Site icon Islamicus

شہیدکی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے



اسرائیل نے پہلے بھی کئی بار تحریک کو تقریباً ختم کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم وہ اس کے عزم کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، کچلنے کی بات تو دور کی ہے۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ابتدائی تصاویر میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو غزہ میں ایک نیم منہدم مکان کے اندر مردہ حالت میں دکھایا گیا ہے، جو شاید وہ منظر نہیں تھا جو اسرائیلی قیادت دنیا کو دکھانا چاہتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جن سپاہیوں کو لاش ملی اور انہیں شبہ ہوا کہ یہ سنوار کی ہے، انہوں نے جلدی میں اس کی تصویریں کھینچی اور اپنے کچھ جاننے والوں کو بھیج دیں، جنہوں نے وہ تصاویر دنیا کے سامنے پیش کر دیں۔

ان کے اعلیٰ افسران کے ذہن میں سنوارکی موت کی ایک الگ ہی کہانی چل رہی تھی۔وہ ایک ایسی تصویر پیش کرنا چاہتے تھے جس میں حماس کا رہنما ایک سرنگ میں اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے چھپا ہوا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ حماس کے اس عظیم قائد نے دشمنوں سے لڑتے ہوئے اپنی قوم و ملت کے لیے جان کی قربانی دی۔ صرف اتنا ہی نہیں، تصاویر میں ان کے سر پر گولی کا زخم دکھایا گیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرار ہونے کی کوشش نہیں کر رہے تھے، جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو دنیا کو دکھانا چاہ رہےتھے، بلکہ وہ اسرائیلی فوجیوں کا سامنا کرتے ہوئے اس راہ حق میں شہید ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کی نظر میں یحییٰ سنوار کی یہ شہادت نہایت ہی معزز اور قابل احترام سمجھی جائے گی۔

غیر متنازع لیڈر

یحییٰ سنوار، جنہیں حماس کے درمیان ’ابو ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،  29اکتوبر  1962ء میں غزہ پٹی کے خان یونس ریفیوجی (پناہ گزین) کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان فلسطینی شہر ’مجدل‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ 1948ء میں فلسطینی ’نکبہ‘ (اسرائیلی قبضہ) کے دوران صیہونی غنڈوں نے ان کے گاؤں پر قبضہ کر لیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ’اشکلون‘ (عسقلان) رکھ دیا۔

غزہ کے شمالی علاقوں میں رہنے والے ہزاروں باشندوں کی طرح، جو راتوں رات ”اسرائیلی قبضے” میں آ گئے تھے، سنوار کا خاندان بھی جنوب کی طرف پناہ لینے پر مجبور ہو گیا، جسے وہ عارضی پناہ گاہ سمجھتے تھے۔ ان تمام پناہ گزینوں کو یقین تھا کہ چند ہی دنوں میں ہمسایہ عرب ممالک کی فوجیں ان کی مدد کے لیے آئیں گی، ان کے قصبوں اور شہروں کی حفاظت کریں گی، اور صیہونی طاقتوں کو روکیں گی، جو فلسطینی آبادی کو ان کی ہی زمین سے نکالنے کے لیے قتل عام کر رہی تھیں۔ لیکن صد حیف کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔

سنوار نے غزہ کے اسکول میں تعلیم حاصل کی اور غزہ اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ وہ اسکول اور یونیورسٹی میں ایک متحرک طالب علم تھے۔ دوران تعلیم، وہ فلسطین کے ’اخوان المسلمون‘ کی شاخ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ انہیں پہلی بار 20 سال کی عمر میں،  1982ء میں، اسرائیلیوں نے 10 ماہ کے لیے گرفتار کیا اور پھر  1985ء میں دوبارہ آٹھ ماہ کے لیے حراست میں لے لیا۔

جب  1987ء میں ’حماس‘ کا قیام عمل میں آیا تو سنوار اس کے نمایاں کارکنوں میں سے ایک کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، اور انہیں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی طرف سے ایک سیکیورٹی دستہ ”مجد” قائم کرنے کا کام سونپا گیا۔ اس کا مقصد غزہ میں موجود ان اسرائیلی جاسوسوں کا پتہ لگانا، ان کا تعاقب کرنا اور انہیں سزا دینا تھا، جنہوں نے فلسطین پر قابض ہورہی اسرائیلی افواج کو غزہ پٹی میں ہونے والی کارروائیوں پر مطلع کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد، سنوار کو 1988ء میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا اور قتل کرنے اور اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے شبہ میں چار لوگوں کے قتل کے جرم میں چار بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

