Site icon Islamicus

حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے اصلاحی افکار: ایک مطالعہ



    حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی ہمیشہ رہی ہے، یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِس میں فتح حق کی ہوتی ہے۔ یہ تاریخ کا ایک عجیب مرحلہ ہے کہ جب انسانیت پر جور و ستم اور ظلم و جفا شباب کو پہنچتا ہے تو اصلاح و تجدید کی صورت بھی بارگاہِ ایزدی سے پیدا کی جاتی ہے۔ اور ایک عظیم ذات جلوہ گر ہوتی ہے جس سے فتنوں کا استیصال و سدِ باب ہوتا ہے، حق کوتقویت پہنچتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے اُن ادوار کا جائزہ لیجیے جب فتنے شباب پر تھے، عقیدہ و ایمان پر شب خون مارے جارہے تھے تو ایسے ہی حالات میں اصلاح کے لیے جو شخصیت جلوہ گر ہوئی وہ مقامِ عظمت پر فائز ہوئی۔ اور ان کے اَفکار و کردار، کارہائے نمایاں نے وہ اثرات مرتب کیے جس سے اسلامی تاریخ کا چہرہ روشن و تاباں ہے۔ ایسی ہی ذات حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃوالرضوان کی ہے۔

 

    آپ کی خدمات کے تجزیے کے لیے آپ کے عہد کا مطالعہ ضروری و لازمی ہے۔ عہدِ رفاعی بڑا ہول ناک اور طوفاں خیز تھا، عراق و نَواح فتنوں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ فلاسفہ کا الگ زور تھا۔ فلاسفہ کے وہ نظریات جو یونان سے عربی میں منتقل ہوئے تھے اُس سے جہاں اسلامی طب سے اشتراک کے نتیجے میں خوش گوار اثرات بر آمد ہوئے وہیں فلسفۂ یونان کے فاسد نظریات اور لادینی افکار نے ذہنوں کو بانجھ بنانا شروع کر دیا۔ عقیدہ و ایمان کی لہلہلاتی فصل فتنوں کے شعلوں کی نذر ہونے لگی۔ اِس پس منظر میں معروف محقق علامہ شمس بریلوی لکھتے ہیں:

 

    ’’بنو امیہ اور بنو عباس نے اپنی سلطنت کے استحقاق و استحکام کے لیے عرب و عجم میں جس طرح خون کی ندیاں بہائیں وہ ایک تاریخی حقیقت ہے… مسلمانوں کے مابین مخاصمت، جنگ و جدل، سیاسی کش مکش اور حصولِ اقتدار کے لیے خوں ریزی اور دشمن کشی کا ایسا دور ہے کہ عرب و عجم میں( اِس) سلسلے میں لاکھوں مسلمانوں کی گردنیں مسلمانوں (ہی)نے کاٹ کر پھینک دیں۔ عباسی سلطنت کے قیام کے بعد اِس خوں ریزی کے سیلاب میں کچھ ٹھہراؤ پیدا ہوا لیکن مہدی کے بعد یہ سیل پھر تُند رَو ہو گیا۔‘‘   ۱؎

 

    اعتزال کا فتنہ اٹھا، فتنۂ باطنیہ نے سر ابھارا، باطنیوں اور فدائیوں کی فتنہ سامانیوں نے اسلامی مملکت کی جڑیں کھوکھلی کرنی شروع کیں۔ ایسے پر فتن دور میں عالمِ اسلام میں فتنوں کی بیخ کنی کو غوث الاعظم حضرت عبدالقادر جیلانی اور کبیرالاولیا حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہٗ(۵۱۴ھ-۵۷۸ھ) جیسی ہستیاں ظہور پذیر ہوئیں۔ جن کی بے مثال خدمات اور فکرو تدبر اور تحریکِ انسان سازی نے مسلمانوں کی اعتقادی اور فکری قوت کو سہارا دیا۔

 

    حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ والرضوان جن کی اصلاحی کا خدمات کا ذکر یہاں مقصود ہے، اُن کے کارناموں نے چھٹی صدی ہجری کے فلسفۂ خشک کے مقابل اسلام کے پاکیزہ نظامِ روحانیت کے ذریعے تطہیرِفکر کا سامان کیا، وہ فتنے جو داخلی و خارجی طور پر رونما ہوئے تھے آپ نے اپنی بے مثال کاوش اور اصلاحِ باطن سے اُن کا صفایا کر دیا، آپ کی خدمات کا یہ باب بڑا ہمہ گیر اور اثر انگیز ہے، آپ کی تعلیمات کا ہر ہر پہلو معنویت و معارِف سے لبریز ہے جن میں فکر و بصیرت کی اصلاح کا بہت کچھ سامان مہیا ہے:

 

دو عالَم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

 

    احیاے دین کے لیے جہاں حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنی خدمات کے نقوش قائم کیے وہیں معاشرتی اصلاح اور بدعات کے خاتمے کے لیے بھی اہم کردار انجام دیا۔ جس کے ہمہ گیر اثرات ظاہر ہوئے، مواعظ و ارشادات کے ذریعے مخلوق کی تربیت اولیاے کرام کی خصوصیت رہی ہے، کبیرالاولیا حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہٗ(۵۱۴ھ-۵۷۸ھ) کے مواعظ تو کافی اہمیت و تاثیر رکھتے ہیں۔ اِس بابت سید رضی الدین رفاعی رقم طراز ہیں:

 

    ’’آپ کی مجالسِ واعظ و ارشاد میں ہزارہا لوگ گناہوں سے تائب ہو کر جاتے، نصاریٰ، یہود اور آتش پرست گروہ در گروہ آپ کی مجالس اور نصائح میں اسلام سے مشرف ہوتے۔‘‘۲؎

 

    اتباع سنت آپ کا مشن تھا، بدعات کے خاتمہ کے لیے ساری زندگی سرگرم عمل رہے،محمد عبداللہ قریشی فرماتے ہیں:

 

    اتباع سنت کے آپ خود بھی پابند تھے اور خدام کو بھی یہی تاکید فرماتے تھے، دنیا دار صوفی مشرف لوگوں نے جو باتیں خلافِ شرع ایجاد کر رکھی تھیں آپ ہمیشہ اُن کو مٹانے کی کوشش فرماتے اور بدعتوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ ۳؎

 

    سنت و شریعت کے معاملے میں مداہنت یا سمجھوتہ کبھی نہ کیا۔ آپ کی حیاتِ طیبہ کا یہ گوشہ لایق توجہ بھی ہے اور مسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل بھی۔ شاید اِس پر ہمارے مسلمان بھائی توجہ دیں اور اپنی زندگی کی تعمیر کے لیے رفاعی تعلیمات سے استفادہ کریں، مولانا غلام علی قادری رفاعی تحریر فرماتے ہیں:

 

    وعظ و ارشاد کا سلسلہ بھی جاری فرمایا جس میں سارا زور اِس پر ہوتا کہ سنت و شریعت پر عمل کر کے اپنی زندگی میں اُجالا پیدا کرو۔ اِس کے بغیر نہ ولایت ملتی ہے نہ خدا ملتا ہے ،وصول اِلی اللہ کا راستہ صرف یہی ہے کہ شریعتِ مطہرہ پر اپنی زندگی ڈھال لی جائے اِس کے سوا جو راستہ ہے وہ محض گم راہی اور زندقہ ہے۔ ۴؎

 

    سر زمین ہندوستان میں ۲۰؍ویں صدی میں ایسا لگتا ہے کہ حضرتِ رفاعی کی تعلیمات کا احیا امام احمد رضا قدس سرہٗ نے فرمایا، آپ نے بدعات کے خلاف جدوجہد کی اور کام یاب کاوش کی۔ ہم تعلیماتِ رضا میں تعلیماتِ حضرتِ رفاعی کے جلوے واضح طور پر پاتے ہیں۔

 

    حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ والرضوان کے سوانح نگاروں نے اِس پہلو پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے کہ اکثر فیض یافتگان کے دل کی دنیا میں آپ کے ارشادات و ملفوظات سے انقلاب برپا ہوا۔ آپ کی گفتگو موثِراور دلوں میں اُترنے والی ہوتی۔آپ کے ارشادات کے مطالعہ سے آپ کی وسعتِ علمی، جلالتِ علمی،استحضارِ علمی، روحانی مقام اور سنتِ نبوی کی پاس داری کااندازا ہوتا ہے۔ آپ کے اصلاحی افکار کی چند جھلکیاں اختصار میں ملاحظہ کریں اور اپنی زندگی کے طاق پر آپ کی تعلیمات کا پاکیزہ چراغ روشن کرلیں۔

 

    چھٹی صدی ہجری کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے آپ نے احیاے سنت کا فریضہ انجام دیا، اِس تعلق سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں:

 

    حضرت پیغمبر ذی شان علیہ الصلاۃ والسلام کے دامن کو پکڑ اور شرع شریف کو نظر کے سامنے رکھ! اجماعِ اُمت کی شاہ راہ تجھ پر آشکارا ہے اور اہل سنت کے گروہ سے جو کہ مسلمانوں میں نجات پانے والا فرقہ (سوا دِ اعظم اہل سنت و جماعت) ہے دور نہ ہو۔ ۵؎

 

