Site icon Islamicus

سید محمد علی شہاب رحمہ اللہ



تیری شمع حق نما میں تھی وہ زور رہنمائی

                اس کائناتِ رنگ وبو میں کچھ ایسی شخصیات بھی جنم لیتی ہیں جو اپنی حیاتِ مستعار ختم کرکے ہماری نگاہوں سے روپوش تو ہوجاتی ہیں مگر انکے کارنامے انہیں مرنے نہیں دیتے، بلکہ پرنور محافل و انجمنوں میں، روشن اذہان و قلوب میں وہ زندہ تابندہ اور پائندہ ررہتے ہیں۔ انھیں نفوس قدسیہ اور ستودہ صفات شخصیات میں ایک مسلم الثبوت شخصیت مرحوم سید محمد علی شہاب رحمہ اللہ کی ہے۔

                آپ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے،خوف ِخدا اور خشیتِ الہٰی آپ کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔خدمت خلق کا جذبہ آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔غریب نوازی اور خدمت ِخلق بچپن ہی سے آپ کی سرشت میں داخل تھی۔

ولادتِ باسعادت:

                سیدمحمد علی شہاب رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت ۴مئی  1936ء میں ریاست کیرلا کے ضلع ملاپرم کے قصبہ پانکاڈ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد ایس ایم سید پوکویاتنگل تھے۔ شیخ کی مکمل حیات اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔رقیق القلب، سخی،خلیق اور مہمان نواز تھے، مزاج میں انکساری اور نرمی تھی۔لیکن اصلاح احوال کے سلسلے میں سختی کو بھی نہایت اہمیت کا حامل سمجھتے تھے۔

                آپکی والدہ ماجدہ کا نام نامی اسم گرامی عائشہ بی فردوس فاطمی تھا۔محترمہ عائشہ بی دینی ودنیاوی دونوں حیثیتوں سے منفرد و ممتاز مقام کی حامل خاتون تھیں ۔انہوں نے زندگی کے ہر دور کا صحیح اور بھرپور استعمال کیا۔چہیتی و فرماں بردار بیٹی،وفاشعار اورخدمت گذار بیوی، پر محبت اور پرخلوص ماں،شکرگزار اور احسان مند بندی تھیں ۔ انہی روحانی روحو ں کی دعائے نیم شبی کے ثمر تھے سید صاحب۔یہ تاروں کی انجمن اور یہ کاروان حسینی یمن کے علاقے”حضر موت“سے بغرض تجارت سر زمین ہندکے سرسبز وشاداب خطہ کیرلا میں آیا اور یہیں اپنا قدم نفیس جمالیا۔ آپکا نسب مبارک انتالیسویں پشت میں جاکر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔

                آپکو خدائے برتر نے ستودہ صفات شخصیات میں سے چار بھائی کے روپ میں عطا فرمائی تھی۔مرحوم سید عمر علی شہاب، سید حیدر علی شہاب، سید صادق علی شہاب اور سید عباس علی شہاب ہیں۔دو بہن سیدہ خدیجہ اور سیدہ مَلاَجو نیک سیرت و پاک طینت تھیں ۔

تعلیم وتربیت:

                والد چونکہ نیک و صالح، صحت مند شعور، سراپا ہمدرد و غم گسار تھے اور والدہ نیک سیرت وپاک دامن تھیں۔اس لئے سید صاحب کی پرورش ونشونما اور پرداخت بہتر سے بہتر سلیقے سے ہوئی۔ابتدائی تعلیم پانکاڈ کے ڈی ایم آرٹی مدرسے میں حاصل کئے۔ ثانوی مرحلہ کالی کٹ کے ایم ایم  مدرسے سے عبور کئے۔1903ء میں کالی کٹ سے میٹرک کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی 1953ء سے 1958 تک تلکوتور کی مسجد میں درس اسلامی کے عمیق بحر میں غرق رہے۔مگر تشنگی نہ بجھی بلکہ دینی شغف، عربی ذوق، اسلامی رجحان،شرعی امنگ،مذہبی الفت اور جذبہء ایمانی نے انہیں آج بھی اس گہما گہمی اور گلوبلائیزیشن کی دور میں، مغربی تہذیب کے آب وہوا میں قرآن وحدیث کے علوم ومعارف کا سمندر، صحابہ و تابعین، سلف صالحین او ربزرگان ِدین کی تعلیمات و تاریخات کا گہوارہ،قوم وملت کی آہ و بکا اور سب سے بڑھ کر خوشنودئ خدا اوررضائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مدارس اسلامیہ کی طرف کھینچ لائی۔مثل ایں 1961ء سے 1966ء کے درمیان مصر کی مشہور ومعروف یونیورسٹی جامعہ ازہر سے عربی ادب میں مہارت تامہ و قدرت کاملہ کے ذریعے اپنی انہوں نے ایک الگ شناخت بنائی۔ اور اوج ثریا کو آنکھیں دکھاتے ہوئے شہرت کے  ہفت افلاک پر نشست فرمایا۔