وہ 23 سال تک اسرائیلی قید میں رہے۔ اس دوران انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور کئی کتابیں ترجمہ و تصنیف کیں۔ انہوں نے حماس کے قیدیوں کے معاملات کو سنبھالنے، تعلقات کو مضبوط کرنے اور دیگر گروہوں کے قیدیوں کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔  2011ء میں، گیلاد شالیت نامی ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے میں رہا کیے گئے ایک ہزار فلسطینی قیدیوں میں وہ بھی شامل تھے۔ رہائی کے بعد، سنوار حماس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ قید سے رہائی کے صرف ایک سال بعد، 2012ء میں انہیں حماس کے سیاسی بیورو کا رکن منتخب کیا گیا، اور انہوں نے تحریک کے فوجی ونگ ‘عزالدین القسام’ بریگیڈز کے انتظامی امور میں اہم کردار ادا کیا۔

2021ء میں سنوار کو مزید شہرت ملی جب وہ غزہ میں حماس کی مقامی تحریک کے سربراہ منتخب ہوئے۔ یہ وہ سال تھا جب القدس (یروشلم) میں صہیونیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں گھسنے کی مسلسل کوششوں اور فلسطینی نمازیوں پر اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں ایک اور جنگ چھڑ گئی، جو 11 دنوں تک جاری رہی۔ یہ غزہ پر اسرائیل کا گذشتہ 14 سالوں میں چوتھا بڑا حملہ تھا، جس نے کافی تباہی مچائی اور سینکڑوں افراد کی جانیں لیں۔ اسی جنگ کے دوران سنوار حماس کے ایک بہادر اور غیر متنازع لیڈر بن کر ابھرے۔

”نیویارک ٹائمز” کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، جس میں حماس کے دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے جو اسرائیلیوں نے مبینہ طور پر غزہ میں ایک لیپ ٹاپ سے حاصل کیے تھے، سنوار اور ان کے چند قریبی ساتھیوں نے 2021ء کے اوائل سے ہی اسرائیل کے خلاف ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔

31 جولائی 2024ء کو تہران میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد، طویل مشاورت اور کافی قیاس آرائیوں کے بعد حماس کی مجلس شوریٰ نے 5 اگست کو یحیی سنوار کو اسماعیل ہنیہ کا جانشین اور تحریک کا نیا سیاسی رہنما مقرر کیا۔ یہ اعلان بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔

ایک مستحکم تحریک

روایت کے مطابق، اس عہدے پر عام طور پر حماس کے کسی ایسے رہنما کو فائز کیا جاتا ہے جو جلا وطنی میں ہو، کیونکہ اس عہدے میں سیاسی اور سفارتی امور شامل ہوتے ہیں، جو آزادانہ نقل و حرکت کا تقاضا کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ خالد مشعل ممکنہ امیدوار ہیں۔ تاہم، مشعل نے نامزدگی قبول کرنے سے انکار کیا اور اصرار کیا کہ غزہ، جو اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے، اسی کو اس نازک دور میں اس تحریک کی قیادت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔

اگرچہ سنوار کی شہادت حماس کے لیے ایک اور بڑا جھٹکا سمجھی جائے گی، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ اس سے حماس کی طویل مدتی حکمت عملی متاثر ہو۔ اسرائیل نے پہلے بھی کئی بار تحریک کو تقریباً ختم کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم وہ اس کے عزم کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، کچلنے کی بات تو دور کی ہے۔

فلسطینی مقصد کے لیے 1980ء کی دہائی میں حماس کے منظر عام پر آنے کے بعد سے تحریک کے کئی اعلیٰ رہنما شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں تحریک کے بانی شیخ احمد یاسین شامل ہیں، جو 22 مارچ 2004ء کو شہید ہوئے، اور ان کے جانشین عبدالعزیز الرنتیسی، جو 17 اپریل 2004ء کو شہید ہوئے۔ حماس کے عسکری ونگ ’عزالدین القسام بریگیڈز‘ کے سربراہ احمد الجعبری کو 14 نومبر 2012 ءکو شہید کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے 2 جنوری 2024ء کو تحریک کے سیاسی نائب رہنما صالح العاروری اور 31 جولائی 2024 ءکو تحریک کے اعلیٰ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا۔

تحریک کی مضبوطی دو عوامل سے حاصل ہوتی ہے۔ اول، حماس ایک نظریے کی نمائندگی کرتی ہے، اور وہ نظریہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کا ایک وطن تھا جو ان سے چھین لیا گیا تاکہ صیہونیوں کے لیے ایک ریاست بنائی جا سکے، جسے ایک صدی پہلے یورپ کے صیہونی مسئلے کا بہترین حل سمجھا جاتا تھا۔ فلسطینی تین چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے سے اپنے وطن واپس جانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

