Site icon Islamicus

اللہ کے رسول ﷺکی دعائیں (6)



اللہ کے رسول ﷺکی دعائیں (6)

انسان کی زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔خوشی کے ساتھ غم کے لمحات، صحت کے ساتھ بیماری اورفارغ البالی کے ساتھ مفلوک الحالی یہ سب زندگی کے مختلف روپ ہیں جن سے ہر انسان کبھی نہ کبھی دوچار ہوتا ہے۔خوشی میں خداکو یاد رکھنا مشکل کام ہے۔خداعموما اس وقت یادآتا ہے جب انسان کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے۔قرآن کی سورہ “حم السّجدة” کی آیت نمبر51میں اللہ نے خودانسان کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ “جب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور اپنی طرف دور ہٹ جاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے”۔علماء میں ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود اللہ کو یاد کرنے والے اور دین کے تمام تقاضوں پر پورا اترنے والوں کو غریب اور محتاجوں سے زیادہ افضل مانتا ہے کیوں کہ مال و دولت کی فراوانی کے بعد خدا اور بندوں کے حقوق ادا کرنا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔
 اسلام میں خوشی اور غم کا نظریہ شکر اور صبر سے جڑا ہوا ہے۔اللہ جب کسی انسان پر نعمتوں کی بارش کرتا ہے تو اسے بدلے میں اللہ کا شکر اداکرنا چاہیے۔یوں ہی جب اللہ کسی کو آزماتا ہے اور اسے تنگی سے دوچار کرتا ہے تو اسے صبر کرنا چاہیے۔لیکن عموما ایسا ہوتا نہیں۔قرآن میں خود فرمایا گیا ہے کہ شکر کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔صبر کرنے والوں کی تعداد بهى زیادہ نہیں ہے۔مصیبت کے وقت انسان اکثر تقدیر کو کوسنے لگتا ہے یا اس طرح کہتا ہے کہ ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے۔غم، پریشانی، حزن وملال، افسوس اور  پچھتاوا، کنجوسی، بزدلی، قرض، غربت، بڑھاپا،  محتاجی، بیماری وغیرہ ایسے اسباب ہیں جو انسان کے اندر احساس کمتری  پیداکرتے ہیں اور کہیں نہ کہیں خدا سے اس کے رشتے کو کمزور بنادیتے ہیں کیوں کہ ایسے وقت میں صبر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔اللہ کے رسول ﷺنے مختلف دعاؤں نے ایسی تمام چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگی کہ جن سے انسان آزمائش میں پڑجاتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺکا ایسی تمام حالتوں یا ایسی تمام چیزوں سے پناہ مانگنے کا مطلب صاف ہے کہ انسان کو حتی الامکان ان تمام حالتوں میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہیے۔لیکن اگر کبھی ایسی حالتوں کا سامنا کرنا پڑے تو ان دعاؤں کا بھی سہارا لیا جاسکتا ہے۔ 
 آج کی دعا پیش کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ” استعاذہ “کسے کہتے ہیں۔استعاذہ میں ایک شخص کسی ایسی چیز سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے جس کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ وہ اکیلا اس کا سامنا نہیں کرپائے گا یا یہ کہ اس حالت سے لڑنا اس کے بس کے باہر ہے۔استعاذہ میں انسان اپنی ناطاقتی کا اعتراف کرتا ہے اور سیدھے اللہ سے مدد طلب کرتا ہے کہ تیری مدد کے بغیر ان چیزوں سے بچنا ممکن نہیں ہے۔قرآن میں بھی کئی مقامات پر بندوں کو اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا۔قرآن کی دو مشہور سورتیں الفلق اور الناس اسی نظریے پر مبنی ہیں جن میں مختلف چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔پناہ کہتے ہیں بچنے کی جگہ کو اور یہ حمایت،سہارا،حفاظت اور پشت پناہی کے معنی کو بھی شامل ہے۔
 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لیے کسی لڑکے کا انتظام کرو جو میری خدمت کرے۔لہذا ابوطلحہ مجھے اپنے پیچھے سوار کرکے لے آئے۔اللہ کے رسول ﷺجب بھی مدینہ میں ہوتے، میں ان کی خدمت کرتا۔اس دوران میں نے اکثر انہیں یہ دعا کرتے سنا ”  اَللّھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ، وَالْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَضَلْعِ الدَّیْنِ وَ غَلَبَۃِ الرِّجَالِ۔دعا کا ترجمہ یہ ہے اے اللہ میں اندیشہ اور ملال،ناتوانی اورکاہلی،کنجوسی اور بزدلی، قرض کے بار اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اس دعا میں آٹھ حالتوں سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔اور یہ آٹھوں حالتیں ایسی ہیں کہ ہر انسان کو ان سے گزرنا پڑتا ہے۔