حلیہ مبارکہ:

                میانہ روی قد،سیاہ زلف عنبریں، وسیع و کشادہ جبیں،چہرہ گلاب وگلبن کی مانند کھلا ہوا،ابیض رنگت، سرخ رخسار،کرۂ ارض کی مانند پھیلا ہوا صدر، سیماب صفت دندان، معمولی پوشاک، تیز وطراز نگاہیں،بعد بینی،ہیبت ووقار تھے۔حضرت کے چہرے سے سپاہیانہ ہیبت کے بجائے کچھ اس قسم کی سنجیدگی اور شرافت کا چشمہ پھوٹتا تھا کہ دیکھنے والا ایک ہی نگاہ میں محبت، عقیدت اور اعتماد کے جذبات سے مغلوب ہو کر رہ جاتا۔

                 آواز میں بلا کی کشش تھی۔وہ ہر قسم کے جذبات کا اظہار اپنی آنکھوں سے کرنے پر قادر تھے۔ غم، خوشی، محبت، نفرت، افسردگی،شوخی،ناپسندیدگی غرض کہ کوئی ایسا جذبہ نہ تھا جسکا اظہاران کی آنکھوں سے نہ ہوتا ہو۔

                جب وہ مسکراتے یا ہنستے تو یوں لگتا کہ چمنستان کی پیاری پیاری کلیاں گل و غنچہ کے صورت اختیار کر رہی ہوں۔ شباب کی رعنائیوں میں وہ شگفتہ گل رعناکی مثل چمن کے شہنشاہ معلوم ہوتے تھے۔

اخلاق وعادات:

                آپ شریف النفس ہونے کے ساتھ ساتھ صداقت و شرافت، ذہانت و فطانت، خلوص و للہیت، عزم و استقلال، انقلاب و انفجار، علم وعمل، امانت و دیانت، پابندئ اوقات، احساس ذمہ داری اور دینی و ایمانی بصیرت میں اپنی مثال آپ تھے۔

                سید صاحب کا مقدس خاندانی پس منظر، دینی خدمت، علمی جلالت، فکری صلاحیت، فنی مہارت، بصیرت و بصارت، اسلوب و دعوت، حکمت وموعظت، تقوی و طہارت کا ایک منبع ہے۔سید صاحب کی حیات مبارکہ پاکیزہ درخت جیسی ہے جس نے پاک زمین میں نشو نما پائی اور صالح ماحول میں پروان چڑھ کر اچھی تربیت پائی او راسکا سایہ پھیلا اور اس پر پھل آئے، پھر لوگ اسکی برکات و حسنات سے مستفید و متمتع ہوئے۔

                آپ شریعت نبوی کے حامی، طریقت مصطفوی کے معاون، اخلاق محمدی کے مدرس، کفر و شرک کے قاطع، جنگ و جدال کے مخالف، اصول معاشرت کے قائل، اسلام کے سچے ہمدرد، مسلمانوں کے بہترین رہنما، غریبوں کے ماوی، فقیروں کے ملجا اور غیروں کے محبوب تھے۔

                آپ بیشتر اوقات کتابت و مطالعہ میں صرف کرتے، آپکی محبوب ترین زبان عربی تھی۔ بایں سبب کے سرور کائنا ت فخر موجودات نبی آخر الزماں نے فرمایا: (”عربی کو تین چیزوں کے سبب پسند کرو (۱)کیونکہ میں عربی ہوں (۲) قرآن مجید عربی ہے (۳) اہل جنت کی زبان عربی ہے)۔ عربی سے لگاؤ ہونے کے باعث آپ عربی اخباربینی کیا کرتے، باضابطہ آپ کے لئے اخبارات و رسائل آتے تھے جسے آپ بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ادبی حلقوں میں بشوق شریک ہوتے جو ہر سات دنوں میں محمود عقاد کے گھر منعقد ہوتا۔قدرتی مناظر میں بے حد دلچسپی  لیتے، سرسبزو شادابی کو محبوب ترین رکھتے، اپنے مکان کے احاطے میں ایک بستان میں ہر شام آبپاشی کیا کرتے۔اور وہاں سے گزرتی ہوئی ہواؤں کو معطر کیا کرتے۔ خرگوش، مور اور ہرن وغیرہ آپکے پسندیدہ حیوانات تھے، خصوصاً عربی نغمے او رہندی غزلیں بھی سماعت فرماتے تھے۔

