچ خصوصیات پائی جائیں۔ ۱- گناہ کی آمدنی نہ ہو ، ۲- ذلت کی آمدنی نہ ہو ، ۳- سامان بنانے میں خیانت نہ کی گئی ہو، ۴- مال اسبابِ معاصی سے نہ کمایا ہو، ۵- معاملہ ایسا نہ ہو جو ظلم پر مبنی ہو ۔(59) اس حلال رزق کے کھانے میں بھی ان کا رجحان یہ تھا کہ آدمی ڈرتے ہوئے کھائے۔ ایک دفعہ ان کے سامنے اہل حقائق کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ”ان کا کھانا مریضوں کا سا اور نیند ڈوبتے ہوئے آدمی کی نیند جیسی ہوتی ہے۔ (60)
معاشرتی زندگی:
سری سقطی ابتداءمیں ایک تاجر تھے، پھر تجارت چھوڑ کر یک سوئی سے عبادت کرنے لگے اور خلوت اختیار کرلی۔ لیکن ان کی یہ خلوت عام صوفیہ کی خلوت نہیں تھی، بلکہ یہ ایک طرح سے غیر ضروری لوگوں کی صحبت سے اجتناب اور تضییع اوقات سے پرہیز کی کوشش تھی۔ اس طرح گویا انھوں نے اپنا دائرہ احباب محدود کرلیا تھا اور بلاوجہ ملنے ملانے سے اجتناب کرنے لگے تھے، ورنہ ان کے احباب تو ان کے پاس آتے ہی رہتے تھے اور بہ وقت ضرورت وہ خود بھی دوسروں کے یہاں جاتے تھے۔ کوئی بیمار ہوجاتا تو اس کی عیادت کرتے ، کوئی فوت ہوجاتا تو اس کے جنازہ میں شرکت کرتے، جمعہ کی نماز کے لےے بہت جلد مسجد پہنچنے کا اہتمام کرتے اور پنج وقتہ نمازوں کے لےے مسجد جاتے تھے۔
عبداللہ بن الجلاء نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ ایک دفعہ سری سقطی کے یہاں ٹھہرے۔ دیکھا کہ وہ رات کو کپڑے پہن کر کہیں باہر جارہے ہیں۔ واپس آئے تو دریافت کیا: آپ کہاں گئے تھے؟ فرمایا: ایک دوست بیمار ہے، اس کی عیادت کے لےے گیا تھا۔ (61)ایک دفعہ ان کے پڑوس میں کسی کا انتقال ہوگیا، وہ اس کے جنازے کے ساتھ گئے، اتفاق سے جمعہ کا دن تھا، اس میں ان کو تاخیر بھی ہوگئی۔ (62)
سری سقطی کی معاشرت ایسی تھی کہ اس میں غیر ضروری ملاقاتوں کے لےے وقت نہیں تھا، ان کی شہرت کے سبب لوگ ان سے ملنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن وہ اس سے اعراض کرتے، جب مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو لوگ ان کے پاس اکٹھے ہوجاتے تھے، اس لےے وہ گھر سے نکلتے ہوئے یہ دعا مانگتے کہ اے اللہ ان لوگوں کو ایسی عبادت میں مشغول کردے کہ یہ میرے پاس نہ آئیں۔ (63)کوئی گھر ملنے آتا تو اس سے بھی یہی کہتے کہ کیا تمہارے پاس اس وقت اور کوئی کام نہیں ہے کہ میرے پاس چلے آئے۔(64)
جہاں تک اہل سلوک و معرفت کا تعلق ہے تو سری کو ان سے بڑا انس تھا، وہ ان سے ملاقات کے لےے جایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میرا گھر میں بیٹھنا آپ کے یہاں آنے سے بہتر ہے تو میں گھر سے نہ نکلتا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میرا گھر بیٹھنا آپ کے ساتھ بیٹھنے سے افضل ہے تو گھر میں ہی بیٹھا رہتا۔ (65)