 دعا میں سب سے پہلے دو حالتوں کا بیان ہے “ھم اور حزن”۔امام قسطلانی رحمہ الله اپنی شرح میں لکھتے ہیں کہ” ھم” اس حالت کو کہتے ہیں جب کوئی شخص مستقبل قریب یا بعید میں کسی چیز کے ہونے یا نا ہونے کو لے کر پریشان ہواور “حزن” اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان ماضی قریب یا بعید میں کسی بات کے ہونے یا ناہونے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔انسان اپنی زندگی میں ان دوحالتوں سے کتنی ہی بار گزرتا ہے۔مستقبل کا اندیشہ اورماضی کا افسوس یقینا انسان کے اندر تناؤ پیداکرتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺنے ان دو حالتوں سے پناہ مانگی جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اکثر و بیشتر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں اوریہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حالتیں اچھی نہیں بلکہ بری ہیں۔
 “مستقبل کا اندیشہ” اللہ پر توکل اور تقدیر کے نظریے پر ضرب لگاتا ہے۔مایوسی اور احساس کمتری پیداکرتا ہے۔ماضی میں کسی چیز کے ملنے یا نا ملنے کا افسوس بھی تقدیر کے نظریے سے ٹکراتا ہے۔قرآن کی سورہ “الحديد” کی آیت نمبر22-23 میں اللہ تعالی نے صاف صاف ارشاد فرمایا “نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں (مثلا قحط وغیرہ)اورنہ تمہاری جانوں میں (مثلا بیماریاں)مگر یہ کہ (ایساہونالکھاہوا تھا)ایک کتاب میں قبل اس کے ہم پیداکریں (زمین کو یعنی زمین کے پیداکرنے سے پہلے ہی یہ سب چیزیں لوح محفوظ میں لکھ دی گئی تھیں)بے شک یہ (یعنی ان تمام چیزوں کا لکھنا)اللہ کے لیے آسان ہے تا کہ تم غم نہ کھاؤاس(دنیا کے مال و متاع)پر جو ہاتھ سے چلی جائے اور نہ خوش ہواس پر جو (اللہ نے)تم کو دیا”۔علامہ نعیم الدین مرادآبادی رحمہ الله اس آیت کے تحت لکھتے ہیں “اللہ تعالی نے جومقدر فرمادیا ہے وہ ضرور ہونا ہے نہ غم کرنے سے کوئی ضائع شدہ چیز واپس مل سکتی ہے نہ فنا ہونے والی چیز اترانے کے لائق ہے تو چاہیے کہ خوشی کی جگہ شکر اور غم کی جگہ صبر اختیار کرو”۔ 
 “عجز” اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان چاہتے ہوئے بھی کسی کام کی ہمت یا صلاحیت نہیں رکھتامثلا کوئی شخص بڑا مصنف بننا چاہتا ہے لیکن اس میں مصنف بننے کی بنیادی صلاحیتیں ہی مفقود ہیں تو آخر وہ کیوں کر مصنف بن سکتا ہے۔”کسل “سستی کو کہتے ہیں یہ ایسی حالت ہے کہ انسان میں تمام صلاحیتیں توموجود ہیں مگر وہ کاہلی کی وجہ سے اپنا کام نہیں کرپارہا ہے۔عجز کی حالت میں تو انسان بالکل اپاہج کی طرح ہے کہ لاکھ کوشش کرلے پھر بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا جبکہ سستی اور کاہلی اچھے اچھے باصلاحیت افراد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔لہذا ان دونوں حالتوں سے بھی اللہ کی پناہ مانگنا نہایت ہی ضروری ہے۔
 “بخل” یعنی کنجوسی کو شریعت نے بہت ہی بری خصلت بتایا ہے۔قرآن اور حدیث میں اس کی کئی بار مذمت کی گئی ہے اور ویسے بھی ہر معاشرے میں اس وصف کو برا ہی سمجھا جاتا ہے۔بخل میں انسان اپنے کمائے ہوئے مال کو بچا کر رکھتا ہے اور خرچ کرنے سے اس لیے ڈرتا ہے کہ کہیں خرچ کرنے سے اس کامال ختم نہ ہوجائے۔یہ سوچ شریعت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رزق کا فراہم کرنا اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے نیز یہ بھی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بقیہ مال میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔”بزدلی” بھی ایک برا وصف ہے۔بزدلی سے انسان نہ اپنے جائز حق کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے اور نہ کسی اور کے حقوق کی پامالی کے وقت ان کی مدد کرسکتا ہے۔بزدل انسان خود کو،اپنے خاندان کو اور کبھی کبھی اپنے معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
 دعا کے آخری حصے میں” قرض” اور “لوگوں کے غلبہ اور ان کی بالادستی” سے پناہ مانگی گئی ہے۔انسان قرض اس وقت لیتا ہے جب اس کے پاس کسی ضرور ی کام کو انجام دینے کے لیے مطلوبہ رقم نہیں ہوتی لہذا ناچار اسے دوسروں سے پیسے ادھار لینے پڑتے ہیں۔قرض مانگنے والااگر خوددار ہے تو اسے قرض مانگنے میں بلا شبہ ذلت کا احساس ہوتا ہے کیوں کہ قرض مانگنا یا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ایک طرح کی ذلت ہی ہے۔قرض لینے کے بعد بھی انسان پر ہمیشہ قرض دینے والے کا دباؤ بنا رہتا ہے۔اگر قرض دار وقت پر قرض لوٹا دے تب تو ٹھیک ورنہ قرض دار اور قرض خواہ دونوں کے درمیان رنجش اور کدورت پیداہوجاتی ہے۔قرض کی اسی ذلت سے بچنے کے لیے قرض کی سختیوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔لوگوں کے تسلط سے مراد ایسے لوگوں کا حاکم ہوجانا ہے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتے ہوں۔ظالم حاکم پوری قوم کے لیے آزار بن جاتا ہے۔انصاف پسند اور رحم دل حاکم اپنی قوم کو بہتر زندگی دیتا ہے۔چوں کہ برا حاکم پوری قوم کو نقصان پہنچاتا ہے اس لیے اس سے بھی اللہ کے رسول ﷺنے پناہ مانگی۔امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے الوظیفۃ الکریمہ میں لکھا ہے کہ ادائے قرض کے لیے صبح و شام گیارہ مرتبہ اس  دعا کا ورد کرنا مفید ہے۔



Source link

Exit mobile version