ازدواجی زندگی:

                1966ء میں اعلی تعلیم سے وطن کی واپسی پر آپکی شادی مبارک فاطمہ بنت سید بافقی تنگل باشندۂ کیرل سے ہوئی۔ان سے آپ کو پانچ صالح اولاد بطور تحفہء خداوندی میں حاصل ہوئیں۔چمنستان اسلام کے ان پانچ پھولوں سے آج بھی کیرلا معطر ہو رہا ہے وہ پانچ پھول دو بیٹے مثل گلاب سید بشیر علی، سید منور علی اور تین چمیلی بیٹیا ں سیدہ زہرہ، سیدہ فیروزہ او رسیدہ شمیرہ ہیں2006ء میں آپکی بیوی جہان فانی سے راہی عالم جاودانی ہوگئیں ۔اسکے بعد آپکا دوسرا نکاح عائشہ بی سے ہوا مگر خدا نے انکو بطور امتحان اولاد سے محروم رکھا۔

سیاست میں آمد:

                کہتے ہیں نا کہ ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“ آپکے والد کی اس دار فانی سے دار بقا کی طرف رخصتی کے بعد آپ کی سیاست میں آمد ہوئی او رسیاست کے پہلے مرحلے میں ہی انکو مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا۔

                آپکے رگ وپے میں خدمت خلق کا جذبہ اتنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ آپ سیاست میں قدم رکھتے ہی اپنے نفس نفیس کو بھول گئے اور عوام الناس کے لئے اپنی حیات مستعار کو صرف کردئے۔قوم کے زوال کو عروج بخشا، ملک کی تخریب شدہ تاریخ میں ترقی کے نئے باب کا آغاز کیا۔ انکی جد و جہد، سعی مسلسل، اور ان سے لوگوں کی بے حساب وابستگی نے مقبولیت کے بام عروج پر پہنچادیا۔آپ نے کاروان مسلم لیگ کو کامیابی کے ہفت افلاک پر پہنچادیا۔ انکی آمد نے گویا کہ تاریخ ہند کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔سیاست میں داخل ہوتے ہی ملت کا درد، قوم کی خدمت، سماج کی ترقی، لوگوں کی فلاح و بہبودی اور سماج کے سدھار کے اقدامات کی ہمہ وقت فکر کیا کرتے ہمیشہ عوامی سرگرمیوں، فلاحی اموروں،رفاہی کاموں میں سرگرداں رہتے۔لوگوں کے مسائل بلا تفریق مذہب و ملت بڑی جانفشانی، دیانتداری، وفاداری، عرق ریزی، دل سوزی اور پتا مری سے انجام دیتے۔ غرض کے دامے درمے قدمے سخنے ہر نہج سے دین و ملت کی خدمت کرتے ان کے اخلاص و خلوص ہی کا نتیجہ کہیئے کہ بلا تفریق مذہب و قوم و ملت نوجوان،مرد عورت، بڑ ے بوڑھے ہر شخص انکا شیدائی و گرویدہ ہے۔

                1974ء میں آپ کو جمعیۃ الشبان کا صدر مقرر کیا گیا، 500 سے زائد مسجدوں کے قاضی اور سینکڑوں کلیات و مدارس اسلامیہ کے صدر تھے، جس میں جامعہ نوریہ فیضاباد، کلیہ انوریہ فتشرا، جامعہ دار الہد ی الاسلامیہ چماڈ وغیرہ قابل ذکرہیں۔سید صاحب سراپا ہمدرد و غم گسار تھے، جھوٹی عزت، سستی شہرت اورمثقمانہ جذبات سے پاک و بے نیاز تھے۔آپ یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کے حسین پیکر تھے۔اسکا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر جدید چیز کا افتتاح آپکے دست مبارک سے کیاجاتا اتنی شہرت و عزت کے باوجود رائی کے برابر کبر و تکبر، گھمنڈ و غرور نہیں دیکھا گیابلکہ تواضع، خاکساری، انکساری اور عاجزی سے انکی سرشت کا رشتہ ایسا تھا جیسے دامن چولی کا۔ نام و نمود کی چاہ نہ مقبولیت کی خواہش ایسے ہی برگزیدہ نفوس کے لئے قرآن کی سورہ قصص میں کہا گیا ” تلك الدار الآخرة نجعلها للذين لا يريدون علوا في الأرض ولا فسادا والعاقبة للمتقين“۔