    بھائی میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہٗ سے ڈرتے رہو، اور سنتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ ۶؎

 

    حضرت رفاعی علیہ الرحمہ کے دور میں طریقت کو شریعت سے علاحدہ سمجھنے والا گروہ بھی سرگرم تھا، شریعت سے فرار کی راہ اختیار کرنے والوں کی آپ نے تردید کی اور فرمایا:

 

    جو حقیقت شریعت سے جدا ہو وہ زندیقہ ہے … طریقت عینِ شریعت ہے۔ ۷؎

 

    بدعات کا سدباب حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ والرضوان کا اہم کارنامہ ہے، اِس تناظر میں آپ کے کثیر ارشادات و ملفوظات کتبِ سلسلۂ رفاعیہ میں ملتے ہیں، مثال کے طور پر چند ارشادات ذکر کیے جاتے ہیں، آپ ارشاد فرماتے ہیں:

 

(۱)  جھوٹا وہ ہے جس کی بنیاد بدعتوں پر ہے اور عقل مند وہ ہے جو بدعات سے پاک ہو۔ ۸؎

(۲)  جو شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریقے کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرتا ہے گم راہ ہوتا ہے… پیرویِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستہ پر چلتا رہ اِس لیے کہ پیرویِ رسول ہی کا راستہ بھلا ہے اور بدعت کا راستہ بُرا ہے۔ ۹؎

(۳)  وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلتا ہے۔۱۰؎

    موجودہ دور میں ولایت، تصوف اور طریقت کے حوالے سے جو کام انجام دیے جارہے وہ مخفی و پوشیدہ نہیں۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو اسلام کے نظامِ تصوف و روحانیت کو بدعت، عجمیت، باطنیت سے تعبیر کرتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جوخود کو تصوف کا حامل سمجھتا ہے لیکن اتباعِ نفس نے اُن کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے، ولایت و تصوف اور اسلام کے روحانی نظام کے بارے میں حضرت سید احمد کبیر رفاعی کا مسلک بڑا متوازن اور اسلامی فکرو خیال کا پاسبان ہے، فرماتے ہیں:

(۱)  تین چیزیں یعنی غرور، بے وقوفی اور کنجوسی ایسی ہیں کہ اگر کسی میں ہوں تو جب تک اُس میں سے دور نہ ہو جائیں ولی نہیں ہو سکتا… کسی شخص کو تو اگر ہوا میں اڑتے دیکھے تو بھی جب تک تو اُس کے اقوال و افعال کو شرع کی ترازو میں نہ تول لے اُس کا اعتبار نہ کر۔ ۱۱؎

(۲)  ولی وہ مرد ہے جو دل و جان سے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن پکڑے اور خدا سے راضی ہو۔ ۱۲؎

(۳)  جب تک انسان کے دل سے تکبر و حماقت اور بخل کی صفتیں زائل نہ ہوں اُس وقت تک وہ ولی نہیں بن سکتا۔ ۱۳؎

 

    تعلیماتِ رفاعی کے چند پہلو بلا تبصرہ ذکر کر دیے جاتے ہیں۔

    ضرورتِ مرشد کی بابت آپ ارشاد فرماتے ہیں:

 

    جو شخص بغیر مرشد کے راستے میں چلتا ہے ، اُلٹے پاؤں واپس آتا ہے،۱۴؎

 

    صوفیا کی اصلاحی تعلیمات میں ’’دوستی‘‘ کا کیا مقام ہے اِس بابت حضرت سید احمد کبیر رفاعی فرماتے ہیں:

 

    دوست کی یہ علامت ہے کہ وہ خالص خدا کے لیے دوستی کرتا ہے، اگر ایسا کوئی رفیق مل جائے تو اُس سے رسم و راہ پیدا کر،اِس لیے کہ سچے دوست نہیں ملتے ہیں۔ ۱۵؎

 

    دوست وہ ہے جو صرف خدا کے لیے دوست ہو۔ ۱۶؎

 

    قناعت و استقامت کی بابت آپ کا ارشاد ہے:

 

    بصیرت اور دل کی صفائی اور آنکھوں کے نور کی رسائی کم کھانے اور کم پینے سے حاصل ہوتی ہے، اِس لیے کہ بھوک خود بینی، کُبر اور غرور کو مٹا تی ہے اور اِس کے ذریعے سے نفس کو یہ تکلیف دی جاتی ہے کہ حق کی طرف رجوع کرے، در اصل بھوک سے بہتر کوئی نفس کو توڑنے والی چیز میں نے نہیں دیکھی۔ ۱۷؎

 

    اگر تو خداے کریم کی رضا پر راضی رہے گا تو تمام مصیبتوں سے بے خوف ہو جائے گا۔۱۸؎

 