ان کی نظر میں فساد کی اصل جڑ دو طرح کی صحبتیں تھیں۔ ایک برے لوگوں کی صحبت، دوسری اچھے لوگوں کی ایسی صحبت جس میں احکام الٰہی ضائع ہوجائیں۔ انھوں نے آخر عمر میں شیخ جنید کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ”شریر لوگوں کی صحبت سے بچتے رہو اور ساتھ ہی اس کا بھی دھیان رہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت تم کو اللہ تعالیٰ سے غافل نہ کردے (یعنی فرائض ضائع نہ ہوجائیں)۔ (66)
جب انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اس کو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیّتوں اور تکلیفوں سے بھی سابقہ پیش آتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص لوگوں کی اذیتوں پر صبر کرے وہ اس سے بہتر ہے جو جنگل میں جا بسے۔ سری سقطی کو معاشرتی زندگی میں صبر کی اس معنویت کا ادراک تھا، فرماتے تھے کہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی زمین کی طرح ہوجائے کہ اس پر انسان و پہاڑ اور بے شمار چیزیں ہیں، لیکن زمین ان کو مصیبت نہیں سمجھتی، بلکہ نعمت اور اپنے مالک کاعطیہ سمجھتی ہے۔ (67) ان کو لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کا بھی بڑا احساس رہتا تھا۔ ایک مرتبہ فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ ساری مخلوقات کا غم میرے اوپر ڈال دیا جائے“۔ (68)
لوگوں کی اصلاح او رآخرت کی فوز و فلاح کے لےے بھی وہ فکر مند اور کوشاں رہتے تھے، فرماتے تھے کہ ”اگر یہ لوگ اپنے جسموں سے بھی ویسی ہی محبت کریں جیسی اپنی اولاد سے کرتے ہیں تو قیامت کے روز ان کو خوشی اور نجات مل جائے گی“۔ (69)
حواشی و مراجع:
31۔ طبقات الصوفیة، ص55 32۔ ایضاً، ص55-84
33۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:127 34۔ ایضاً،ج:10ص:116-127
35۔ تاریخ الاسلام،ج:18ص:150-152
36۔ طبقات الصوفیة، ص۵۶۱، شذرات الذہب، ج:2ص:279
37۔ طبقات الصوفیة، ص195،228،249،295،322
38۔ تذکرة الاولیائ(عطار)، ج:2ص:6-7
39۔ ابوطالب مکی: قوت القلوب ، مطبع مصطفی البابی مصر، 1961ئ، ج:2ص:322
40۔ الرسالة القشیریة، ص366 41۔ حلیة الاولیائ، ۰۱/۵۲۱ج:10ص:125
42۔ طبقات الصوفیة، ص49 43۔ الرسالة القشیریة، ص130
44۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:116 45۔ ایضاً، ج:10ص:117
46۔ ایضاً، ج:10ص:118 47۔ ایضاً، ج:10ص:126، تاریخ الاسلام، ج:18ص:151
48۔ ایضاً 49۔ ایضاً 50۔ ایضاً، ج:10ص:121
51۔ ایضاً، ج:10ص:123 52۔ ایضاً، ج:10ص:121 53۔ تاریخ الاسلام، ج:18ص:151
54۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:116 55۔ ایضاً، ج:10ص:124
56۔ الرسالة القشیریة، ص646 57۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:126
58۔ ایضاً، ج:10ص:117 ۔59 ایضاً، ج:10ص:124 60۔ ایضاً، ج:10ص:125
61۔ الرسالة القشیریة، ص652 62۔ حلیة الاولیائ، ج:10ص:125
63۔ ایضاً، ج:10ص:124 64۔ ایضاً، ج:10ص:126 65۔ ایضاً، ج:10ص:123
66۔ ایضاً، ج:10ص:125 67۔ ایضاً، ج:10ص:120 68 ایضاً، ج:10ص:118 69 ایضاً