حماس کا ظہور صرف فلسطینی انتفاضہ (بغاوت) کا نتیجہ نہیں تھا، جو تحریک کے قیام سے ایک دن پہلے شروع ہوا تھا، بلکہ یہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی قیادت کے اس فیصلے کا بھی نتیجہ تھا جس کے تحت یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو مزاحمت پر ترجیح دی تھی۔ یہ معاہدہ مکمل ناکامی ثابت ہوا، جو ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، حماس کا نظریہ درست ثابت ہوا، اور فلسطینی عوام کی نظر میں پی ایل او نے اپنی نمائندہ حیثیت کھو دی۔ پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان “اوسلو معاہدے” نے پی ایل او کو صرف ایک سیکیورٹی تعاون کرنے والی ایجنسی میں تبدیل کر دیا تها، جو اسرائیل کے لیے کام کر تى تھی۔

1993ء کے بعد سے، فلسطینیوں نے اپنی اراضی کے بیشتر حصے کو ضبط ہوتے، اپنے گھروں کو مسمار ہوتے، اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل، معذور یا گرفتار ہوتے دیکھا۔ وعدہ کی گئی فلسطینی ریاست کبھی وجود میں نہیں آئی، اور” دو -ریاستی حل” ایک سراب بن کر رہ گیا، کیونکہ یہودی بستیوں نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے بڑے حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ حماس ایک ادارہ جاتی تحریک ہے جس کی قیادت منتخب ہوتی ہے اور اس میں شخصیت پرستی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جو لیڈر شہید ہو جاتے ہیں،  فوراً اور بغیر کسی پریشانی کے ان كا بدل منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ سنوار کے بعد کون جانشین بنے گا۔ شاید اس بار کسی جلا وطن فلسطینی کو رہنما کے طور پر چنا جائے، یا ممکن ہے کہ تحریک وقتی طور پر ایک نائب رہنما (ڈپیوٹی لیڈر) کے ساتھ چلے جب تک انتخابات نہیں ہو جاتے۔ تاہم، انتخابات کا انعقاد جنگ کے خاتمے تک ممکن نہیں ہے، اور یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ جنگ کب ختم ہوگی، کیونکہ اس کے شعلے فلسطین سے آگے بڑھتے ہوئے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔

کوئی امید بر نہیں آتی

الغرض، کافی نقصان اٹھانے کے باوجود، شہادت ہمیشہ سے ایک مستعد بھرتی کا ذریعہ رہی ہے۔ فلسطینی اور اسلامی ثقافت میں، شہادت کو عیب یا گناہ نہیں بلکہ ایک نیکی، لقاء الہی، اور حصول جنت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اپنے ان تمام پیش روؤں کی طرح جنہیں اسرائیل نے شہید کیا، سنوار کو بھی لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے ایک عظیم شہید کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو جارحین کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوا۔

ظاہر ہے، قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آیا سنوار کا قتل جنگ کے جلد خاتمے کی راہ ہموار کرے گا؟ ہاں، یہ جنگ ختم ہو سکتی ہے اگر اسرائیل ان شرائط کو قبول کر لے جو حماس پہلے ہی قبول کر چکا ہے اور جو اصل میں امریکی صدر بائیڈن نے تجویز کی تھیں۔ تاہم، اگر نیتن یاہو اب بھی حماس کو تباہ کرنے اور یرغمالیوں کو بغیر کسی تبادلے کے آزاد کرانے پر اصرار کرتا ہے، تو یہ ناممکن ہے کہ ہمیں جلد لڑائی کا کوئی خاتمہ نظر آئے۔ یقیناً، اس بات کا خطرہ ہے کہ سنوار کو ہٹائے جانے کے بعد نیتن یاہو مزید دلیر ہو جائے، خاص طور پر آنے والے امریکی انتخابات کے تناظر میں، جن کا وہ بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔

اگر ایران کو اس کے آخری حملے کا بدلہ لینے کے لیے نشانہ بنایا گیا، تو اس جنگ کے مزید وسیع اور شدید ہونے کا امکان ہے۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل ایران کے اندر کس کو اپنا ہدف بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جہاں تک اس تنازع کا تعلق ہے، یہاں تک کہ اگر یہ جنگ ختم ہو جاتی ہے، تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ خطے میں اس وقت تک سکون قائم ہو جب تک فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا رہے اور جب تک اسرائیلی قبضہ جاری رہے۔”

عزام تمیمی ایک برطانوی فلسطینی اسکالر اور سیاسی و سماجى كارکن ہیں۔ وہ اس وقت الحِوار ٹی وی چینل کے چیئرمین اور اس کے چیف ایڈیٹر ہیں۔



Source link

Exit mobile version