    فقر سے متعلق فرماتے ہیں:

    فقیر ہونے کی شرائط میں سے ہے کہ لوگوں کے عیوب پر اُس کی نظر نہ ہو بلکہ اُن کے عیوب دور کرنے کی طرف(نظر ہو)۔۱۹؎

 

    عزت عطاے ایزدی سے ملتی ہے، اِس بابت تعلیماتِ رفاعی کا یہ نکتہ کوڈ کرنے کے لایق ہے، فرماتے ہیں:

 

    جسے خدا عزت دے وہ ہر جگہ باعزت رہتا ہے، اور جسے بندے عزت دیں ضروری نہیں کہ وہ ہر جگہ باعزت ہو۔۲۰؎

 

    حضرت سید احمد کبیر رفاعی کی تعلیمات میں جو گہرائی و گیرائی ہے وہ موجودہ عہد کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے، آپ کی مومنانہ بصیرت نے مستقبل کے لیے اصلاحِ فکر و نظر کا سامان کیا، اپنی شانِ بے نیازی اور اصلاحی تعلیمات سے دل کی دنیا میں وہ انقلاب برپا کیا جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں:

 

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان

 

    تنگیِ وقت کے سبب چند نکات افکارِ رفاعی سے بیان کیے گئے، اسلام کے نظامِ روحانیت کے بارے میں اغیار ، مستشرقین (Orientalist)  نے بھی اعترافِ حقیقت کیاہے، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد بھی اسلام کی اشاعت کا مقدس فریضہ صوفیاے کرام نے کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔ حضرت سید احمد کبیر رفاعی کے داعیانہ مشن اور افکار نے مَن کی دنیا میں عشق و عرفان اور عقیدہ و عمل کے وہ گل و لالہ کھلائے جن کی خوش بوؤں سے ذہن و دماغ معطر ہیں۔حضرت سید احمد کبیر رفاعی کی خدمات اور اُن کے تناظر میں پروفیسر ہملٹن گب کے اِس اعتراف پر میں اپنی گفتگو کو سمیٹتا ہوں:

 

    ’’تاریخِ اسلامی میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا، لیکن بہ ایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہو سکا، اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیا کا اندازِ فکر فوراً اُس کی مدد کو آجاتا تھا، اور اُس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اُس کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی۔‘‘ ۲۱؎

 

    ضرورت اِس بات کی ہے کہ مادیت، لادینیت، ماڈرنائزیشن، گلوبلائزیشن کے اِس دور میں عقیدہ و عمل کی اصلاح اور اشاعت دینِ حق کے لیے حضرتِ رفاعی علیہ الرحمۃ والرضوان کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے اور آپ کے اصلاحی افکار سے مسلمانوں میں دینی اسپرٹ پیدا کی جائے، یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اگر ہم نے اپنے محسنین کی تعلیمات کی اشاعت کو مطمح نظر بنا لیں تو وہ سحر نمودار ہو گی جس سے ایمانی فصل سرسبزوشاداب ہو جائے گی:

 

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

 

٭٭٭

 

حوالہ جات:

(۱)    اہل سنت کی آواز، گوشۂ غوث اعظم، مطبوعہ مارہرہ مہرہ، ص۱۲۰۔۱۲۱

(۲)    شان رفاعی، دوم،ص۴۰

(۳)    مقدمہ؛حکمت رفاعی،ص۱۹

(۴)    کبیرالاولیا رفاعی،ص۳۴

(۵)    حکمت رفاعی،ص۶

(۶)    حوالۂ سابق،ص۳۳۔۳۴

(۷)    حکمت رفاعی،ص۳۵۔۴۰

(۸)    حوالۂ سابق،ص۳۸

(۹)    حوالۂ سابق،ص۵۵۔۵۸

(۱۰)    شان رفاعی،دوم،ص۴۷

(۱۱)    حکمت رفاعی،ص۴۱۔۴۵

(۱۲)    حوالۂ سابق،ص۵۵

(۱۳)    شان رفاعی،دوم،ص۴۶

(۱۴)    حکمت رفاعی،ص۴۶

(۱۵)    حوالۂ سابق،ص۵۱

(۱۶)    شان رفاعی،دوم،ص۴۷

(۱۷)    حوالۂ سابق،ص۶۳

(۱۸)    حوالۂ سابق،ص۴۵

(۱۹)    حوالۂ سابق،ص۴۳

(۲۰)    حوالۂ سابق،ص۴۶

(۲۱)    اہل سنت کی آواز، مطبوعہ مارہرہ مطہرہ، تصوف نمبر،ص۲۳۱

 

غلام مصطفٰی رضوی

نوری مشن مالیگاؤں



Source link

Exit mobile version