                سید صاحب کے ہیبت و وقار کے بارے میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب بھی سمندر میں ہیجانی و طغیانی و سیلاب آتا یا سمندر کی موجیں ٹھاٹھیں مارتیں یا بحر میں طوفان و آندھی کے آثار نمودار ہوتے تو لوگ آپ کی بارگاہ میں شکوہ و شکایت لے کر پہنچ جاتے اور ان سے اپنا گلہ پیش کرتے اور کہتے کہ سمندر میں آندھی و طوفان کے باعث ہمیں مچھلیاں شکار کرنے میں دقت پیش ہو رہی ہے تو سید صاحب کسی رقعہ پر کچھ تحریر فرماکراس پر دم کرتے اور کہتے اس رقعہ کو سمندر میں ڈال دو۔ سمندر میں ڈالتے ہی ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنی اصلی حالت پر آجاتا اور لوگ اطمنان و سکون کے ساتھ م مچھلیوں کا   شکار کرتے اور ہشاش و بشاش و خوش خرم ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے۔

تصنیف و تالیف:

                آپ سیاسی، ملی، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں قوم کو ترقی کی شاہراہ پر لا کھڑ ا کرنے میں، عوام الناس کے تابناک پس منظر کو فلاح و بہبود کا پیغام دینے میں خدمت خلق کے عمیق سمندر میں اتنے غرق ہوئے کہ آپکو کوئی خاص تصنیف و تالیف کا موقعہ فراہم نہ ہوا۔ البتہ آپ اپنے عزم مصمم اور سعی جمیل سے خلیل جبران کی عربی ناول کا ترجمہ ملیالم زبان  میں کیا، جسے علاقائی اخبار’چندرکا‘نے قسط وار شائع کیا اور دوماہی عربی جریدہ ’النہضۃ‘کی پہلی اشاعت کے مبارک موقعہ پر ’الوعی الحدیث‘کالم کے لئے آپ نے عربی زبان میں مقالہ بعنوان ’ایاکم والفرقۃ‘تحریر کیا۔

مراسم و روابط:

                جس طرح چمنستان کے پھولوں کو باد نسیم و باد صبا سے لگاؤ ہوتا ہے، باد صبا کو گلوں سے ایک دلی محبت ہوتی ہے۔جس طرح مدھو مکھی کو گلوں کے رس سے چاہت ہوتی ہے بالکل اسی طرح سید صاحب کے ہند و بیرون ہندکی مشہورو معروف وممتازو عباقرہ شخصیات سے بہت ہی گہرے اور پکے تعلقات و روابط اور جان پہچان تھی۔ان میں سے چند شخصیات عبداللہ صاحب صدر مالدیپ، حسنی مبارک سابق رئیس مصر، نوبل یافتہ نجیب محفوظ اور مصطفی عقاد کا سید صاحب سے دلی لگاؤ تھا۔

وفات:

                زندگی کے مراحلوں کو عبور کرتے ہوئے سید صاحب زندگی کے آخری موڑسے گزر رہے تھے کہ آپ اسی لمحہ سخت علیل ہوگئے۔ انکی زندگی موت کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ حیات کسی بھی ساعت میں ان سے بے وفائی کرسکتی تھی۔اور قزاقِ اجل کسی بھی لمحہ انہیں اپنے سینے سے لگا کر انکے وجود کو ہمیشہ کے لئے وقت کی گہری دھند میں گم کر سکتے تھے۔اسی وجہ سے لوگ جوق در جوق، فوج درفوج آپ کی خدمت میں حاضری دینے لگے۔خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے آستانہء عالیہ میں آخری حاضری کا شرف حاصل کرنے لگے تھے۔شاید انہیں احساس ہونے لگا تھا کہ چمنستان کے پھولوں میں سے کوئی پھول مرجھانے والا ہے۔ نور کی کرنوں میں سے کوئی کرن دنیا سے روپوش ہونے والی ہے اب یہ عبقری شخصیت ہمارے درمیاں سے حیات باقی کے لئے سفر کی تیاری کررہی ہے۔ 31 جولائی2000؁ء کو اسپتال میں بھرتی کرایا گیا لیکن -” وما الناس إلا راحل ومودع“ – ۱  اگست ۹۰۰۲ء کو رات آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر تہتر سال کی عمر میں سید گھرانے کا یہ  جھلملاتا، ٹمٹماتا،چمکتا، دمکتا اور  جلتا دیا ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔”انا للہ وانا الیہ راجعون“

وماکان سید ہلکہ ہلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تہدما

 

از:  محمد دانش رضا

متعلم جامعہ دار الہدی الاسلامیہ

چماڈ، ملاپرم، کیرالا



Source link

Exit mobile version